تعلیمی اداروں کی رینکنگ کا کھیل: غیر جمہوری کردار کا اعلانیہ ہے

صفدرا مام قادری

          آئے دن سوشل میڈیا اور اخبار و رسائل میں مختلف اداروں کے بارے میں اطّلاعات شایع ہوتی ہیں کہ فلاں یونی ور سٹی ملک میں پہلے مقام کی رینکنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اسی طرح فلاں کالج ٹاپ دس یا بیس یا پچاس میں جگہ نہیں بنا سکا۔ اگر ایک سال میں اس طرح کی رینکنگ کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو دس بارہ طرح کی درجہ بندی کے ادارے سامنے آجائیں گے۔ اسی وجہ سے کسی ادارے کو جنوری میں ایک ایجنسی تیسرا مقام دیتی ہے تو چھے مہینے کے بعد کسی دوسری ایجنسی کی جاری فہرست میں اسے دوسرا مقام دیا جائے گا اور وہ ادارہ اس بات کی وضاحت کرے گا کہ اس کی رینکنگ میں سدھار ہوا ہے۔ کبھی کبھی کچھ خاص مضامین اور شعبوں کی رینکنگ بھی سامنے آئے گی اور اس میں افضل اور اسفل کی فہرست بنائی جائے گی۔ رینکنگ جاری ہونے کے بعد ایسے ادارے جن کا مقام بہتر رہا،وہ اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے انتظام کاروں سے لے کر اساتذہ اور کبھی کبھی تحقیق کار اور طلبہ بھی مست اَلست دیکھے جاتے ہیں۔

          ملک میں یونی ورسٹیوں کے فروغ اور ان کے مالی بوجھ کو اٹھانے کے لیے یونی ور سٹی گرانٹس کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ انگریزی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد ملک کا قومی تعلیمی نظام کیسا ہو اور جہالت سے کس طرح ہم مقابلہ کر کے ملک کو تعلیم یافتہ بنا پائیں گے؛ اس کے بارے میں آزادی کے پہلے سے ہی غور و فکر شروع ہو گئی تھی۔ قومی معماروں کے ذہن میں یہ بات واضح تھی کہ جن مشکلوں سے ہمیں آزادی ملی ہے اور لوگوں نے جس طرح قربانیاں دے کر اپنے ملک کو آزاد کرایا؛تعلیمی نظام ان سب کے جذبات و احساسات اور ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھ کر قایم کیا جائے۔ ہمہ گیر تعلیم،تعلیمِ بالغان سے لے کر چرواہا اسکول تک کا قیام جنگِ آزادی کے خوابوں کا ہی ایک نتیجہ تھا۔ بڑے بڑے تکنیکی ادارے اور خصوصی ضروریات کے لیے تعلیم گاہیں جس تیزی سے ملک کے طول وارض میں پھیلیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک مدّت تک تعلیم کے امور میں یہ سنجیدگی قایم رہی اور حکمرانوں نے تعلیم کی توسیع کو بہت حد تک سرِ فہرست رکھا۔

          دیکھتے دیکھتے جب حکومتوں سے جنگِ آزادی کے مجاہدین کی نسل بتدریج گھٹتی چلی گئی اور نفع نقصان،اچھے، بُرے اور معیاری، غیر معیاری جیسی بنیادوں پر تعلیم گاہوں کی پہچان ہونے لگی۔ نریندر مودی کی پہلی وزارت میں تو باضابطہ طور پر ہر محکمے اور وزیر کی کار کر دگی کی ایک رینکنگ رپورٹ وزیر اعظم نے تیّار کرائی اور پرفارمنس کی بنیاد پر ادلا بدلی یا کچھ لوگوں کو حکومت سے باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ حالانکہ یہ سلسلہ مستقل نہیں ہوا مگر اس کے پیچھے جو تصّور ہے وہ خطرناک ہے۔ غالباً ان باتوں کی طرف کسی نے وزیرِ اعظم کو سمجھایا ہواور انھوں نے اپنے وزیروں کی رینکنگ کے حق کو پھر سے آزمانے سے خود کو روک لیا۔

          ژاں پال سارترنے نوبل انعام کو واپس کرتے ہوئے اپنے جو اعتراضات پیش کیے تھے، ان میں ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انعامات دے کر صاحبِ اقتدار طبقہ مصنّفین کے بیچ  اشراف طبقہ تیار کرتاہے۔ اس کے بعد وہ مصنف اپنی حقیقی جماعت سے الگ ہو کر خود کو اوپر سمجھنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ اپنی حقیقی جماعت سے علاحدہ ہو جاتا ہے۔ اس دن اس کا اپنے سماج پر اثر بھی ختم ہونے لگتا ہے۔

          یوں ہی ہندستان میں یونی ور سٹی تعلیم میں نا برابری کے اچھے خاصے جلوے دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ کہیں داخلے کی رکاوٹیں، کہیں بڑھی ہوئی فیسوں کا دباؤ ؛یہ رکاوٹیں اب بھی ایک بڑے طبقے کو ان اداروں کے دروازے تک پہنچنے سے روک رہی ہیں۔ ملک کی بو قلمونی اور گونا گوں ضرورتوں کے لیے ہر انداز کے ا دارے قایم ہوئے تھے مگر وہ تعلیمی جزیرے بنتے چلے گئے۔ ادارہ جاتی اشرافیت کا ایک نظام کھڑا کرنے کی کوشش ہوئی۔ جمہوری تقاضوں سے اس کا تال میل نہیں بیٹھ سکتا تھا مگر عالم کاری کے دباؤ کے بہانے حکومتوں نے مختلف درجوں کے ادارے خود تشکیل کیے۔ مرکزی یونی ور سٹیوں کا ایک منتخب شوشہ چھوڑا گیا۔ ۹۹ فیصد قوم کی گاڑھی کمائی سے ہزار قربانیوں کے ساتھ قایم شدہ اداروں کو مرکز نے اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرے اداروں سے بر تر دکھانے کا ایک انداز ایجاد کیا۔ گذشتہ برسوں میں پے بہ پے پرائیویٹ یونی ور سٹیاں کھلتی چلی گئیں۔ وہاں درو دیوار کے رنگ و روغن اور ملمع کاری سے یہ التباس پیدا کرنے کی کوشش ہوئی کہ سب سے اسمارٹ یہی ادارے ہیں۔ کہیں دو لاکھ اور کہیں چار لاکھ سالانہ فیس ادا کرنے کی مجبوری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ان روشن چہار دیواریوں میں کون سا طبقہ فیض اٹھا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نظامِ تعلیم کے موٹے موٹے قوانین بھی وہاں اپنی سہولت سے ختم کرکے رکھ دیے جاتے ہیں۔ مگر دور سے عام آدی کو اپنے تعلیمی اداروں سے نا مطمئن ہونے اور ان مرکزی یا پرائیویٹ یونی ور سٹیوں کی چمکتی عمارتوں کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ یونی ور سٹیوں کے جال میں سماج الجھتا جا رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ مرکزی یونی ورسٹیوں کے افراد بھی ان تعلیمی جزیروں کی طرف بڑے ذوق و شوق سے اپنی نگاہ توجہ بڑھاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔

          یہیں داخلی سازش کے طور پر رینکنگ کی درجہ بندی آتی ہے۔ پہلے یو۔ جی۔ سی نے نیک کی گریڈنگ کو لازمی بنایا۔ پھر یہ حکم نامہ صادر ہو اکہ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے مالی امداد نیک سے منظور شدہ تعلیمی اداروں کو ہی میسّر آئے گی۔ پچھلی دو دہائیوں میں اس ادارے نے ہی اپنے گریڈنگ سسٹم میں اتنی تبدیلیاں کیں جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس ادارے کے اہل کاروں کو یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے حقیقی تعلیمی معیار کی کسوٹی معلوم نہیں۔ اس لیے بار بار پیمانے بدلے جاتے ہیں۔ اس سے الگ اس ادارے کی کمیٹیوں کے بارے میں بعض ایسی اطلاعات بھی ملتی ہیں کہ اسے گورکھ دھندا ہی کہا جا سکتا ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہر پرائیویٹ یونی ورسٹی اے گریڈ یا درجۂ اوّل پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اور اس کے بر عکس بڑے بڑے اور سو سو سال پرانے ادارے ان کے امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں اور کبھی بی یا سی گریڈ لے آتے ہیں۔

          گریڈنگ کے لیے اب بہت ساری ایجنسیاں کھڑی ہو گئیں۔ کسی نے ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ ان کا بڑے سے بڑے تعلیمی اداروں کو جانچنے کا استحقاق کس طرح متعین ہوا؟ انھوں نے پچاس اور سو برس کی عوامی مشقت سے کھڑے ہوئے ادارے اور  صنعت کار یا دولت مند کے ذاتی صرفے پر قایم شدہ ادارے  کوایک ہی انداز سے کیونکر جانا۔ سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان اداروں نے جنھیں اچھی رینکنگ دی، وہ اپنی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ایک ذرا اس پہلو سے غور نہیں کرتے کہ اس درجہ بندی کی ٹھوس بنیاد بھی ہے یا ایک مصنوعی فضا قایم کرکے کچھ کو اچھا اور کچھ کو برا بتایا جا رہا ہے۔

          گزشتہ ڈیڑھ برسوں سے ملک کی یونی ور سٹیاں تقریباً مفلوج ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شہریت قانون کے سلسلے سے پیدا ہوئی تحریک کے سبب کرونا سے چھ مہینے پہلے سے ہی بند پڑی ہوئی ہیں۔ بہت ساری مرکزی یونی ور سٹوں نے بغیر امتحان لیے اپنے طالب علموں کو ڈگریاں بخش دیں۔ کہیں آن لائن امتحانات کی گنجائش پیدا ہوئی، کچھ جگہوں  پر آن لائن ذریعے سے ہی تعلیم و تدریس کا دکھاوا بھی سامنے آیا۔ کلیجے پر ہاتھ رکھ کر پوچھیے تو ہر استاد اور ہر شاگرد اپنا درد بتائے گا کہ ڈیڑھ پونے دو برس تعلیم گاہوں کے تو اکارت ہو گئے۔ مگر کمال یہ ہے کہ سالانہ رینکنگ کا یہ کھیل اس دوران بھی اسی طرح خشوع و خضوع کو ساتھ جاری ہے یونی ور سٹیوں کی رینکنگ کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ پیٹھ تھپ تھپانے اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا ایک سلسلہ ملک کے طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے۔ اس بندی کے عالم میں وائس چانسلروں کی رینکنگ بھی ہو رہی ہے۔ ایک ادارے نے اُس تعلیم گاہ کے وائس چانسلر کو اعلا تر رینکنگ دی جس کے اساتذہ اور کارندے کرونا کی پہلی اور دوسری دونوں لہروں میں سب سے زیادہ بے یار و مددگار مرتے رہے۔ اسپتال کے بستر نہیں ملے اور آکسیجن کے لیے در بدر بھٹکتے رہے۔ حقیقت میں یہ رینکنگ خرید گھوٹالا ہے اور اسی کے ذریعے نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر ہمارے بنے بنائے تعلیمی اداروں کو بدنام اور برباد کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔ اس سے دانش مند طبقے کو ہوشیار رہنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔