خطباتِ رسولؐ

ترتیب: عبدالعزیز
تاکید جمعہ: غزوۂ احد کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
’’لوگو! ابھی ابھی مجھے وحی کی گئی ہے کہ جو شخص کسی حرام کام میں مبتلا ہو پھر ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اسے چھوڑ دے، اس کے گناہ خداوند کریم معاف فرما دیتا ہے اور جو شخص کسی مومن یا کافر کے ساتھ نیکی کرے وہ اپنا بدلہ ضرور پاتا ہے، جلدی حاصل ہونے والی دنیا میں یا دیر سے آنے والی آخرت میں۔ اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھنے والوں پر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز فرض ہے۔ ہاں؛ بچوں پر، عورتوں پر، بیماروں پر اور غلاموں پر فرض نہیں (وہ ظہر پڑھ لیں) ۔ یاد رکھو جو جمعہ کی نماز سے بے پروائی کرے اللہ تعالیٰ بھی اس سے منہ موڑ لے گا اور اللہ تعالیٰ (سارے جہان سے) بے نیاز، بے پروا اور غنی ہے اور وہی تعریفوں والا اور مستحق تعریف ہے‘‘۔ (مجمع الزوائد)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: حضرت علقمہ بن سعیدؓ سے روایت ہے کہ ایک روزہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں بعض مسلمان قبیلوں کی تعریف کی، پھر فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ نہ تو اپنے پڑوسیوں کو (دین) سمجھاتے ہیں، نہ انھیں علم سکھاتے ہیں، نہ انھیں نصیحت کرتے ہیں، نہ انھیں بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور نہ انھیں برائیوں سے روکتے ہیں۔ اور کیا حال ہے ان لوگوں کا جو اپنے پڑوسیوں سے نہ (دین) سیکھتے ہیں، نہ پندو نصیحت سنتے ہیں۔ واللہ! لوگ یا تو اپنے آس پاس والوں کو سکھائیں، سمجھائیں، نصیحت کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور لوگ آس پاس والوں سے سیکھیں سمجھیں، وعظ و نصیحت حاصل کریں ورنہ میں دنیا میں ہی انھیں سخت سزا دوں گا‘‘۔ (طبرانی کبیر)
خیانت اور طمع: حضرت حرماسؓ بن زیاد سے روایت ہے کہ ایک بار رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناقہ پر بیٹھے بیٹھے خطبہ دیا، جس میں فرمایا: ’’خیانت سے بچو کہ وہ بدترین ساتھی ہے۔ ظلم سے بچو کہ وہ قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا۔ طمع اور لالچ سے بچو کہ اسی چیز نے تم سے پہلوں کو غارت کر دیا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہانے لگے اور انھوں نے اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالے‘‘۔ (طبرانی اوسط و کبیر)
اللّٰہ سے عافیت طلب کرو: ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خطبے کیلئے منبر پر کھڑے ہوئے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: ’’پہلے ہی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ سنانے کیلئے منبر پر کھڑے ہوئے اور روپڑے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان کے بعد کسی کو کوئی نعمت عافیت سے بہتر عطا نہیں کی گئی‘‘۔ (ترمذی)
دوزخ سے بچو: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپؐ نے فرمایا: ’’آتش دوزخ سے بچو گو آدھی کھجور سے ہی ہو، کیونکہ وہ (صدقہ) کجی کو درست کر دیتا ہے، بری موت کو دور کر دیتا ہے اور وہ بھوکے کیلئے بھی اتنا ہی کام کرتا ہے، جتنا سیر شدہ کیلئے‘‘۔ (ابویعلی)
کبائر سے اجتناب: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار منبر پر چڑھے اور دو مرتبہ قسم کھائی۔ پھر منبر سے اتر آئے۔ پھر فرمایا: ’’خوش ہوجاؤ، خوش ہوجاؤ، بشارت سن لو، جو پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا، جنت میں داخل ہوجائے گا‘‘۔
مطلّب کہتے ہیں میں نے ایک شخص کو عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھتے سنا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان (کبیرہ گناہوں) کا ذکر کرتے سنا تھا؟ انھوں نے کہا: ہاں!(حضورؐ کے فرمان کے مطابق وہ گناہ یہ ہیں):
’’ماں باپ کی نافرمانی، اللہ کے ساتھ شرک ، ناحق کا قتل، پاک دامن عورتوں پر تہمت، یتیم کا مال کھا جانا، میدانِ جہاد سے بھاگ کھڑا ہونا اور سود کھانا‘‘۔ (طبرانی)
پانچ برائیاں: حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا: ’’اے گروہِ مہاجرین! میں خدا سے تمہارے لئے پانچ باتوں میں پڑنے سے پناہ مانگتا ہوں۔ جب کسی قوم میں برملا فحش کام ہونے لگتے ہیں تو وہ لوگ طاعون اور دوسری ایسی گوناگوں بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن سے ان کے اسلاف محض نا آشنا اور بے خبر تھے۔ اور جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی تو ان پر بارش بند ہوجاتی ہے۔ اگر ان کے چوپائے نہ ہوں تو ان پر مینہ کی ایک بوند بھی نہ برسے۔ اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ عہد شکنی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر دشمن مسلط کر دیتا ہے جو ان کے اموال چھین لیتا ہے۔ اور جب کسی ملک کے حکام احکامِ خداوندی کے مطابق فیصلے کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور احکام خداوندی میں اپنی مرضی برتتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قوم میں لڑائی ڈال دیتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
تین اہم باتیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے (ہمیں حکم دیا کہ ہم منبر کے پاس جمع ہوجائیں۔ جب ہم سب منبر کے پاس بیٹھ گئے تو) آپؐ منبر پر چڑھنے لگے۔ پہلے زینے پر اٰمین کہا۔ پھر دوسرے پر اٰمین کہا۔ پھر تیسرے زینے پر اٰمین کہا۔ پھر فرمایا: جانتے بھی ہو کہ خلافِ عادت آج میں نے ان تینوں زینوں پر تین مرتبہ اٰمین کیوں کہا؟ ہم نے کہا: حضورؐ کو علم ہوگا اور اللہ جانتا ہے، ہم بے خبر ہیں۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انھوں نے کہا: جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا نام لیا جائے اور وہ درود نہ پڑھے تو اللہ اسے غارت و برباد کرے۔ میں نے کہا اٰمین۔ پھر انھوں نے کہا: جس نے اپنے ماں باپ کے یا ان دونوں میں سے ایک کے بڑھاپے کے زمانے کو پایا پھر بھی ان کی خدمت نہ کی اور جہنم میں داخل ہوگیا، اللہ اسے برباد کرے۔ میں نے کہا :اٰمین۔ پھر انھوں نے کہا: جو رمضان المبارک کو پائے اور پھر بھی بخشش خدا سے محروم رہ کر جہنم میں جائے۔ اللہ اسے بھی اپنی رحمت سے دور کردے۔ میں نے کہا اٰمین‘‘۔ (طبرانی)
دنیا کی مہلت غنیمت ہے: ایک بار جمعہ کے خطبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! تمہارے لئے نشان ہیں وہیں ٹھہر جایا کرو۔ تمہارے لئے ایک انتہائی حد ہے اپنی اس حد پر رک جایا کرو۔ مومن دو خوف کے درمیان ہے۔ گزری ہوئی عمر کے بارے میں بھی اسے کھٹکا ہے کہ نہ جانے اللہ پاک نے اس میں اس کیلئے کیا کیا ہے۔ اسی طرح باقی عمر کے بارے میں بھی اسے ڈر ہے کہ نہیں معلوم اللہ اس کے بارے میں کیا کرنے والا ہے۔ پس مومن کا فرض ہے کہ اپنی ذات سے اپنے لئے توشہ جمع کرلے۔ اپنی دنیا سے اپنی آخرت کا توشہ لے لے۔ اپنی جوانی سے اپنے بڑھاپے کا توشہ لے لے۔ اپنی تندرستی سے اپنی بیماری کا توشہ لے لے۔ تم آخرت کیلئے پیدا کئے گئے ہو اور دنیا تمہارے لئے بنائی گئی ہے۔ مسلمانو! اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے۔ موت کے بعد رضا جوئی کا کوئی موقع نہیں پھر تو ہر انسان کا گھر یا تو جنت ہے یا دوزخ۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں‘‘۔ (دُرِّ المنثور)
موت کی یاد: یہ خطبہ کسی میت کو دفن کرنے کے موقع پر ارشاد فرمایا گیا ہے، اس میں موت کی یاد دلاکر مسلمانوں کو نیک عمل کی نصیحت کی گئی ہے۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’لوگو! (ہماری غفلت کا یہ حال ہے) گویا موت ہمارے لئے نہیں بلکہ فقط دوسروں کیلئے مقرر ہوچکی ہے اور گویا حقوق کی ادائیگی ہم پر نہیں بلکہ تنہا دوسرے لوگوں پر واجب ہے اور جن مردوں کے ساتھ ہم قبرستان تک آتے ہیں گویا وہ چند دن کے مسافر ہیں جو واپس ہوکر ہم سے ملیں گے۔ ہم ان کی توقبر میں دفن کر دیتے ہیں اور ان کا مال ایسے اطمینان سے کھاتے ہیں گویا ہم کو ان کے بعد دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ نصیحت کی ہر بات ہم بھلا بیٹھے اور ہر آفت کی طرف سے مطمئن ہوچکے۔ مبارک باد ہے اس شخص کیلئے جو اپنے عیوب پر نظر کرکے دوسروں کی عیب جوئی سے بچ رہا۔ مبارکباد ہے اس کیلئے جس نے حلال کی کمائی خدا کی راہ میں خرچ کی۔ علماء اور عقلمندوں کی ہم نشینی اختیار کی اور غریبوں، مسکینوں کے ساتھ ملتا جلتا رہا۔ مبارک ہے وہ شخص جس کے اخلاق اچھے ہوں، دل پاکیزہ ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔ مبارک ہے وہ شخص جو ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں خرچ کرے اور فضول گفتگو سے پرہیز کرے۔ راہِ شریعت پر عمل کرنا اس کیلئے آسان ہو، اور بدعت اسے اپنی طرف راغب نہ کرسکے‘‘۔ (کنز العمال)

تبصرے بند ہیں۔