بھیڑ نہیں ہے، وہ خود کو مودی سینا سمجھتی ہے

حفیظ نعمانی

ملک میں بھیڑ کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ قانون بنائے۔ سپریم کورٹ کے محترم ججوں نے شاید یہ سمجھ لیا کہ ملک میں کوئی قانون نہیں ہے اس لئے گائے کے نام پر بچہ چوری کے نام پر جہاں جس کو چاہتی ہے بھیڑ پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی ہے۔ ہم بڑے ادب سے اختلاف کرنے کی جرأت کررہے ہیں۔ چار سال کے اندر مودی نوازوں نے قانون پر عمل کرنے والوں کو خصّی کردیا ہے اور ان کے کان میں کہہ دیا ہے کہ ملک پر بھیڑ کا قانون چلے گا جو خفیہ فوج ہے۔

مودی نوازوں کے اس فیصلہ کے بعد باوردی پولیس شو بوائے بن گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے شاید پڑھا ہو کہ کاس گنج کے گائوں نظام پور میں رہنے والا ایک دلت نوجوان سنجے نے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بارات گھوڑی پر بیٹھ کر سسرال لے جائے گا۔ اسے معلوم تھا کہ گائوں کے ٹھاکروں کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ کسی دلت کی بارات باجے گاجے کے ساتھ بھی گائوں سے نہیں نکلے گی۔ سنجے نے پولیس سے مدد مانگی پولیس نے امن و قانون کا عذر کرکے معذرت کرلی اس نے بڑے افسروں سے کہا اور مایوس ہوکر وہ ہائی کورٹ گیا۔ شرم کی بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ امن و امان کا معاملہ ہے اسے ضلع کے افسر ہی دیکھیں گے۔ آخر میں وہ صوبہ کے وزیراعلیٰ کے پاس گیا۔ وزیراعلیٰ خود سنا ہے کہ ٹھاکر ہیں انہوں نے اجازت دے دی اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ اپنی حفاظت میں بارات نکلوائے۔

ہم ٹی وی پر سنجے کی بارات دیکھ کر حیران رہ گئے جب یہ دیکھا کہ بارات میں دو ہزار باراتی تھے اور پولیس کے درجن افسروں کو ملاکر دوہزار ہی پولیس والے تھے اور حکومت نے بڑے فخر سے کہا کہ بارات کے ساتھ کسی نے چھیڑچھاڑ نہیں کی اور وہ دولھن کے گھر خیریت سے پہونچ گئی۔ ملک کی صورت حال کو سمجھنے کے لئے صرف یہ ایک واقعہ کافی ہے کہ دو ہزار باراتیوں کی حفاظت کے لئے دو ہزار پولیس والے؟ جبکہ مودی راج سے پہلے صرف ضلع کا ایس پی اگر نظام پور نام کے گائوں میںوہاں کے کسی بڑے زمیندار کے گھر جاکر بیٹھ جاتا اور گائوں کے اُبھرتے ہوئے مودی نوازوں کو بلاکر کہہ دیتا کہ 15 جولائی کو دلت سنجے کی بارات نکلے گی اور وہ بگھی میں بیٹھا ہوگا اور باراتی ناچتے گاتے جارہے ہوں گے تو اُن کی طرف کوئی انگلی نہ اُٹھائے۔ ورنہ یہ سمجھ لینا کہ دلتوں نے رپورٹ میں جس جس کا نام لیا میں اس کا جینا حرام کردوں گا۔ تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی بارات کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتا۔ ایک اتنی سی بات کیلئے وزیراعلیٰ کو کہنا پڑا اور دوہزار پولیس والے لگانا پڑے صرف اس لئے کہ پولیس کو ہجڑا بنا دیا گیا ہے اور سنگھ پریوار کے غنڈوں کے ہاتھ میںملک دے دیا گیا ہے۔

کل جس نے بھی ٹی وی پر خبریں دیکھی ہوں گی اس نے دیکھا ہوگا کہ بنگال میںایک پولیس افسر کو بھیڑ گھیرگھیر کر مار رہی تھی گھونسے لات اور لاٹھیاں اور دور تک پولیس نہیں تھی جو گولیاں برساکر لاشیں بچھا دیتی۔ اور بزرگ سوامی اگنی ویش نہ گائے کاٹ رہے تھے اور نہ بچہ چرا رہے تھے جن کو دوڑا دوڑاکر جھارکھنڈ میں مارا گیا۔ جو قانون آج ہے وہی قانون 1977 ء میں تھا۔ سنبھل میں ایک زمین اور ایک سہ دری ایک انجمن کی تھی۔ ہمارے خاندان کے لوگوں نے چاہا کہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایک مدرسہ قائم کردیا جائے۔ اور یہ میدان لڑکوں کی فیلڈ بن جائے گی۔ اس زمین پر رفتہ رفتہ سب کچھ بن گیا اور ضرورت پیش آئی کہ اس زمین کی حدبندی کردی جائے اور ایک دیوار سے اسے گھیر دیا جائے برسوں پہلے اس میدان کے ایک کنارے پر ایک صاحب نے دودھ کی دُکان رکھ لی تھی اور وہ دودھ کی مٹھائی بھی بنانے لگے تھے۔ اس دُکان کے تین تخت تھے اور ایک بھٹی تھی تختوں کے دو پایے سڑک کے کنارے پر تھے نیچے نالی تھی اور دو دو پایے اس زمین پر تھے۔ جب ان سے دُکان اٹھانے کے لئے کہا تو انہوں نے انکار کردیا اور برسوں مقدمے بازی ہوتی رہی اور اس دُکان کی وجہ سے دیوار کا کام رُک گیا۔ 1976 ء میںلکھنؤ سے ایک پولیس انسپکٹر کا تبادلہ سنبھل ہوگیا وہ ہمارا قریبی دوست تھا وہ جانے سے پہلے آیا اور کہا کہ مجھے پانچ مسلمان پانچ ہندوئوں کے نام پتے لکھ کر دو جن پر میں بھروسہ کرسکوں اور وہ مجھے دھوکہ نہ دیں۔ میرے تعلقات سنبھل میں ہر طرح کے لوگوں سے ہیں میں نے نام دے دیئے اور کہہ دیا کہ انہیں بلاکر کہہ دینا کہ حفیظ نے تم پر بھروسہ کرنے کو کہا ہے۔

کئی مہینے کے بعد میں سنبھل گیا ہر طرف گھوشال کا نام سنا وجہ یہ تھی کہ وہ حرام خور نہیںتھا رشوت کا نام نہیں سننا چاہتا تھا۔ انتہا یہ ہے کہ ایم ایل اے جنتا پارٹی کے تھے ان کو بھی منھ نہیں لگاتا جبکہ حکومت جنتا پارٹی کی تھی۔ چچا صاحب نے ہم سے کہا کہ گھوشال اگر چاہیں تو یہ دُکان ہٹ سکتی ہے سنبھل کے قیام کے زمانہ میں ایک دن وہ ملنے بھی آئے۔ سنبھل کے قیام کے زمانہ میں ایک دن وہ ملنے بھی آئے اور ناشتہ کرکے چلے گئے۔ سنبھل کا چپہ چپہ ان کا دیکھا ہوا تھا ہم نے اس دُکان اور اس کے سامنے ایک مکان دونوں کی بات کی۔ دودھ کی دُکان کے تخت کے دو دو پایے سڑک پر رکھے تھے وہ ایم ایل اے کے بہت وفادار تھے اس لئے مطمئن تھے۔ گھوشال نے کہا کہ سنیچر کی شام کو میں دونوں خالی کرادوں گا۔ اس لئے نہیں کہ میرے دوست نے کہا ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اسکول کی زمین ہے اور اس سے پڑھنے والے بچوں کا فائدہ ہوگا۔ سنیچر کی شام کو ہم گئے تو انہوں نے ایک ہیڈکانسٹبل کو بلایا اور کہا کہ ایک سپاہی کو لے جائو اور وہ جو نخاسہ کے موڑ پر دودھ کی دُکان سڑک پر رکھی ہے اسے ہٹوادو۔ میں نے کہاکہ ایک سب انسپکٹر کو تو بھیج دو تو گھوشال نے کہا کہ اپنے دوست کا اقبال دیکھنا چاہتے ہو؟ اور کہا سپاہی کو اکیلے بھیج دو میں نے ارے ارے کیا کررہے ہو کہا اور دونوں کو بھیج دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ ایم ایل اے آئیں گے میں گھوشال سے اجازت لے کر چلا آیا۔

میں جب پہونچا تو آخری تخت اور بھٹی رکشہ پر لادی جارہی تھی۔ بعد میں گھوشال نے بتایا کہ ایم ایل اے آئے تھے انہوں نے کہا کہ اس کا مقدمہ چل رہا ہے۔ میں نے کہہ دیا کہ میں نے مقدمہ ختم نہیں کیا ہے سڑک خالی کرائی ہے مقدمہ چلتا رہے گا۔ اور اسی طرح وہ مکان بھی خالی کرالیا۔ ایک انسپکٹر کا یہ اقبال صرف اس لئے تھا کہ ان کو اپنے پورے اختیارات استعمال کرنے کی آزادی تھی اور قانون ان کے ہاتھ میں تھا۔ اب مودی راج میں قانون غنڈوں کی بھیڑ کے ہاتھ میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعلیٰ پریس کانفرنس کرکے کہتے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس یہ ہے کہ کوئی کسی کو برا نہ کہے اور اپنی خوشی اپنی حیثیت کے مطابق منائے کون گھوڑی پر بیٹھے گا اور کون ہاتھی پر یہ اس کی مرضی ہے اگر کوئی روکے گا تو پولیس کو آزادی ہوگی کہ وہ جو چاہے سلوک کرے۔

کاس گنج کے نظام پور میں جو کچھ ہوا ہے وہ حکومت آزادی اور جمہوریت سب کے منھ پر کالک ہے۔ اس ملک میں کتنے سنجے دلت ہیں جو چار مہینے پانی کی طرح روپیہ بہائیں گے اور جو وزیراعلیٰ تک پہونچ سکیں گے اور وزیراعلیٰ کس کس کی بارات بگھی میں نکلوائیں گے؟ اور وہ پارلیمنٹ کہاں ہے جو قانون بناتی ہے۔ مودی جی چار مہینے طلاق ثلاثہ، حلالہ اور کثرت ازدواج پر ملک بھر میں بھاشن دیتے پھریں عوام اتنے بزدل ہوگئے ہیں کہ کوئی نہیں کہتا کہ اچھے دن کہاں ہیں 15  لاکھ روپئے کہاں ہیں روپیہ اور ڈالر میں کتنا فرق ہے، ڈیزل اور گیس کی قیمت کیا ہوگئی؟؟؟ اور ان سے کیوں نہیں معلوم کرتے کہ مودی سینا کو گائے اور بچہ چوری یا مخالفت کے جرم میں کتنے بے گناہوں کو موت کی نیند سلانے کا حکم آپ نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کو کیا خبر کہ پولیس کو قانون پر عمل کرنے سے صوبوں کے وزیراعلیٰ نے روک دیا ہے کیونکہ ہر وزیراعلیٰ کو وزیراعظم نے روک دیا ہے اور وزیراعظم کو ان کے آقا نے اس طرح روکا ہے کہ زبان یا قلم سے کسی نے نہیںکہا اشاروں میں بات ہوگئی۔  اب اگر بھیڑ کو گولی مارنے کا قانون بن جائے گا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا اور یہ جب تک ہوتا رہے گا جب تک 2019 ء کا نتیجہ نہیں آئے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔