ملایم سنگھ اور اکھیلیش نے مل کربھاجپا کو حکومت سونپی!

صفدر امام قادری

گذشتہ چھے سات مہینوں سے سیاسی مبصرین جن خدشات کا اظہار کررہے تھے، انھیں ہی اب الیکشن کا نتیجہ کہنا چاہیے۔ نریندر مودی اور امت شاہ نے پارلیمنٹ کے بعد سب سے بڑا چناو جیتا۔

 اترپردیش کا اسمبلی انتخاب پچھلے پارلیمنٹ کے الیکشن کے انداز پر مکمل ہوا۔ دور دور تک کوئی پارٹی یا کسی محاذ کو مدِ مقابل نہیں کہا جاسکتا۔ پچھتر فی صد سیٹیں حاصل کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حیرت انگیز کامیابی کا ثبوت ہے۔ بھاجپا کے بڑے لیڈران اسے نریندر مودی کی مرکزی حکومت کے بہترین کاموں کی توثیق بتا رہے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ترقی ، جوابدہی اور غریب یا دیہی عوام کی طرف داری کا یہ نتیجہ ہے ۔ ایسی باتیں فاتح کے منہ سے جب نکلتی ہیں تو ان کی خامیاں بھی پسِ پشت چلی جایت ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نادرست بات بھی سچ ہی ہے۔

 ایسے قیاسات بار بار لگائے جاتے رہے کہ پچھلے پارلیمنٹ کے انتخاب میں امت شاہ اور نریندر مودی سے ملائم سنگھ یادو کا داخلی سمجھوتہ ہوا تھا۔ ملائم اور اکھیلیش کے خاندان سے پانچ پارلیمنٹ کے ممبران اس مشکل دور میں بھاجپا سے لڑ کر جیتے اور آج پارلیمنٹ میں موجود ہیں ۔ سوال اٹھا کہ ملائم سنگھ یادونے کسی ایک بھی باہری امیدوار کو جیت کا ذائقہ چکھنے نہیں دیا۔ خاندانی سیاست کی انتہا اسی پارلیمنٹ میں دیکھنے کو ملی جب سونیا اور راہل کانگریس سے اور ملائم سنگھ اور اکھیلیش خاندان سے پانچ لوگ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔ یہ کھلی سچائی معلوم ہے کہ مظفر نگر فسادات کے سلسلے سے اترپردیش حکومت کی موثر کارکردگی سے پیچھے ہٹنے کے سبب کئی مہینوں تک فسادات کا دور قائم رہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس سے پارٹی کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر میدان میں زیادہ موثر طریقے سے اتارا اور زہریلا ماحول بنا کر پورے صوبے میں اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔

 پہلے کی سیاست دور اندیشی پر چلتی تھی مگر اب فوری فائدے کا سارا کھیل پیشِ نظر ہوتا ہے۔ سماجوادی پارٹی اپنی غیر فرقہ وارانہ پہچان کی وجہ سے اقلیت اور سیکولر آبادی کا ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔ پچھلے پارلیمنٹ کے دور میں ملائم سنگھ اور اکھیلیش یادو کے لیے یہ آسان بات تھی کہ اسمبلی کے انتخابات تو ابھی ڈھائی برس بعد ہونے والے تھے، انھیں اندازہ تھا کہ نریندر مودی کی اگر سرکار بن گئی تو فوری طور پر صوبائی حکومتوں کو اس سے کیا نقصان ہونا تھا۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی چند سیٹوں یا اپنے خاندان کے چند افراد کو کامیاب کرنے کا سیاسی اصطلاح میں بھاجپا حکومت سے ’ڈیل‘ کرلیاتھا۔

 جیسے جیسے اتر پردیش اسمبلی کے انتخاب کی تاریخیں قریب ہوتی گئیں ، سماج وادی پارٹی میں ڈرامے بازیاں بڑھتی چلی گئیں ۔ سب گھر کے تھے اور دوسروں سے لڑنے کے بجاے آپس میں لڑنے کا ڈراما کھیلنے لگے۔ دو مہینے سے زیادہ یہ کھیل ہوا ۔ ڈراما کھیلنے والے اچھے کلاکار اپنے شو کے لیے دومہینے تک رہرسل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سماج وادی پارٹی نے انتخابی تشہیر میں جانے سے پہلے آپسی لڑائی کا ایسا کھیل کھیلا جس سے عوامی سطح پر ان کے نکمے پن اور سیاسی سوجھ بوجھ میں گراوٹ کی باتیں عوامی حافظے تک پہنچیں ۔ ملائم سنگھ یادو اور اکھیلیش یادو نے یہ عوامی ناٹک اتنا دل لگا کر کھیلا کہ کسی کو یہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ مل جل کر کھیلا جانے والا کام ہے اور اپنی حکومت کو عوام میں بے اعتبار کرنے کی یہی صورت ہوسکتی تھی۔

 پہلے فیز کے انتخاب سے محض چند ہفتے پہلے تک یہ سمجھنا لوگوں کے لیے دشوار تھا کہ وہ کس سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیں گے یا سرکار چلانے کی دوبارہ ذمہ داری تفویض کریں گے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اکھیلیش یادو بھلے اپنے باپ سے مختلف سیاسی تصویر لے کر سامنے آئے تھے مگر آپسی کھیل تماشے میں وہ باپ کی قیادت اور اندازِ فکر کے ہی ترجمان بن کر بالآخر ملیامیٹ ہوئے۔ اترپردیش ہندستان کے ترقی کے نقشے میں کہیں نمایاں طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔ غربت، بے روزگاری اور عوامی سہولیات سے ہارے صوبے کے افراد دل سے غیر ترقی یافتگی کی وجہ سے ملائم ، اکھیلیش اور مایاوتی سے پورے طور پر ناراض تھے۔ امت شاہ اور نریندر مودی نے اپنے انتخابات کی تشہیر میں ہر جگہ یوپی کی غربت ، غیرترقی یافتگی اور حکومتِ اترپردیش کی نااہلی کے ثبوت فراہم کرتے رہے۔ ملائم اور اکھیلیش نے مل کر بھاجپا کو اپنے نکمے پن اور نان پرفارمنس کو سامنے کیا جیسے کوئی اپنے دشمن کو آواز دے رہا ہو کہ آئو اور ہمیں اس انداز سے شکست دو۔

 اترپردیش کے ہر علاقے میں بھاجپا نے سرکار کی حقیقی نااہلی کو اجاگر کیا اور یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب تک بھاجپا کی سرکار یہاں نہیں ہوگی، اس وقت تک مرکزی حکومت سے مل کر اترپردیش کو ترقی کے راستے پر نہیں پہنچایا جاسکتا۔ یہ بات حقیقت پر مبنی تھی۔ لوگ یہ بھی بھول گئے کہ ڈھائی برس میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے قومی سطح پر اپنی نااہلی کے ہزاروں ثبوت فراہم کیے۔ نوٹ بندی سے ناراض اور پریشان سماج کا نچلا طبقہ بھی باپ اور بیٹے کی حکومت کے تماشے سے ناراض تھا اور اس کے پاس بھی کوئی چارۂ کار نہیں تھا سواے اس کے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیاجائے۔

 اترپردیش سے ہی کٹ کر اتراکھنڈ وجود میں آیا جہاں ایک خاصی مدت کے بعد بھاجپا کی دو تہائی اکثریت مستحکم ہورہی ہے۔ اگر یکجا طور پر غور تویوپی اور اتراکھنڈ میں پچھتر فی صد سے زیادہ سیٹوں پر بھاجپا کا قبضہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے عوام کو بے بسی میں ڈال رکھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملائم اور اکھیلیش نے بھاجپا کی گود میں کامیابی کا پروانہ رکھ دیا ۔ لالو یادو اور نتیش کمار نے اپنی طرف سے غیر فرقہ وارانہ ووٹوں کی تقسیم نہ ہو، اس کے لیے کئی انداز سے کوششیں کیں ۔ ان دونوں نے ابتدائی زمانے میں یو پی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا اور مشرقی یوپی کے مختلف اضلاع میں الیکشن کی تشہیر بھی شروع ہوچکی تھی مگر ان دونوں لیڈروں نے درست فیصلہ کیا۔ اسی زمانے میں لالو پرساد یادو نے یہ مشورہ دیا تھا کہ یوپی میں بہار ماڈل حکومت قائم ہونی چاہیے۔ یعنی ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی ساتھ آئیں اور میدان میں اتر کر بھاجپا کو شکست دیں ۔ لالو یادو کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور اب جو نتیجہ سامنے آیا، اس سے ہر پہلو کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

 گوا اور منی پور تو ایسی ریاستیں نہیں تسلیم کی جائیں گی جن سے ہندستان کی آیندہ سیاست کو راستہ ملے گا۔ یوپی میں تو اب بھگوا جھنڈا لہرایا ہی مگر پنجاب کی شکست کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی بات صاف صاف رکھنی چاہیے۔ پنجاب میں صرف بھاجپا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اکالی دل کی بھی حکومت تھی ، وہ سرکارکارکردگی کے اعتبار سے بہت ہی بُرے انداز سے چل رہی تھی۔ پنجاب اگرچہ ترقی یافتہ صوبہ ہے اور ملک کے سب سے امیر حصوں میں گنا جاتا ہے مگر وارداتِ جرایم ، نشہ خوری، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور طرح طرح کے اسکینڈلس میں گذشتہ دنوں ملوث رہا۔ ہر کام میں بھاجپا اکالی سرکارکی ناکارکردگی نمایاں تھی۔ پچھلے پارلیمنٹ میں اروند کیجریوال کی پارٹی نے اسی طور پر چار سیٹیں جیت لی تھیں مگر بھاجپا اور اکالی دل کو دیوار پر چسپاں یہ عبارت سمجھ میں نہیں آئی۔ بھاجپا کو یاد رہنا چاہیے کہ ان کی نکمی حکومت کو عوام نے مسترد کردیا۔

 پانچ صوبوں میں الیکشن کے نتائج مودی لہر یا آر۔ایس۔ایس۔ کے کارندوں کی چاق و چوبند سیاست کا نتیجہ نہیں ۔ نتائج صاف صاف بتا رہے ہیں کہ جہاں کی حکومت خراب طریقے سے چل رہی تھی اسے ہٹا دیا گیا۔ یوپی ، اتراکھنڈ اور پنجاب کے نتائج اعلانیہ طور پر یہی بتارہے ہیں ۔ گوا میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی پچھلی حکومت کے کاموں کی توثیق ہوتی ہوئی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مرکز میں واضح اکثریت اور موثر قیادت کے باوجود ایسے نتیجے گجرات، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے لیے آنے والے دنوں میں خطرے کی گھنٹی ثابت ہوں گے۔ ہر جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک طویل مدت سے حکومتیں کام کررہی ہیں ۔ یہ تو ممکن نہیں کہ یوپی کی جیت کو نریندر مودی کی جیت کہا جائے، اگر ایسا ہوگا تو پنجاب کی ہار کو کس کی ہار قرار دیا جائے؟ پانچ صوبوں میں انتخاب کے نتائج اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ہندستانی سیاست میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا چلن پیدا ہوسکتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی خاندانی سیاست سے اپنا دامن روزانہ ہی داغدار کرتی رہی ہے مگر یہ اچھا ہوا کہ ملائم سنگھ خاندان کی سوپر کیبینٹ والی سرکار کو بالآخر دھول چاٹنا پڑا، یہ بہرطور ہندستانی جمہوریت کے لیے اچھا ہی دن ہوگا۔

 موجودہ انتخاب میں وزیر اعظم سے لے کر ایک نچلے لیڈر نے جس بدزبانی کے ساتھ اپنی تقریریں کی ہیں اور جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑائی ہیں ، ان سے کوئی خوش گوار تبدیلی کا سوچنا بھی فضول کی بات ہے۔ بھاجپا مہاراشٹر سے لے کر جھارکھنڈ اور ہریانہ تک کہیں سے بھی کسی کارکن کو صوبے کا سربراہ بنادیتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں بھی یہی ہوگا اور عام قیاس آرائیاں کام نہیں کریں گی۔ بھاجپا کو یاد ہوگا کہ گپتا کو وزیر اعلا سے ہٹا کر راجناتھ سنگھ کو جب وزیراعلا کی کرسی عطا کی گئی، اس کے بعد ہی مایاوتی اور ملائم کی سرکاروں کی ادلا بدلی کا سلسلہ قائم ہوا۔ ٹھاکر اور براہمن کی قیادت میں اترپردیش اگر پھر سے بھاجپا کی نگرانی میں زور زبردستی سے چلایا جائے گا تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ اقلیت آبادی تو یوں بھی بھاجپا کو کبھی پسند نہیں آسکتی، اس نے کسی کو امیدوار بھی نہیں بنایا مگر اترپردیش میں پس ماندہ اور دلت طبقے کی سب سے زیادہ آبادی ہے، اس کے خلاف جاکر صوبے کی قیادت کسی اہم یا غیر اہم آدمی کو دی جائے گی تو وہ پھر تابوت میں آخری کیل ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔