ہمیں اپنی دو سالہ کوششوں کا بھی احتساب کر نا چاہیے

مئی 2014 میں مرکز میں این ڈی اے حکومت آنے کے بعد سے ہر سال مئی کا مہینہ اپوزیشن کے لیے مرکزی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور حکومتی حلقوں کے لیے اپنی حصول یابیوں کو گنوانے میں گزرتاہے۔ مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حلقے بھی مرکزی حکومت کی دو سالہ کار کردگی پر مذاکروں ، مباحثوں اور تجزیوں میں مصروف عمل ہیں اور مودی حکومت کی ہاتھی کی چال جاری ہے،حکومت کو اپوزیشن کے اعتراضات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اپنے طے شدہ ایجینڈے پر قدم بڑھائے جا رہی ہے، تعلیم کا بھگوا کرن ، ہندوستان کی تاریخ وثقافت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ہندوتو وادی نظریے کی توسیع کے لیے جارحانہ طرز عمل اپنانا اس کے ایجینڈے میں سر فہرست ہے۔ مودی حکومت کا یہ عمل غیر متوقع اور حیران کن نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ یہ حکومت ایک خاص نظریے کی پیروکار ہے۔
اپنے طے شدہ ایک ایک ایجینڈے پر قدم بہ قدم اگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے یہ تو اول روز ہی عیاں ہو گیا تھا کہ یہ حکومت کس طرح کی طرز حکمرانی میں یقین رکھتی ہے۔
تازہ واقعہ آسام اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کا ہے ، وزیر اعلیٰ سربانند سونو وال کے بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ آسام کی سرحد کو سیل کرنے اور فیملی رجسٹر کی درستگی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیہم یہ کام آئندہ دو برس میں مکمل کر لیں گے۔ ذرا یاد کریں یہ بیان سونو وال کا نہیں ہے بلکہ اس کا خاکہ 2014 کے عام انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پیش کیا تھا انہوں نے آسام میں ایک انتخابی ریلی میں متذکرہ بالا منصوبے کا اعلان کیا تھا ، اسی کی تکمیل کے لیے سونو وال عہدہ بستہ ہیں ، انہیں اپنا سبق بخوبی یاد ہے ، جتنا موقع مل پا رہا ہے آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس کے برخلاف اہل علم و دانش کا وہ طبقہ جو 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے فورا بعد ممکنہ چینلنجوں کو مذاکروں مباحثوں اور تجزیوں کے ذریعے پیش کیا تھا حالات سے نمٹنے کے لیے کچھ عملی تدابیر اپنانے کی بات بتائی تھی۔ ان کے لیے یہ یہ وقت مودی حکومت کا احتساب لینے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا بھی ہے ، وہ یہ دیکھیں کہ انہوں نے اپنے مذاکروں مباحثوں اور تجزیوں میں جن عملی اقدامات کی طرف متوجہ کیا تھا اس میں گزشتہ دو برس میں کیا عملی پیش رفت ہوئی؟ دو سال کی حکمرانی سے ہم نے کیا سبق لیا ؟
باخبر قارئین اپنے ذہن پر زور ڈالیں ، اس وقت کے تجزیوں ، تبصروں کے عناوین کچھ اس طرح کے تھے ، ووٹر زمانہ چال قیامت کی چل گیا ، بادخالف سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں لا ئحہ عمل کیا ہو ، ملک میں سیاسی تغیر کا تاریخی پس منظر ، حکمت عملی کی تشکیل ، ماضی کے نقوش مستقبل کے خطوط ، تصویر وطن نئی راہوں کی جستجو ، تندیء باد مخا لف سے نہ گبھرا اے عقاب ، اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے۔ طلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی ، موجودہ سیاسی تغیر کا تاریخی پس منظر ، عہد حاظر کا چیلنج وغیرہ وغیرہ۔ یہ تبصرے لوک سبھا انتخابات کے خلاف توقع نتائج آنے کے فورا بعد سے آنا شروع ہوئے تھے ، وقت کے ساتھ یہ سلسلہ مزید دراز ہو تا چلا گیا ، بلکہ اس میں مزید وسعت آئی تحریروں سے پاور پوائنٹ پرزینٹیشن ، گروپ ڈ سکشن، سیمیناراور سمپوزیم کا دور بھی شروع ہوا۔ اخبارات و رسائل کے خصوصی شماروں نے ” لائحہ عمل نمبر” شائع کیے ۔ آج جب ہم مودی حکومت کے وعدوں اور دعوں کا تجزیہ کرنے بیٹھے ہیں تو ہمیں اپنے دعوں اور اردوں کا بھی ایماندارنہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم نے ان تجزیوں اور مذاکروں سے کوئی رہنمائی حاصل کی ، گزشتہ دو برس میں ہم کہاں آکھڑے ہوئے ؟ اپنی سیاسی بے وزنی دور کرنے کی ہماری کوششیں کیوں بار آور نہیں ہو رہی ہیں ؟ اس درمیان ایک منتخب حکومت سے اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنے جائز مطالبات حل کرانے کی ہم نے کیا کوشش کی ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ دو برس میں ہندوستان کی معروف مسلم تنظیموں کے قائدین پر مشتمل ایسا کوئی ڈیلی گیشن ملکی و ملی ایشوز پر حکومت سے گفت و شنید کے لیے آگے نہیں جا سکا ؟ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دو برس قبل ہم نے جس ایجینڈے پر آگے بڑھنے کا عہد کیا تھا اس پر کتنا آگے جا سکے ہیں ،اس راہ میں کیا دشواریاں آئیں اور آئندہ کی ہماری حکمت عملی کیا ہو؟ لہذا ہمیں مودی حکومت کے دو سال کی کار گزاری کا جائزہ لیتے وقت اپنی دو سالہ کوششوں کا بھی احتساب کر نا چاہیے ، موجودہ صورت حال میں کام کرنے کے طریق کار کو وضع کریں ، تعلیمی اور معاشی میدان میں مسلمانوں کی پیش قدمی کے بغیر مثبت تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
گزشتہ دنوں سچر کمیٹی کے اہم رکن ابو صالح شریف نے حکومت ہند کی پالیسی پروگراموں کی خامیوں کو نشان زد کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے عملی تدابیر پر طویل ریسرچ کے بعد رہنمائی کی ایک اہم کتاب "انسٹی ٹیوشنلائزیشن آف کانسٹی ٹیوشنل رائٹس” تحریر کی ہے۔ یہ کتاب ہمیں حکومت سے اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کی رہنمائی فراہم کرتی ہے،اس کے لیے مقامی سطح پر ایسے افراد اور گروپ تیار کرنے ہوں گے جو زمینی سطح پر کام کرنے والے ہوں۔ یہ سوال ابھی جواب طلب ہی ہے کہ کیا مسلم لیڈرشپ مرکزی حکومت سے مسلم مسائل پر گفتگو کے لیے گزشتہ دو برس میں کوئی خاکہ تیارکر سکی ہے ؟ مودی حکومت کے ابھی تین برس ہیں ابھی بھی وقت ہے ہمارے درمیان موجود سنجیدہ لیڈرشپ ملک و ملت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے آگے آئے ایک روڈ میپ تیار کرے اپنے کرنے کے کام اورمیدان کیا ہیں اور حکومت سے وابستہ امور کیا ہیں ؟ دو الگ الگ پروگرام کے ساتھ میدان میں آئیں ہے ؟ مسلم مسائل پر جب آپ پی ایم او جائیں تو یہ تصور کریں کہ آپ ‘سنگھ’ نریندر مودی سے نہیں بلکہ ‘ہندوستان’ کے وزیر اعظم سے ملاقات کرنے آئے ہیں۔اس سے آپ کی جھجھک دور ہوگی ، لہجہ پر اعتماد ہوگا ، بات کرنے میں ذرا آسانی ہوگی۔
ashrafbastavi@gmail.com

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔