بہار میں سر پھروں کی ڈھٹائی حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی

بہار میں ایسے مجرموں کی ہمت اور جرأت جومن مانی کرنے میں ذرا بھی قانون اور پولیس سے نہیں ڈرتے، حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بہار کے شہر گیا کے قانون ساز کے ایک بیٹے نے ایک 19 سالہ طالب علم کو دن دہاڑے ریوالور کی گولیوں سے محض اس لئے بھون دیا کہ طالب علم نے سیاست داں کے حیوان صفت بیٹے کی کار کو گزرنے کا راستہ دینے میں کوتاہی کی۔ حکومت بہار کو ایسے مجرم کو پکڑنے میں تین دن لگ گئے اور مجرم کی سیاست داں ماں اپنے مجرم بیٹے کے قصور پر پردہ ڈالتی رہی اور اسے قانون کی نظر سے بچ نکلنے میں مدد کرتی رہی۔ ایسی قاتل نواز ماں کو حکمراں جماعت معطل کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔

ہندوستان میں سیاست میں جرائم زدہ افراد کا غلبہ ہے جو لوگ بڑے سے بڑے عہدہ پر فائز ہیں وہ غنڈوں، بدمعاشوں، قاتلوں اور زانیوں کے سرپرست ہیں۔ بعض سیاست دانوں کے پاس تو جرائم زدہ افراد کی ایسی جماعت ہوتی ہے جو روز و شب خطرناک و خوفناک قسم کے جرائم میں سرگرم عمل ہوتی ہے۔ سیاست دانوں کے مقاصد مجرمین اور ظالمین کو پناہ دینے کے دو ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنے دشمنوں اور معصوم اور بے قصور انسانوں پر رعب و دبدبہ جمانا ہوتا ہے اور دوسرا مقصد ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرسکیں۔ دوسروں کی جائیداد اور ملکیت کو اپنے قبضے میں لے سکیں۔

1997ء میں الیکشن کمیشن کے ایک ممبر نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ لوک سبھا کے الیکشن میں ایسے 1500 افراد امیدوار ہیں جن کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ پارلیمنٹ کی پچاسویں برسی کے موقع پر ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں پارٹیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو اپنی پارٹی کا امیدوار نہ بنائیں۔ سپریم کورٹ نے 2002ء میں ایک فیصلہ میں سنایا تھا کہ لوک سبھا، اسمبلیوں اور بلدیاتی انتخاب میں حصہ لینے والے اپنے خلاف مجرمانہ چارجز کے ریکارڈ بھی ڈِکلیئر کریں۔

افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان سب کے باوجود حالات میں کوئی فرق نہیں پڑا، پارٹیوں میں مجرم افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا۔ موجودہ لوک سبھا میں بھی قتل، زنا اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے جرائم سے وابستہ افراد کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کیلئے قانون بنانے کے پروسس میں حصہ لیتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے لوگوں سے کس قسم کا قانون بنے گا اور کس قسم کے لوگ ایسے مجرموں کے بنائے ہوئے قانون کا احترام کریں گے۔

جو لوگ جان بوجھ کر ظلم و زیادتی کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں یا ووٹ دیتے ہیں وہ کم بڑے مجرم نہیں ہوتے کیونکہ وہ ایسے ماحول پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں جس میں مجرموں اور ظالموں کی آؤ بھگت ہو اور ظالم بے قصوروں اورمعصوموں کو ستائیں اور پریشان کریں۔

نیوز چینل پر بیان دیتے ہوئے مظلوم ماں نے اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہاکہ اگر سیاست داں مجرموں اور ظالموں کواپنی پارٹی میں جگہ نہیں دیتے تو سیاستداں کا بیٹا مطلق العنان نہیں ہوتا اور نہ ہی میرے بیٹے کی گاڑی آگے ہونے کی وجہ سے اس کی جان لینے کی جرأت کرتا یہ سمجھ کر کہ اس کی ماں حکمراں جماعت سے تعلق رکھتی ہے اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایسا بھیانک جرم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا پس و پیش نہیں کی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بہار کی اپوزیشن پارٹیاں نتیش حکومت پر الزام عائد کر رہی ہیں کہ بہار میں جنگل راج واپس آگیا ہے اور یہ مطالبہ بھی کر رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کو برخاست کیا جائے۔ اپوزیشن کا تو یہ کام ہے کہ وہ مخالفت کرے اور عدل و انصاف کے حق میں آواز اٹھائے۔ حکومت کا بھی یہ کام ہونا چاہئے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش کرے اور کسی قسم کی کوئی رو رعایت نہ کرے اور نہ ہی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی کوئی بات سنے، جب ہی حالات میں بہتری آسکتی ہے۔

 اگر بہار کی حکومت حق و انصاف سے کام نہ کرسکی تو نتیش کے صاف ستھرے کردار پر حرف آئے گا اور وہ ملکی سیاست میں قائدانہ رول بھی ادا نہ کرسکیں گے۔

موبائل: [email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔