شعبہ اُردو جموں یونیورسٹی میں دو روزہ عالمی سیمینار کا افتتاح

اُردوصرف ایک زبان ہی نہیں ہے بلکہ وسیع ثقافتی خزانہ رکھنے والی ایک تہذیب بھی ہے۔ یہ ہندوستان کی ایک ایسی زبان ہے جس نے ہندوستانی معاشرت، ثقافت اورتہذیب وتمدن کوفروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیاہے۔ ان خیالات کااظہار مقررین نے شعبہ اُردوجموں یونیورسٹی میں ’مشترکہ تہذیب اوراُردوادب ‘‘کے موضوع پر منعقدہ دوروزہ سیمینارکے دوران کیا۔ سیمی نارکاافتتاح وائس چانسلرجموں یونیورسٹی پروفیسرمنوج کماردھرنے کیا۔

پروفیسردھرنے اپنے خطاب میں شعبہ اُردوکی عالمی سیمینارکے انعقادکیلئے کاوشوں کوسراہا۔ انہوں نے اُردوکوہندوستانی زبان قراردیتے ہوئے اس کے تہذیب اورثقافت کے میدان میں رول کواُجاگرکیا۔ انہوں نے کہاکہ اُردومختلف زبانوں سے مل کربنی ہوئی ہے۔ پروفیسردھرنے کہاکہ اُردونے غالبؔ، اقبال اورمیرجیسے بلندپایہ کے شاعرپیداکئے جن کے مشترکہ تہذیب کے فروغ کے سلسلے میں خدمات کوفراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے کچھ اُردوشعراکے کلام کوبھی پڑھاجسے شرکانے خوب سراہا۔ سیمینارکی افتتاحی تقریب کے دوران کلیدی خطبہ کینڈاسے تعلق رکھنے والے ناموراُردونقاد اورمحقق ڈاکٹرتقی عابدی نے پیش کیا۔ انہوں نے اُردوشعروادب میں مشترکہ تہذیب کی جھلکیوں کے بارے میں تفصیلی خیالات کااظہارکیا۔ انہوں نے کہاکہ ہراُردوادیب نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کوبیان کیاہے۔ انہوں نے اردوکے شاعراول امیرخسروسے لے کرجدیدشعرامثلاً ناصرکاظمی اوراحمدفرازتک حوالہ جات پیش کیے کہ کس قدراُردوادباء وشعراء نے مشترکہ تہذیب کواپنی قلم کے ذریعے نمایاں کیا۔ انہوں نے پنڈت دیاشنکرنسیم کاحوالہ دیتے ہوئے کچھ مثالیں بھی پیش کیں۔

 ڈاکٹرتقی عابدی نے کہاکہ میرؔ، غالب، فراق اورفیض اوردیگرشعراء کی شاعری میں مشترکہ تہذیب سے لبریزخصوصیات کوبھی شرکاء کے سامنے رکھا۔ انہوں نے کہاکہ اُردوشعراء اورادباء نے مشترکہ تہذیب کوفروغ دینے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ جواہرلال نہروکے پروفیسرخواجہ اکرام الدین نے تقریب کی صدارت کی اوراپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اُردو دُنیاکے لگ بھگ تمام ممالک میں بولی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شمالی ممالک کے علاوہ یورپ میں بھی اُردوکی بعض چھوٹی چھوٹی بستیاں آبادہورہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مصرکے طلباء اُردوسیکھنے میں خاص طورسے دلچسپی رکھتے ہیں۔

پروفیسرخواجہ اکرام نے کہاکہ اُردومختلف ممالک کے درمیان رابطے کی زبان ہے اوراس کاادب خواہ وہ نثری ہویاشعری میں مشترکہ تہذیب سے بھرپورہے۔ قبل ازیں استقبالیہ خطبہ صدرشعبہ اُردواورڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسرشہاب عنایت ملک نے پیش کیااورسیمینارکے منتخبہ موضوع کوچننے کے مقاصد پراظہارخیال کیا۔ انہوں نے کہاکہ سیمینارکے دوران پڑھے جانے والے مقالہ جات کوکتابی صورت میں شائع کروایاجائے گاتاکہ نئی نسل مستفیدہوسکے۔ پروفیسرشہاب عنایت ملک نے بھی مشترکہ تہذیب کے فروغ میں اُردوادب کے رول پرروشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ اُردوہی واحدایک زبان ہے جس نے پورے ہندوستان کوکشمیرسے کنیاکماری تک جوڑکررکھاہے۔ ڈاکٹرمحمدریاض احمد ایسوسی ایٹ پروفیسرنے شکریہ کی تحریک پیش کی۔

 عالمی سیمینارکی تقریب کے دوران ڈاکٹرتقی عابدی کو رساجاودانی میموریل ایوارڈعطاکیاگیا۔ اس عالمی سیمینارکی ایک اہم وخوبصورت کڑی اُبھرتی ہوئی مصنفہ سیدہ تبسیم منظورناڈکر‘جن کاتعلق ممبئی سے ہے‘کی تازہ تصنیف ’مہندی لہوکی ‘ کاایوان صدارت میں موجودشخصیات کے ہاتھوں اجراء کیاگیا۔ مقررین نے سیدہ تبسم منظور ناڈکرکے افسانوی مجموعے کوخوب سراہااوران کی حوصلہ افزائی کی۔ جموں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر منوج کے دھرنے خصوصی طورپرسیدہ تبسم منظور ناڈکر کو مبارک باد پیش کی۔

واضح رہے کہ رواں برس سیدہ تبسم منظورناڈکرکی یہ دوسری تصنیف ہے اس سے قبل ان کے سماجی، اخلاقی ومعاشرتی مضامین کامجموعہ ’گلستانِ تبسم‘منظرعام پرآچکاہے، ان کے مظامین، افسانے، کہانیاں ملک بھرکے رسائل، جرائدواخبارات میں شائع ہوتے ہیں، اوربہت مختصرمدت میں اُنہوں نے اپنی قلمی طاقت سے شہرت کی نئی بلندیاں حاصل کی ہیں۔

 اس عالمی سیمینارکی نظامت کے فرائض نوجوان ادیب وافسانہ نگار ڈاکٹر اختر بن مصطفی، صدر شعبہ اْردو، گور نمنٹ ڈگری کالج، ڈوڈہ نے انتہائی خوش اسلوبی اور دلچسپی کیساتھ انجام دئیے، اپنی خوبصورت آوازاورخوبصورت اندازِ بیان میں ڈاکٹراخترنے خوبصورت اشعارکی چاشنی کیساتھ مقررین وسامعین کوخوب محظوظ کیا۔ بعدازاں موضوع سے متعلق مقالات اُردواسکالروں نے پڑھے اورشام کوسٹیٹ اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈلنگویجز کے اشتراک سے ایک اُردومشاعرہ کابھی اہتمام کیاگیا جس میں شعراء نے اپناکلام پیش کرکے شرکاء کومحظوظ کیا۔

تبصرے بند ہیں۔