پروفیسر اختر الواسع کے افکار کی عصری معنویت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

پروفیسر اختر الواسع کا شمار ان عبقری شخصیات میں   ہے جنہوں   نے ملک و ملت کی تعمیر وترقی؛ اصلاح وعمل کی درستگی  میں   نمایاں   کردار ادا کیا ہے۔  جب بھی قوم یا ملت کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو آنجناب نے ان مسائل  سے نبرد آزما ہونے  اور اس سیفتحیاب  ہونے کے لئے  ملت اسلامیہ ہند کی رہنمائی روشن خطوط پر کی ہے؛  آج جبکہ ملک اور ملت  کو مسلسل تباہ کرنے کی سازشیں   رچی جارہی ہیں  ؛  باہم انسانیت کے درمیان تفریق و انتشار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ایسے نازک دور میں   نوع انسانیت کو یکجٹ کرنا اور ایک دوسرے کے درمیاں   پھیلی غلط فہمیوں   کو مٹانے کے لئے تگ ودو کرنا؛  نیز ہر موڑ پر قوم کی ہمدردی میں   آہنی حصار بن کر کھڑے رہنا آنجناب کا امتیازی وصف ہے؛ آپ کی خدمات کا دائرہ گونا گوں   ہے؛  جہاں   آپ ایک  سماجی مصلح؛  ملی رہنما؛ اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں   وہیں   مفکر اسلام؛ عظیم دانشور؛ اور ملک کی چند نمائندہ و سرکردہ  شخصیات میں   شمار کئے جاتے ہیں  ؛ پروفیسر اختر الواسع کی سب سے نمایاں   اور پاکیزہ  خصوصیت فکری اعتدال و توازن اور بقائے باہم کا فلسفہ ہے؛ یہی وجہ ہیکہ آپ بیک وقت امت مسلمہ کے تمام مسالک و مشارب میں   یکساں   مقبول ہیں   اس کی واضح مثال یہ ہیکہ آپ  کو تمام فرقوں   کے ارباب حل و عقد؛ اپنے اجلاس؛ سیمینار؛ سمپوزیم اور کانفرینسز میں   مدعو کرنے کو اپنی سعادت و نیک نامی  سمجھتے ہیں   بلکہ اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں   کیا جا سکتا ہے  کسی بھی پروگرام میں   آپ کی موجودگی کو کامیابی کی ضمانت  سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ اعتدال اور میانہ روی اور سب کے ساتھ یکساں   سلوک کرنا آپ کا  نصب العین ہے۔ ا گر انصاف سے تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپ کے افکار؛  خیالات؛ تحریر وتقریر اتحاد ملت؛  قومی یکجہتی؛ حب الوطنی؛ انسان دوستی؛ بقائے باہم اور نوع انسانیت کی منتشر جہات کومرتب کرنے کا مثالی شاہکار ہیں۔

  آپ کی خدمات کا دائرہ کار انسانی تعمیر کی مختلف جہات سے ہے؛ جہاں   آپ ایک مہربان استاد؛  با اخلاق مفکر اور ملی رہنما ہیں   وہیں   اس بات سے بھی روگردانی  نہیں   کی جاسکتی ہے کہ آپ ایک مثالی اور با استعداد مصنف بھی ہیں  ؛ قرآنیات؛ حدیث؛  فقہ؛  اصول فقہ؛ شخصیات؛ تفسیر سیاسیات؛  اخلاقیات؛ معاشیات؛؛ تاریخ؛  تصوف؛ سماجیات اور نفسیات جیسے اہم تریں   موضوعات پر آپ نے مکمل مدلل  گفتگو کی ہے مذکورہ عنوانات کے علاوہ  اسلامیات کے دیگر موضوعات پر بھی آپ کا وقیع تحریری ورثہ اصحاب علم و فن سے قبولیت حاصل کرچکا ہے۔  امت کی  اصلاح  و ترقی کی غرض سے درجنوں   کتابیں   بے شمار مضا مین میں   نوک قلم سے نکل چکے ہیں۔ آپ کے اس علمی وتحقیقی  ورثہ میں   امت کے تمام مسائل کی نمائندگی ہوتی ہے –

 اسی طرح  آنجناب کے تحریری مواد سے اسلامی حمیت و غیرت کی خوشبو بھی  آتی ہے؛   یہ علمی اور تحقیقی سرمایہ  ریسرچ اسکالرس؛  باحثین؛ محققین کے لئے مشعل راہ ہے اور یہ بلند و بالا تحقیقی سرمایہ سند و متن کی حیثیت کے مترادف ہے؛   آپ کی تحریری دولت کی جہاں   بہت ساری خصوصیات ہیں   وہیں   ان میں   نمایاں   صفت  یہ کہ عہد حاضر میں   نئی نسل خصوصا علماء؛ خطباء؛ ادباء کے تئیں   فکری توسع؛ فہم و فراست؛  تدبر و تفکر؛ کے جدید گوشے اور علمی نکات حاصل ہوتے ہیں۔

  اسی کے ساتھ ساتھ یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتا کہ  آپ اپنی تحریر وخطبات میں   ملک و ملت سے جڑے ان تمام مسائل کو اٹھاتے ہیں   جو قوم  و ملت کی تنزلی اور ادبار و پستی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔  مثلا اتحاد امت کا فقدان؛  عائلی نظام کی پراگندگی؛  مذاکرات بین المذاہب سے بے زاری؛  عالم اسلام میں   جاری کشمکش؛  قومی سلامتی  اور انسانی حقوق کی عظمت وغیرہ وغیرہ۔ اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں   چنانچہ امت کو اتحاد و اتفاق کی سنہری زنجیر میں   پرونے کے لئے آپ نے علیگڑہ مسلم یونیورسٹی  کے شعبہ دینیات میں    منعقدہ قومی سمپوزیم میں   جو قیمتی خطبہ ارشاد فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے ” ملی اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اور باہم متحد ہونے کے لئے آپ نے اپنے کلیدی خطبہ میں   کہا کہ آج دکھ اس بات کا کہ امت روایتی مسالک و فرقوں   میں   بری طرح جکڑی ہوئی ہے  اور ایک دوسرے کو باطل قرار دے رہی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات میں   اس کی گنجائش نہیں   ہے؛  اسلام فکر و نظر کی آزادی کو برداشت کرتا ہے اختلاف کا ہونا  ناگزیر ہے اس کے باوجود امت کے تمام نمائندوں   کو ایک دوسرے کے خیالات و افکار سے  اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی اور  اپنے اپنے مسلک و مشرب پر عمل پیرا رہتے ہوئے بھی  اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ  ہم آہنگی اور باہمی اتحاد ہماری سخت ترین ضرورت ہے۔

 اس سے بڑھ کر جو قیمتی اور وقیع جملہ ارشاد فرمایا وہ یہ کہ امت مسلمہ میں   فکری اختلاف اور  متنوع مسالک و مشارب کا وجود  امت کے لئے باعث خیر و برکت ہے اسی طرح یہ   مسالک  اسلام کی جمہوری قدروں   کے امین و پاسبان اور عملی مظاہر ہیں   ” بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے  کہ اگر  ہمارا معاشرہ  تحمل رواداری اور باہم حسن ظن کا آئینہ دار بن جائے تو یقینا  ایک صحتمند اور مثالی معاشرہ کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں   کہ مورخہ 13/فروری 2019 کو المصطفی انٹر نیشنل یونیورسٹی؛  ایران (شاخ ہند) کے زیر اہتمام اور بہ اشتراک؛  سینٹر فار انٹر فیتھ انڈر اسٹیندنگ؛ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی میں   منعقد عالمی کانفرینس بعنوان مذاہب عالم میں   خاندانی نظام کے تحت جو مثالی؛  وقیع اور جامع و مانع کلیدی خطبہ ارشاد فرمایا  وہ آب ذر سے لکھنے کے لائق ہے ذیل میں   اس کا ایک اقتباس افادہ عام کے لئے شامل اشاعت کررہا ہوں   ” صاحبو!  مجھے اس بات کی اجازت دیجئے کہ میں   اس بین الاقوامی سیمینار کے موضوع کے انتخاب کے لئے منتظمین کو مبارک باد دوں   کیونکہ ایک ایسی دنیا میں   جہاں   قراق و فصل کے تمام پرانے تصورات بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں   اور نقل وحمل نیز ترسیل وابلاغ کی ترقی نے زمین کی طنابیں   کھینچ لی ہیں   اور اس طرح یہ دنیا بظاہر ایک طرف عالمی گاؤں   میں   تبدیل ہوگء ہے تو دوسری طرف یہ بھی کم المیہ نہیں   کہ انسانی رشتے جس طرح اس دور میں   پامال ہورہے ہیں؛  خاندانوں   کو ہم پارہ پارہ ہوتے دیکھ رہے ہیں ؛  انسان لفظوں   کے فشار اور میڈیا کے شور و شر میں   جس طرح آج مکالمے کی لذت سے محروم ہورہے ہیں   ایسا پہلے کبھی نہیں   ہوا تھا۔  وہ انسان جو کبھی غم زمانہ کا نقیب تھا وہ اب درد تنہا کا بوجھ اٹھائے پھررہا ہے۔  مذاہب عالم نے سارے انسانوں   کو اجتماعیت  کے رشتے میں   باندھا تھا۔انسانوں   کو ہی نہیں   بلکہ تمام مخلوقات کو ایک اللہ کوکنبہ یا وسودھا کو کٹمب قرار دیاتھا۔ انسانی تاریخ کے ارتقاء کو وہ سفر جو آدم کی تخلیق اور حوا کے ساتھ ان کی رفاقت سے شروع ہوا تھا اس میں   خاندان کی بنیادی اکائی شوہر اور بیوی ہی تھے جو ایک دوسرے کے لیے قرآن کے لفظوں   میں   لباس کی.مانند ہیں۔  جن کا باہمی تعلق محض جنسی تلذذ کے لئے نہیں   بلکہ نسل انسانی کی توسیع کے لیے تھا۔ شوہر اور بیوی کے مقدس رشتہ ازدواج میں   وابستہ ہونے سے وہ خاندان وجود میں   آتا ہے؛  جس میں   بیٹا بیٹی؛ بھائی بہن اور بعد ازاں   تایا تائی؛ چچا چچی؛ ماموں   ممانی؛ دادا دادی؛ جیٹھ دیور؛ بھاوج نند؛ پھوپھاپھوپھی؛ اور خالہ خالو کے رشتے ایک منظم شکل میں   انسانی سماج کو اعتبارو اعتماد اور استحکام بخشتے ہیں  ۔  کسی سماج میں   رشتوں   کی حرمت ہی اس کے مہذب ہونے کا ثبوت ہوتی ہے”

عہد حاضر میں  درج بالا تابناک سطروں کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں   کیا جا سکتا ہے ان میں    آپ کے فکری توسع  اور قوم کے لئے ہمدردی کی مہک آرہی ہے؛ دل سے ادا ہو نے یہ جملے سن کر ہر صاحب فکر اور دردمند بشر اپنی خامیوں   کو کافور کرنے اور روشن مستقبل کی تعمیر کے تئیں   سعی جملہ میں   مصروف کار نظر آئے گا؛ دل کو چھو لینے والی یہ سطریں   اس بات کی شہادت دیتی ہیں  کہ واقعی خاندان کے وقار کومحفوظ کرنے اور عائلی نظام کو پر امن بنانے کے لئے  اس کی ہر ایک اکائی کو مستحکم کرنے کے لئے خاندان کے جملہ عناصر ترکیبی کے ساتھ صلح و آشتی؛  حسن ظن باہم وفاداری اور یقین و اعتماد کی پر کشش فضا کو ہموار کرنا ہوگا تبھی جاکر ایک صحتمند  خاندانی نظام وجود آسکے  گا جس کا مطالبہ  مذاہب عالم کی تعلیمات  نوع انسانیت سے ببانگ دہل کررہی ہیں۔

صاحبو پروفیسر اختر الواسع ہندوستان کی وہ نمایا شخصیت ہے جو اسلامیات کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کے کئی اداروں   کے رکن رکین اورمناصب جلیلہ پر فائز رہ چکے ہیں   آپ کی علمی؛ ملی؛ قومی؛ اور وطنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے پدم شری جیسے اہم ترین خطاب سے نوازہ ہے؛  نیز آپ کی خدمات جلیلہ کے احترام  میں   جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامیات کا آپ کو تاحیات پروفیسر منتخب کیا گیا ہے میری معلومات کے مطابق آپ ہندوستان کے پہلے اسلامیات کے تاحیات پروفیسر ہیں  ؛  آپ ایک  طویل عرصے  سیجامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ علومیہ اسلامیہ میں   درس و تدریس سے وابستہ ہیں  ؛ لسانیات کے کمشنر  بھی رہ چکے ہیں   اوردہلی اردو اکادمی کے اہم ترین ذمہ دار بھی رہ چکے اس وقت آپ متعدد تنظیموں   کے ذمہ دار  ہیں    الغرض آپ کی خدمات کا میدان بہت وسیع ہے اس مختصر مضمون میں   تمام خوبیوں   اور صفات کو سمیٹنا مشکل پے اور نہ ہی ناچیز کے پاس وہ الفاظ ہیں   ایک عظیم مفکر؛  معتبر دانشور معروف اسلامی اسکالر کی خدما ت نوک قلم پر لاسکوں؛  اگر تمام علمی اور قومی خدمات کا احاطہ کیا جائے تو  کئی سو صفحات  پر مشتمل  ایک کتاب تیار ہوجائے گی۔آخر میں   یہی عرض ہیکہ اگر اکیسویں   صدی کی تاریخ مؤرخصفحہ قرطاس پر ثبت  کریگا تو آپ کی خدمات جلیلہ کو جلی حروف میں   لکھا جائے؛  اللہ رب العزت  سے دعا گو ہوں   کہآپ کا سایہ تادیر قائم رکھے۔

تبصرے بند ہیں۔