نسیم حجازی کی ناول نگاری (آخری قسط)

آصف علی

شاید ہی کوئی ادیب ایسا ہو جس کی اپنی زندگی کا عکس اس کی تحریروں میں نہ جھلکتا ہو۔ یہ بات نسیم حجازی پر بھی صادق آتی ہے۔
لیکن ان کی دوکتابوں ‘دیسی درخت’ اور ‘گمشدہ قافلے’ میں سوتیلی ماں کےکردار میں ان کے اپنےتجربات کی پرچھائیاں نظرآتی ہیں۔ ایسے  ہی  ‘خاک اورخون’ کےکردار سلیم میں اس کی جھلک موجودہے، اوراس کااظہارخودانہوں نےبھی کیاہے۔ انہوں نے اپنی  ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نویسی سے کیا تھا۔  اسی کے ساتھ ساتھ ناول نگاری بھی جاری رہی۔ اپنےپہلےاوردوسرےافسانےمیں انہوں نےہندومعاشرت میں عدم مساوات کوموضوع بنایااس موضوع سےدل چسپی کا سبب  شایدان کےبچپن کے ایک واقعہ کاغیرشعوری احساس تھا۔ ایک انٹرویومیں انہوں نےاس واقعہ پرروشنی ڈالی ہے:

"میں پہلی جماعت میں پڑھتاتھا۔ وقفےکےدوران ایک ہندوبچہ اپناکھاناکھارہاتھا، میں نےاس سےکہاکہ آؤکھیلتےہیں۔ میراہاتھ اس  کے  کھانے کو چھو گیا۔ وہ بگڑبیٹھاکہ میراکھاناخراب کردیا۔ اس نےایک ہندوماسٹرسےشکایت کی جس نےمجھےدوچھڑیاں ماریں۔ میرےچھوٹےسےذہن میں  (اس کا جواب) یہ نہ آیاکہ میں ایک صاف ستھرےگھرانےکابچہ ہوں ، نہاتادھوتاہوں پاک صاف رہتاہوں، میراہاتھ لگنےسےاس کاکھاناکیسےخراب ہوگیا؟ اس واقعہ نےمیرےذہن میں بھی ہندؤں سےنفرت پیداکردی اورمیں چھوت چھات کوناپسندکرنےلگا۔ اس تصورنےمیرےذہن کواس قدرپختہ کیاکہ میں ادیب بن گیا”

اس پس منظر میں پہلےافسانے شودر سےایک اقتباس:

"مجھےمظلوم قوم کی گذشتہ کئی ہزاربرس کی زندگی بیری کےاس سوکھےدرخت سےمشابہ نظرآنےلگی اورملک کےخودغرض سماج نےمیرےدل میں اس زردرنگ بیل جس نےاپنی زندگی کےسہارےکوبڑھنےاورپھلنےپھولنےکاموقع دینےکی بجائےنیست ونابودکردیاتھا، ان دونوں میں مجھےفقط یہ فرق نظرآیاکہ اس بیل کودرخت کی زندگی تباہ کرنےکےبعدخودبھی تباہی کاسامناکرناپڑا۔
لیکن ہندوسماج کئی ہزاربرس سےاچھوتوں کی سوکھی ہوئی ہڈیوں پراپنےعشرت کدےتعمیرکررہی ہےاورباغ وطن کےکسی مالی نےابھی تک یہ محسوس نہیں کیاکہ سماج کاجوبوجھ اس قوم کےنحیف کندھوں کےلیےناقابل برداشت ہوچکاہےاتارڈالاجائے۔ "

ایک لحاظ سےیہ ایک نامکمل افسانہ تھاکیوں کہ خودانہوں نےاپنےناول٫٫انسان اوردیوتا، ، کوشودرکےبنیادی تصورات کاپھیلاؤ قراردیاہے۔ ایک سوال کےجواب میں کہ آپ کاناول٫٫انسان اوردیوتا، ، کچھ نامکمل سامحسوس ہوتاہے؟اگرآپ اس کےاختتام پرہندوستان میں محمدبن قاسم کی آمدکی گونج دکھاکرحق کی تلاش میں سرگرداں کرداروں کی رہنمائی کردیتےتوکیابہترنہ تھا؟فرمایا:

"ہوتویوں بھی سکتاتھالیکن اگرآپ ‘انسان اوردیوتا’کےبعد’آخری معرکہ’ کامطالعہ کریں توآپ کواپنےسوالوں کاجواب مل جائےگا۔ "

اپنے ایک انٹرویو میں ‘انسان اور دیوتا ‘لکھنے کی وجہ اس طرح بیان کی:

"انسان اور دیوتا لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہندو فاشزم اور معشیت سامنے تھی ہندو کا اصلی چہرہ میں نے دیکھ  لیا تھا۔ چونکہ ہندو کے نزدیک دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئےاچھوت کا گلا کاٹ دینا ایک عام بات تھی۔ ہندو کی اس فطرت سے اپنی قوم کو باخبر کرنا میری ذمہ داری تھی۔ تم پر بھی یہ وقت آسکتا ہے ہوشیار ہوجاؤ کہیں شودر کی طرح تمہیں بھی ذبح نہ کردیا جاۓ۔ میں نے صرف یہ ناول ہی نہیں لکھا تھا بلکہ عملی طور پر ہندو کے ان مقاصد کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔ میں نے حسرت موہانی صاحب سے بھی ملاقات کی تھی اور ان سے کہا کہ مسلمان بے خبر سوۓ ہوئےہیں ۔ "

نسیم حجازی کی زندگی کے کئی واقعات کی جھلکیاں ان کےناولوں کےکرداروں میں ملتی ہیں ۔ ڈاکٹرتصدق حسین راجا اپنی کتاب ‘نسیم حجازی_ایک مطالعہ’ میں رقم طرازہیں:

٫٫یہ نوجوان(نسیم حجازی)ایک روزلاہورکے چڑیا گھرمیں گھوم رہاتھا۔ چیتوں کےایک پنجرےکے سامنےایک بچہ اپناہاتھ باربار سلاخوں کے اندرلے جاکرچیتے کے بچےکوکچھ کھلارہاتھاکہ اچانک اس چیتےکے بچےنے اس لڑکےکےہاتھ میں منھ ڈال دیا۔ اس نوجوان نے ایک لمحےکے لیےکچھ سوچااورپھرپاس ہی کھڑےایک تماشائی کی چھڑی لےکرلڑکےکےقریب پہنچ گیااورچھڑی کا مضبوط لوہےکاڈنڈااس زورسےچیتےکےبچے کوماراکہ اس نے گھبراکراس لڑکے کاہاتھ چھوڑدیا، جولہولہان ہوچکاتھا۔ لوگوں نے خوشی میں تالیاں بجائیں اورکسی نےکہاکہ اخباری نمائندہ کوبلاؤاس کی تصویرلےلو، مگریہ نوجوان جوایسےکاموں کےلیےاشتہاری مجرم  بنناپسندنہیں کرتاتھاوہاں سےسائیکل پرسوارایسابھاگاکہ گھرآکردم لیا۔ اس واقعہ کی جھلک ہم کوان کےناول ‘داستان مجاہد’ کے کردار نعیم میں دکھائی دیتی ہےجوچیتےکےمقابل میں ڈٹ گیااوراس کےٹکڑےٹکڑےکرڈالے۔ "

اسی طرح نسیم حجازی کےناول گمشدہ قافلےکی ہیروئن فہمیدہ میں ان کی بیوی کےکردارکی جھلکیاں ملتی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ آج کا نقّاد ان کی کتابوں پر نکتہ چینی کرے، مگر اسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس زمانے میں نسیم حجازی نے اپنی ادبی و صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا،  نہ صرف اس زمانے کے ادبی معیار آج کے دور سے بہت مختلف تھے، بلکہ قاری کا مزاج بھی بہت الگ تھا۔ ساتھ ہی وہ زمانہ عالمی سیاست، جغرافیہ  اور تہذیب کی انتہائی تیزی سے واقع  ہوتی تبدیلیوں  سے پر تھا۔ دو سو سال کی انگریز کی غلامی کے بعد آزادی کا ذائقہ، جدید علمی اور فکری انداز، بکھرتی ٹوٹتی اخلاقی اور تہذیبی اقدار، یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے اسلامی امّہ اور پاکستانی قوم کے تصور سے لوگوں کو انتہائی جذباتی طور سے وابستہ  کیا اور اسی کا عکس ہمیں ان کے دور کے اسلامی ذہن رکھنے والے تقریباً سارے ادیبوں میں ملتا ہے۔ اس لحاظ سے نسیم حجازی نے اپنے دور کے تقاضے  بخوبی پورے کیے اور یقیناً  ہمیں ان کی خدمات پر ان کو شاندار خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔