عدلیہ عوام کے نشانے پر ہو تو سمجھ لیجیے، ملک مر چکا ہے!

مشرف عالم ذوقی

غور کیجئے تو سیاست کی موجودہ حقیقت یہی ہے کہ ستر برسوں کے ہرجھوٹ پر نہ صرف پردہ دلا جا رہا ہے بلکہ ہر جھوٹ کو حقیقت بنا کر نیی تاریخ کے صفحات لکھے جا رہے ہیں۔ آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم، جس نے ملک کی آزادی میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔ ویر ساورکر، نتھو رام گوڈسے ہندوستان کے ویر سپوت بلکہ سنیاسی منش تھے۔ گاندھی نہرو انگریزوں کے مخبر تھے۔ ملک کو تقسیم کرانے میں ان دونوں کا کردار رہا۔ اس ملک میں مسلمانوں نے کویی قابل ذکر کارنامہ کبھی انجام نہیں دیا۔ مسلمان کبھی حب الوطن نہیں رہے۔ آنے والے وقت میں ہمارے بچے اسی نیی تاریخ کو ہندوستان کی اصل تاریخ سمجھیں گے۔ کانگریس کو اس لئے گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ سیاست دراصل اسی کی دین ہے۔ کانگریس کے پاس قاتل اور مجرموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لئے کافی وقت تھا۔ کانگریس یہ کارنامہ انجام کیوں نہیں دے پایی، یہ کانگریس سے پوچھا جانا چاہیے۔

جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ کی تحریک چلا کر راہل گاندھی نے بڑا کام کیا ہے۔ پچھلے چار برسوں سے عدلیہ کی ہر کاروایی کے پیچھے مرکزی دباؤ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کانگرسس کے کچھ اہم لیڈروں نے اس تحریک میں شامل نہ ہو کر ملک کو ابھی بھی اندھیرے میں رکھنے کا کام کیا ہے۔ موجودہ سیاست کا عدالتی نظام، مودی کے حکومت سنبھالنے کے پہلے دن سے ہی شک کے نرغے میں رہا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کے آتے ہی اس نظام کی کمیاں کچھ اس حد تک کھل کر سامنے آگییں کہ سپریم کورٹ کے چار ججوں کو اپنے ضمیر کی آواز پر پریس کانفرنس بلانی پڑی۔ اس کانفرنس کے بعد بھی ان ججوں کو خاموش نہیں کیا جا سکا۔ جب عدالتی نظام پر خود سپریم کورٹ کے ججیز آواز اٹھاییں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آیین اور قانون کے رکھوالوں نے اپنے ضمیر کو کس حد تک بیچ کھایا ہے اور ملک کی جمہوری قدروں کا کتنا خون بہایا ہے۔

 انصاف کو مرکزی حکومت سے خطرہ ہے۔ اسکی ایک مثال تو اس وقت ملی جب سہراب الدین مرڈر کیس میں امت شاہ کو کلین چٹ دینے کے بعد جج نے اپنا استعفے سونپنے میں دیر نہیں کی۔ جسٹس لویا مرڈر کیس میں بھی امت شاہ کو بچانے کے لئے جو فیصلہ سامنے آیا، اس نے اس حقیقت کو پختہ کیا کہ عدلیہ موجودہ وقت میں کن کے اشاروں پر کام کر رہی ہے۔ ساری تصویر صاف ہونے کے باوجود اگر اس مواخذہ کی تحریک میں اپازشن کی تمام پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتی ہیں، تو اس کو بھی ملک کی بد نصیبی ہی کہا جاےگا۔ ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مواخذہ کی تحریک کو مودی اور بی جے پی کیش کرنے کی کوشش کرینگے اور ہندوتو ایجینڈے کو عملی جامہ پہنانے کے راستے میں کانگریس کی مداخلت کو سامنے رکھ کر، ہندو اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے لیکن مواخذہ کی تحریک ان بند آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کریگی جن آنکھوں پر آج بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ جسٹس دیپک مشرا کی بینچ کو ہی بابری مسجد معاملے کی بھی سنوایی کرنی ہے۔ ۔ مرکزی حکومت کو اس بہانے رام مندر کارڈ ایک بار پھر کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ مندر پر فیصلہ اے نہ اے، مندر بنے نہ بنے، لیکن اس معاملے کو مودی حکومت ٢٠١٩ انتخاب تک بھنانے کی پوری کوشش کرے گی۔

کانگریس کا یہ عمل ضروری کیوں تھا، اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس بھی جانتی ہے کہ اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ لیکن اس بات کا بھی امکان غالب ہے کہ بی جے پی کو اس سے نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ میڈیا کے بے نقاب ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کانگریس نے عدالتی نظام کو ہدف بنایا ہے۔ جیت ہار سے پرے، اس کی گونج دور تک ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہے جب سوشل ویب سائٹس پر چیف جسٹس کی زندگی کے کالے کارناموں کو کھنگالا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آیی کہ چیف جسٹس نے اپنے بھایی کے ساتھ مل کر اروناچل پردیش کے سابق وزیر ا علی کلیکھو پل سے سینتیس کروڑ کی رشوت مانگی تھی۔ کیس ہارنے کے بعد کلیکھو پل نے خودکشی کر لی۔ اور خودکشی نوٹ میں دیپک مشرا اور انکے بھایی کو اپنی موت کا مجرم گردانا تھا۔ ایک اور الزام ہے کہ پرساد ایجو کیشن ٹرسٹ کیس میں چیف جسٹس نے ٹرسٹی اور ٹرسٹ سے متعلق افراد کو فایدہ پہچانے کا کام کیا تھا۔ ان پر غلط حلف نامہ دے کر زمین پر نا جایز قبضہ کرنے کا الزام بھی ہے۔ کچھ بیحد اہم معاملات میں جسٹس دیپک مشرا نے اپنے منصب کا غلط استعمال کیا، کانگریس نے یہ الزام بھی لگایا ہے۔ گجرات اسمبلی الیکشن میں غیر معمولی تاخیر کو لے کر بھی مشرا شک کے دایرے میں رہے ہیں۔ مجموعی طور پر مشرا وہی کرتے رہے جو مرکزی حکومت ان سے کراتی رہی۔ لیکن ملک کے عوام تک یہ تمام حقیقت پہلی بار کانگریس کے ذریعہ عام ہوئی کہ میڈیا کی طرح اب ملک کو عدلیہ پر بھی بھروسہ نہیں رہا۔ مودی کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں کے درمیان کیا پتہ، کانگریس کا یہ تیر کام کر گیا تو مواخذہ کی تحریک مسترد کیے جانے کے با وجود مودی حکومت کے کھاتے میں بدنامی کا سب سے بڑا داغ لگ جائے گا۔

آر بی آی کے ارجیت پٹیل، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا، الیکشن کمشنر ام پرکاش راوت مودی کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ عدلیہ، آر بی آی، الیکشن کمیشن آج تینوں شک کے دائرے میں ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ الگ الگ ان تینوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گیی ہے کہ ٢٠١٩ میں جیسے بھی ممکن ہو، مودی حکومت کے سر پر دوبارہ تاج ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ مودی اور امت شاہ کے یہ فرمانبردار، مرکزی حکمت کی سرپرستی میں بلا خوف اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

٢٠٠٢ گجرات مسلم کشی کے کچھ برس بعد ہی یو پی اے کی حکومت آ گیی تھی۔ یو پی اے نے دس برس حکومت کی۔ گجرات دنگے کے ثبوت موجود تھے۔ ویڈیو کے علاوہ گجرات دنگوں پر انگریزی اور دیگر زبانوں میں کافی کتابیں شایع ہو چکی تھیں۔ کچھ کتابوں کو پڑھنے کا موقع مجھے بھی ملا۔ دن تاریخ کے ساتھ سیاہ دن کے سیاہ کارناموں کی حقیقت صاف صاف بیان کی گیی تھی۔ کس نے کب جلوس نکالے۔ جلوس کی قیادت کی۔ کب کس نے فرمان جاری کیا کہ مسلمانوں کو کھل کر ہلاک کرو۔ امت شاہ، مودی، مایا کوڈنانی اور بہت سے نام تھے، جن کی پوری فہرست میڈیا والوں کے پاس تھی۔ کیا دس برس فیصلہ سنانے کے لئے کافی نہیں ہوتے ؟ آخر یو پی اے کی حکومت ملزمین کو سزا سنانے کے لئے اتنی مجبور کیوں تھی کہ بی جے پی کے آتے ہی ثبوت ختم کر دیے گئے ؟ ملزم اور گنہگار پنجرے سے واپس آ گئے ؟

اٹھارہ مئی 2007 کو جمعہ کی نماز کے دوران حیدرآباد مکہ مسجد میں ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں 9 افراد ہلاک جبکہ دیگر 58 زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے میں 160 چشم دید گواہوں کے بیانات درج کیے گئے تھے۔جانچ کے بعد اس واقعہ میں دس لوگوں کو ملزم بنایا گیا۔ اس میں ابھینو بھارت کے تمام ارکان شامل تھے۔ سوامی اسیمانند سمیت دیویندر گپتا، لوکیش شرما عرف اجے تیواری، لکشمن داس مہاراج، موہن لال رتیشور اور راجیندر چوہدری کو اس معاملے میں ملزم قرار دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران ہی آر ایس ایس کے سنیل جوشی کو گولی مار دی گئی تھی۔ اس وقت بھی یو پی اے کی حکومت تھی۔ سہراب مودی کیس میں بھی مجرموں کو آسانی سے سزا سنایی جا سکتی تھی۔ لیکن کانگریس کے دور حکومت میں عدالتی فیصلوں کو جان بوجھ کر لٹکایا جاتا تھا۔ اپازشن سے خوفزدہ کانگرس کو ڈر اس بات کا تھا، ان کی حکومت کے جاتے ہی کانگریس کو نشانہ بنانے اور عدالت میں گھسیٹنے کی کاروای شروع ہو سکتی ہے۔ راہل گاندھی کے لئے یہ چیلینج آسان نہیں تھا، لیکن اس بات کی داد دینی ہوگی کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر، مواخذہ کی تحریک شروع کر کے انہوں نے سویی ہوئی، مردہ کانگریس میں نیی روح پھوکنے کی کوشش کی ہے۔ اس عمل میں شکست کے احساس کے با وجود راہل گاندھی نے اپنے قد کو بڑا کر لیا ہے۔

عدلیہ عوام کے نشانہ پر ہو تو سمجھ لیجئے، ملک مر چکا ہے۔ ۔چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک میں بازی بی جے پی کے ہاتھ ہوگی لیکن جیتے گا ہندوستان۔ ۔اور ہندوستان اس لئے جیتے گا کہ عوام کے سامنے مرکزی حکومت کے گناہوں کا پٹارا کھل چکا ہوگا۔ ۔یہ بھی کویی چھوٹی بات نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔