کالا دھن ہوا گلابی اور دیکھئے ہوتا ہے کیا!

راحت علی صدیقی قاسمی

غربت و افلاس، فاقہ کشی ،تنگ دستی، جہالت ،ہندوستان میں کثرت کے ساتھ موجود ہے،کثیر تعداد میں افراد غربت و افلاس کا شکار ہیں،صبح کی تابانی ان کے مقدر کی پیشانی کو روشن و منور نہیں کرپاتی،وقت کا گذران انہیں درد و الم اور تکلیف و کڑھن کے سوا کچھ نہیں دیتا،آرزوئیں پیدا ہوتی ہیں،قلوب میں خواہشات کا طوفان اٹھتا ہے ،مگر دب کررہ جاتا ہے اور ان کی تمنائیں پاےۂ تکمیل تک نہیں پہنچتیں ،موت ہی ان کا مقدر قرار پاتی ہے اور ایک کثیر طبقہ زندگی کی چمک دمک اس کی رنگینی اور خوبصورتی سے پوری طرح محروم رہتا ہے،اسے دو وقت کی روٹی اور تن ڈھکنے بھر کپڑااور سر چھپانے کے لئے چھت میسر آجائے تو وہ اپنے آپ کو شہنشاہ اور بادشاہ خیال کرتے ہیں ،یہ ہمارے ملک کی وہ اندوہ ناک صورت حال جس سے ملک کا کوئی ذی شعور شہری اور سیاسی لیڈر غافل نہیں ہے،ہر شخص ان کو فقر فاقہ سے لڑتے، ٹوٹتے اور بکھرتے لوگوں سے بخوبی واقف ہیں، یہاں تک کہ سیاسی رہنما تو ان کے ذہنوں اور ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور ان کی غربت کا استعمال کرتے ہیں،سنہرے خواب دکھاتے ہیں، پیسے کی چمک دمک سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بی جے پی کا فرمان کہ ہر شخص کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے آئیں گے۔ اس طرز عمل کی منھ بولتی تصویر ہے،جبکہ ہمارے ملک کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان اتنا زیادہ غریب ملک نہیں ہے،روپیہ اتنا کمزور نہیں ہے،جتنے ملک کے باشندے معاشی اعتبار سے کمزور ہیں،حالاں کہ ملک میں امبانی اور اڈانی جیسے لوگ بھی بستے ہیں،جو دنیا بھر کے سرمایہ داروں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں اور 14 ہزار کروڑ بڑے نوٹ اور اس کے علاوہ 15 فی صد چھوٹے نوٹ ملک میں گردش کرتے ہیں۔مزید سونا، چاندی ،زمین ،جائیداد کثیر تعداد میں ملک کے اندر موجود ہے،لیکن غریبوں کے ہاتھ روپیوں اور سونے کی چمک سے خالی ہیں۔128کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں صرف 4فی صد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں،تصویر کا یہ رخ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک کثیر تعداد میں کالا دھن ہے،تمام سیاسی جماعتیں یہ بات ہمیشہ دوہراتی ہیں کہ کالا دھن ہے اور اسے حاصل کرکے غریبوں میں تقسیم کیا جائے،موجودہ حکومت نے بھی اسی خیال کو بنیاد بناکر، ایک ایسا فیصلہ لیا کہ سب حیرت زدہ رہ گئے،ملک کے سیدھے سادھے عوام کو لگا ،کالا دھن پکڑا جائے گا اور ہماری قسمت کا ستارہ چمک اٹھے گا اور ہماری تنگدستی کا خاتمہ ہوجائے گا ،رات میں اعلان ہوا صبح سے لوگ اس خیال سے قطاروں میں لگ گئے کہ چند ایام کے بعد ملک کی تصویر بدل جائے گی،6 ہزار کروڑ روپے کالا دھن آئے گا معاشی اعتبار سے ملک کو مضبوطی حاصل ہوگی ،مگر شب و روز کے گھومتے پہیے نے اس خیال کو خام ثابت کردیا،ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے ،کالے دھن کے نام پر صفر ہے،غربت و افلاس کے بادل گھنے ہوگئے،لوگوں کی تکالیف میں شدت ہوگئی ،تجارتیں ٹھپ ہوگئیں ،روزمرہ کی ضروریات شدید طور پر متاثر ہیں،چھوٹے موٹے کاروبار ختم ہوگئے،100کے قریب لوگوں کی نبض حیات تھم چکی ہے اور ابھی تک حالات کی درستگی کے آثار نظر نہیں آئے، یہاں تک کہ آر بی آئی کہ گورنر اور سپریم کورٹ بھی حالات کی سنگینی کا اعتراف کرچکے ہیں اور ارجیت پٹیل تو واضح کرچکے کہ حالات جلد سدھرنے کی کوئی امید نہیں ہے،آمدنی کی شرح 7،6سے گھٹ کر 7،1ہوگئی ہے ملک کو معاشی طور پر شدید نقصان کے اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں،اب سوالات حالت شباب میں آچکے ہیں ،ہر کسی کی زبان دراز ہے ،اور اپنے سوالوں کا جواب چاہتی ہے،کہاں ہے کالا دھن؟ جب بینک 12ہزار کروڑ پاچکے تو 6 ہزار کروڑ کہاں گیا ؟لوگوں کی جانوں کی قیمت کیا ہے؟آپ کے اس طریقہ کار سے ملک کو کیا فائدہ ؟اگر آپ کالے دھن کو پکڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ،تو یہ فیصلہ کیوں لیا؟لوگوں کی مشکلات اور تکالیف کا بدلہ کیا ہوگا؟ان کے ٹھپ ہوئے کاروبارے زندگی کا تاوان کیا ہوگا، شاید اس طرح کے سوالات کا وزیر اعظم کے پاس کوئی جواب نہیں اس لئے وہ اسمبلی میں بحث نہیں کرتے یہ تو ظاہر ہوچکا کہ نوٹ بندی کے فوائد سے اب تک ملک آشنا نہیں ہوپایااور کالے دھن کہ نام پر ابھی تک سرکار خاموش ہے اور پینترا بدل کر گفتگو کا رخ تبدیل کررہی ہے اور کیش لیس اکنامی کا راگ الاپ رہی ہے،مگر یہ تو چودہویں کے چاند کی طرح عیاں ہوگیا کہ کالا دھن گلابی ہوچکا ہے،پچھلے دنوں پیش آئے واقعات نے اس دعوی کی توثیق کردی ہے ،جب کثیر تعداد میں گلابی دھن پکڑا گیا ہے،اب تک کی تحقیقات یہ بیاں کرتی ہیں کہ ملک میں 350 کروڑ کے نئے نوٹ انکم ٹیکس کا شعبہ ضبط کرچکا ہے اور بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں کروڑوں میں نوٹ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ضبط کئے جاچکے اور ایک تحقیق کے مطابق 17 کروڑ روپے دو دنوں کی چھاپہ ماری میں ضبط کئے جاچکے ،ہندوستان کے مختلف شہروں میں لوگ خطیر رقم اور سونے کے ساتھ گرفتار کئے جاچکے ۔یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ کالا دھن گلابی ہوگیا،ورنہ تو عام آدمی قطاروں میں لگے ہیں،پابندیاں ان کے ساتھ ہیں، بندشیں دامن گیر ہیں،ایک شخص دو ہزار سے زائد نہیں نکال سکتا ،کرنٹ اکاؤنٹ میں چوبیس ہزار سے زائد نہیں نکال سکتے ،پھر اتنے نئے نوٹ ان افراد کے پاس کہاں سے آئے ؟لوگوں کو کھانے کے لالے پڑے ہیں اور کالا دھن بھیس بدل کر گھوم رہا ہے،یہ صورت حال اس فیصلہ کی ناکامی ظاہر کرتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کالا دھن پکڑنے میں ناکام رہے،اب گلابی ہوا،کچھ پکڑا گیا ہے،اب سوال یہ اٹھتا ہے جب انکیم ٹیکس اب نوٹوں کو ضبط کررہا ہے،تو پہلے کیوں نہیں کرپایا؟100لوگوں کی جانوں اور لرزتی معیشت کا کیا حل ہے ؟بتائیے ان لوگوں کو جن کے گھروندے اجڑ گئے ،جن کے گھر کا چراغ بجھا ہے اور پورا گھر تاریک ہے ،کیا روشن کر پائیں گے آپ ان گھروندوں کو ؟لوٹا سکیں گے ماں کو بیٹا۔ بھائی کو بہن ،بیوی کوشوہر ؟کرپائیں گے ان رشتوں کا احساس ؟اس پوری صورت حال سے وزیراعظم بھی واقف ہیں،اس لئے ایک نیا جال پھینکا جارہا ہے ،کیش لیس اکنامی کا ،کیا ہندوستان میں ابھی اس کا نفاذ ممکن ہے ؟جس ملک میں 2جی نیٹ ورک بھی ہر جگہ نہیں ہے،جہاں 128کروڑ کے لئے دو ہزار سے زائد اے ٹی ایم ہیں ،جہاں کارڈ سے لین دین 2فیصد ہے، وہاں کیا اس وقت یہ نافذ کیا جاسکتا ہے ،اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب کالا دھن گلابی بن سکتا ہے ،تو کیا سائبر جرائم نہیں ہوں گے ،جب تک سسٹم سختی سے کرپشن ختم کرنے پر کمر نہیں کسے گا کچھ نہیں ہونے والا،ابھی کالا دھن گلابی ہوا ہے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔