یہ درد لاعلاج تو نہیں

ظلم، تعصب اور امتیازی رویے ہر انسانی سماج میں موجود ہوتے ہیں مگر جب یہ اپنی حدیں پھلانگتے ہیں تو طاقتور سے طاقتورتہذیبیں مٹ جاتی ہیں،سپر پاور کی پوزیشن پر فائز ممالک کے جغرافیے بدل جاتے ہیں سرحدیں پہلے دلوں میں در آتی ہیں پھر زمین میں لکیریں کھینچی جاتی ہیں۔ تاریخ ایسی ہزارہا اذیت ناک مثالوں سے بھری پڑی ہے۔سوویت یونین کا بکھراؤ اور تقسیم ہند جیسے المیہ کے شاہد ابھی موجود ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی سماج، ملک اور اس کو چلانے والے ان سے سبق نہیں لیتے اور تاریخ کا پہیہ فطرت کے مطابق گھومتا رہتا ہے، قدرت کے اصولوں سے ٹکرا کر کوئی خیر نہیں مناسکتا۔

فرقہ پرستی کی صعوبتوں ، تباہیوں کے خونی دریا کو عبور کرنے کے بعد سنبھلنے کاموقع بھی نہیں ملا تھا کہ دہشت گردی کے عفریت نے اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے عذاب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فسادات میں سب کچھ خاک ہو جانے اور عزیزوں کے بچھڑ جانے کا غم وقت گزرنے کے ساتھ ہلکا ہو جاتا ہے اور رو دھو کر نئی زندگی کی تعمیر میں لگ جاتا ہے لیکن دہشت گردی کے جہنم میں ڈال دیے جانے کے بعد زندگی کی آخری سانس تک اس کی جھلسادینے والی تپش روح اور جسم پر آبلے ڈالتی رہتی ہے۔ تل تل کر مرتا ہے جینے کو دل نہیں چاہتا زمانے کی سوال بھری نگاہیں تیروں کی طرح چبھتی ہیں جو بے گناہ دہشت گرد، اس میں پھنسایا جاتا ہے اس پر تعذیب خانوں میں کیا گزرتی ہے ان واقعات کو پڑھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے ہم انہیں ابن صفی یا وید پرکاش شرما کے سنسنی خیز ناول کی طرح پڑھتے ہیں معلوم نہیں بدن میں جھرجھری آتی ہے یا نہیں۔ بے بسی کا احساس زیادہ ہوتا ہے یا قوت ارادی اور مضبوط ہوتی ہے خوف پیدا ہوتاہے یا عزت نفس کے ساتھ جینے کا عزم، مالیگاؤں بم دھماکہ کے ’بے گناہ دہشت گردوں‘ کی داستاں نے ہر انسان کو جس کے سینہ میں حساس دل دھڑکتا ہے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی سلسلے کی حال ہی میں ایک ہی دن کے اندر دو خبریں آئیں، ان پر سماج کے رویے کا رد عمل مصنوعی نفسیاتی کینچلی کو اتار دیتا ہے۔ دہلی کو دہلانے والے 13 مشتبہ دہشت گرد گرفت میں آئے ان کاتعلق جیش محمد سے ہے، ان کے پاس سے دھماکہ خیز مادہ برآمد ہوا وہ پٹھان کوٹ کی طرز پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ خبر چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں پورے دن شور مچاتی رہی۔ سائڈ اسٹوری پیش کی گئیں ہر بار کی طرح وہی پرانی اسکرپٹ جس میں صرف پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کا نقطہ نظر بتایاگیا۔ دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن کی خبریں بھی آئیں۔ ان میں سے تین مشتبہ کو گرفتار کر لیا گیا باقی 10لڑکوں کو تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا، لیکن اسے شہ سرخیوں میں جگہ نہیں ملی، جس دن کریک ڈاؤن ہوا سپریم کورٹ نے ابررحمت اور جلیس انصاری کو 23 سال بعد دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری کردیا۔ اس نے جے پور کی خصوصی ٹاڈا عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے دونوں کو بے قصور بتا کر رہا کرنے کا حکم دیا۔ خصوصی ٹاڈا عدالت کے جج ڈی کے ماتھر نے 28/ فروری 2004 کو اپنے فیصلے میں ابر رحمت کو 20 اور ڈاکٹر جلیس انصاری کو 15 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ ان دونوں کو دسمبر 1993 میں مختلف ٹرینوں میں سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ یہ خبر بھی اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ دہلی کو دہلا دینے کا خوفناک منصوبہ بنانے والے مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری مگر ہمیشہ کی طرح یہ خبر اندرونی کالم میں جگہ پاسکی اور الیکٹرانک میڈیا نے اس لائق بھی نہیں سمجھا۔

 اب یہاں چند سوال پیداہوتے ہیں کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور اس کا کوئی حل بھی ہے کیا مشتبہ دہشت گرد گرفتار ہوتے رہیں گے ان کے مقدمات لڑے جائیں گے آٹھ دس سال بعد وہ باعزت بری ہوجائیں گے اس پر اطمینان کا سانس بھی نہیں لے سکیں گے کہ پھر یہ واقعہ دہرایا جائے گا، کچھ اور لڑکے اٹھا لئے جائیں گے، کیا ہمارے اندرکچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں جو پوری ملت کو بدنام کرنے پر تلی ہیں کیا ملت ٹھنڈے پیٹوں یہ سب سہتی رہے یا جمہوری آئینی قانونی لڑائی کا کوئی راستہ نکالنا چاہے گی تاکہ ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔ کیا واقعی گمراہ نوجوان ہیںجن کی کونسلنگ کی ضرورت ہے آخر متعصب، تنگ نظر میڈیا کا کوئی علاج ہے ۔ آخر ہم اس سے امید کیوں قائم کرتے ہیں اور کیا میڈیا کو سدھارنے اور اس پر دباؤ بنانے کے لئے حکمت عملی بنانی چاہئے، رائے عامہ بنانے کا کوئی فارمولہ ہے یا نہیں کیاکسی ایک یا دو مسلم جماعتوں پر ہی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمات لڑیں، بے گناہ ملزموں کی داد رسی کریں۔ ان کے گھر بار کی خبر لیں ان کے بچوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا دعویٰ کرنے والی دیگر مسلم تنظیمیں صرف اخباری بیانات سے ہی کار ثواب میں حصہ لیتی رہیں گی، ان کے گرما گرم بیانات جو صرف اردو اخبارات میں ہی شائع ہوتے ہیں ان دکھوں کا مداوا کر سکیں گے۔

جہاں تک میڈیا کاسوال ہے پیشہ ورانہ صحافت کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف مسابقت ہے تو دوسری طرف صحافت مشنری میں بدل گئی ہے۔ اردو اخبارات یا تو سرمایہ داروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے ہیں اور جو ذاتی طور سے نکال رہے ہیں ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ میڈیا کارپوریٹ کا حصہ بن گیا ہے،صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے۔ ملک میں سیکڑوں نیوز چینل ہیں،سیاستداں، بلڈر اور چٹ فنڈ کے مالکان ان پر غالب ہیں۔ اسٹوڈیو میں بیٹھ کر فیصلے تھوپے جاتے ہیں سرکار بلکہ عدلیہ تک کو مجبور کرنے کی کوشش ہوتی ہے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس میڈیا کی آواز نہیں ہے، مسلم جماعتوں نے اس کی ضرورت کو اب تک محسوس نہیں کیا نہ ہی مسلم سرمایہ داروں نے میڈیا میں سرمایہ کاری کی زحمت کی، ہم کانفرنسوں اور جلسوں میں لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنی موجودگی درج کرانے کو قابل توجہ نہیں گردانتے، کروڑوں روپے لگا کر میڈیا امپائر کھڑا کرنے والے آخر ہماراموقف کیوں سنیں، جب انصاف و اخلاقیات کا معاملہ ہی نہیں صرف معاشی مفادات ہیں تو یہ توقع کیوں کی جاتی ہے کہ وہ ناانصافی کی لڑائی میں ہمارا ساتھ دیں اور کیوں دیں، ہم صرف لینے والے بننا چاہتے ہیں، لیکن دینے والے کب بنیں گے۔

دوسری طرف عام مسلمان سمجھتا ہے کہ مسجد اور مدرسہ میں انوسٹمنٹ ہی جنت میں جانے کا راستہ ہے وہ میڈیا میں انوسٹمنٹ کو دنیا داری خیال کرتا ہے۔ میڈیا پر الزام عائد کرنے کی بجائے ہمیں اس کا متبادل کھڑا کرنے کاراستہ ڈھونڈنا ہوگا ورنہ کہانی بار بار دہرائی جائے گی اور ہم شکوہ اور احتجاج ہی کرتے رہیں گے۔ جذباتی چپوؤں سے مسائل کی کشتی ساحل پر نہیں لائی جاسکتی۔

اب وقت آگیا ہے کہ بے گناہوں کی گرفتاری کے معاملہ کو ملک اور ملت کے سامنے لے جانا ہوگا۔ کمزور طبقات اور مسلم جماعتوں کو ایک ساتھ لاکرمسلم زعما ملک گیر دورہ کریں، یہ جمہوری ملک ہے آئینی حقوق کے لئے جمہوری راستہ ہی محفوظ اور قابل عمل ہے۔ اسی کے ساتھ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی سرگرم شرکت کو با سلیقہ بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ یہ بہت بڑا ہتھیار ہے، لیکن دودھاری بھی ہے۔ یہ بات ان کالموں میں بار بار کہی جاچکی ہے کہ ایک بار رام لیلا میدان میں دہشت گردی کے سوال پر بھی جمع ہوں۔ ایک لاکھ لوگوں کو لاکر بٹھا دیں اور مطالبات کے تسلیم ہونے تک نہ اٹھیں، اپنے مسلک و عقیدہ پر رہ کر فروعی اختلافات کو حدود میں رکھ کر ایک آواز میں پیغام کو پہنچانے کی ضرورت کو محسوس کیاجانا چاہئے۔یاد رکھئے کہ جب تک مستقل علاج تلاش نہیں کریں گے چوہوں کی طرح شکار ہوتا رہے گا۔ یہ ہماری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں فرضی طریقہ سے گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی تیز رفتار سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام، باعزت رہا ہونے والوں کو معاوضہ و باز آباد کاری کا انتظام اور انہیں پھنسانے والوں کو قرار واقعی سزا پر مشتمل سہ نکاتی مطالبے کو منوانے کے لئے سڑکوں پر اترنا ہوگا۔ جب کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر لیں لے تبھی کامیابی ملے گی۔ ہمیں انصاف پسند برادران وطن کا ساتھ تو ملے گا، لیکن سیکولر پارٹیوں سے کم از کم اس مسئلہ پر کوئی امید مت رکھئے کیونکہ جنہوں نے درد دیا ہے انہی سے دوالینا سادہ لوحی اور خود فریبی ہے۔ یہ صرف فصل کاٹنے آتی ہیں کھاد اور پانی نہیں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ یہ درد لاعلاج نہیں بس حوصلے کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے، پسینہ بہانے،خود پر بھروسہ کرنے، اپنی لڑائی کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے اور استقلال کے ساتھ جدو جہدکا عزم کرنا ہوگا، راستے خود بخود روشن ہوتے چلے جائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔