عورت: رسول اکرمﷺ کی نظر میں (قسط 2)

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر

عورت بہ حیثیت خالہ:

 رشتہ داروں میں ماں سے ملتی جلتی صورت خالہ کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خالہ کو بمنزلہ ماں کے قرار دیا ہے۔ روایت ہے براء ابن عاذبؓ سے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

’’اَلْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ‘‘

’’خالہ بمنزلہ ماں کے ہے‘‘۔ (ترمذی، ابوابُ البِرِّ وَ الصِّلَۃِ، بابُ مَاجَائَ فِيْ بِرِّ الْخَالَۃِ)۔

عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ بچہ کی پرورش میں ماں کے ہوتے ہوئے بھی خالہ کا اہم رول ہوتاہے اور خدانخواستہ اگر ماں کا انتقال ہو جاوے تو اکثر حالات میں ’خالہ‘ماں کابدل ثابت ہوتی ہے۔ غالباً اسی لئے رسول پاک ﷺ نے خالہ کو ماں کا بدل قرار دیا اور اس کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے۔ روایت ہے ابن عمرؓ سے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میرے لئے توبہ(کی گنجائش) ہے؟ آپؐ نے پوچھا : کیا تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپؐ نے پوچھا: کیاتیری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا:پھر (تم) ان کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔ (ترمذی، ابوابُ البر و الصلۃ، بابُ مَاجَآئَ فِيْ بِرِّ الْخَالَۃِ)۔ اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ ماں کی طرح خالہ بھی حسن سلوک کی حقدار ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ماں اور خالہ کے ساتھ حسن سلوک بڑے بڑے گناہوں کے معافی کاذریعہ ہے۔

  عورت بہ حیثیت بیوی: مردوں کے لئے بیوی بھی قدرت کا ایک حسین تحفہ اور نعمت ہے شرط یہ ہے کہ وہ نیک بخت ہو۔ عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’اِنَّ الدُّنْیَا کُلَّھَا مَتَاعٌ، وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا  الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ‘‘

’’دنیا پوری کی پوری مال و متاع( یعنی وقتی فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی چیزوں میں سے بہترین اورسب سے بڑھ کر نفع بخش شٔی نیک بخت عورت ہے‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب النکاح، باب الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ)۔

یعنی جس کو نیک بخت خوش اخلاق عورت مل گئی اس کوسب سے بڑھ کر دنیا میں دولت مل گئی اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی عزت اور اس کا رکھ رکھائو بھی ویسے ہی کیا جاتا ہے۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

’’أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا أَحْسَنُھُمْ خُلُقًا، وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَآئِھِمْ خُلُقًا‘‘

’’سب مومنوں میں کا مل تر ایمان میں وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم سب میں بہتر ین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہوں ‘‘۔ (سنن ترمذی، ابوابُ الرضاع، بابُ مَاجَآئَ فِي حَقِّ الْمَرْأَۃِ عَلٰی زَوْجِھَا)۔

  ابو ہریرہؓ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اگر تو اسے ایک دم سے سیدھا کرناچاہے گا تو اسے توڑ ڈالے گا (وہ سیدھی نہیں ہوگی ) اور اگراسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہ کر باقی رہے گی۔ اس لئے میں تمھیں عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں ‘‘۔(صحیح بخاری، کتابُ النِّکَاح، بابُ الْوَصَاۃِ بِالنِّسَاء)۔

ایک اورحدیث ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’الْمَرْأَۃُ کَالضِّلَعِ، اِنْ أَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا وَ اِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِھَا اسْتَمْتَعْتَ بِھَا وَ فِیْھَا عِوَجٌ‘‘ جس  کا مفہوم اس طرح ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’عورت پسلی کی طرح ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہوگے تو اسے توڑ بیٹھوگے اور اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہوتو اس کے ٹیڑھے پن کی موجودگی ہی میں فائدہ اٹھاسکتے ہو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ النِّکَاح، بابُ الْمُدَارَاۃِ مَعَ النِّسَائِ)۔ ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کی نفسیات کو سمجھنے اور ان سے بہتر طریقہ سے فائدہ حاصل کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد و عورت دونوں کو الگ الگ مزاج اور فطری صلاحیتوں سے نوازا ہے اور دونوں کے باہم ملنے سے ایک دوسرے کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کو مردوں کے مزاج پر ڈھالنا مقصود اور ممکن ہوتا تو پھر ان کی تخلیق کی ضرورت ہی کیا تھی، صرف مردوں سے ہی دنیا کا نظام چلا کرتا۔ لیکن اللہ بزرگ و برتر نے اپنی حکمت بالغہ سے ہی ان دو جنسوں کو الگ الگ مزاج پر پیدا کیا ہے لہٰذا انہیں اسی طرح رہنے دینا چاہیے اور ان سے استفادہ کی راہ تلاش کرنی چاہیے جس کی بہترین تدبیر حسن اخلاق ہے جس کی وصیت نبی کریم ﷺ نے مردوں کو کی ہے۔

 حجتہ الوادع کے بلیغ خطبہ میں بھی آپؐ نے عورتوں کے ساتھ بھلائی کا حکم فرمایا۔ عمرؓو بن الاحوص روایت کرتے ہیں کہ وہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر تھے پس آپؐ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اس (حج کی توفیق و ادائیگی) پر اور نصیحت کی اور وعظ فرمایا۔ پھر راوی نے یہاں ایک طویل حدیث ذکر کیا ہے جس کے اخیر میں یہ بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’خبردار رہو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ قید میں ہیں تمھارے پاس، تم ان پر کچھ اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے(یعنی صحبت وغیرہ کے)مگر یہ کہ وہ کچھ بے حیائی کریں کھلی ہوئی، تواگر وہ ایسا کریں تو دور کر دو ان کابستر اور ایسی ہلکی مارمارو ان کو کہ ہڈی پسلی نہ ٹوٹے (یعنی بہت زیادہ نہ مارو)پھر اگروہ تمھاری فرمانبرداری کرنے لگیں توان کو تکلیف دینے کی راہ تلاش نہ کرو۔ آگاہ ہو کہ بیشک تمھارا حق ہے تمھاری عورتوں پر اور (اسی طرح) تمھاری عورتوں کا حق ہے تم پر، سو تمھاراحق تمھاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو تمھارے بستروں  کے قریب نہ آنے دیں جنہیں تم پسند نہیں کرتے بلکہ ایسے لوگوں کو بھی گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے، آگاہ ہو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے پہننے اور کھانے کی چیزوں میں ان سے عمدہ سلوک کرو‘‘۔ (سنن ترمذی، ابوابُ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن، باب مِنْ سُوْرَۃِ التَّوْبَۃِ)۔

 اس حدیث میں رسول پاک ﷺ نے جہاں عورتوں سے حسن سلوک کی وصیت کی اور ان کے حقوق بتائے وہیں بیوی کو بطور تنبیہ مارنے کی اجازت بھی دی ہے اور یہ اجازت سورہ نساء کی آیت۔۳۴ سے بھی ثابت ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَآئِ  بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا ہ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُّرِیْدَآ إِصْلاَحاً یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْرًا

’’مرد حاکم (نگراں ) ہیں عورتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس لئے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ، پس نیکوکار عورتیں (مرد کی) تابع فرمان ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال و آبرو کی ) نگہبانی کرنے والی ہیں ۔ اور تمہیں ڈر ہو جن عورتوں کی بدخوئی کا پس (پہلے) ان کو سمجھائو، اور (اگر نہ سمجھیں تو) خواب گاہوں میں ان کو تنہا چھوڑو، اور (اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو) ان کو مارو، پھر اگر وہ تمھارا کہنا مانیں توان کو ایذا دینے کی راہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا ہے۔ اگر تم ڈرو دونوں کے درمیان کشمکش سے تو مقرر کردو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے، اگر وہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت کردے گا، بیشک اللہ بڑا جاننے والابہت باخبر ہے ‘‘۔ ( النسآء: ۳۴-۳۵)۔

لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں وجہ تنبیہ کے طور پر مطلق نافرمانی کا ذکر ہے جب کہ حدیث میں اسے نافرمانی کی ایک خاص صورت یعنی بے حیائی اور فحاشی کی راہ اختیار کرنے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، سو اگر اس حدیث کو قرآن کریم کی تشریح مان کر مارنے کی اجازت کو صرف اسی صورت کے ساتھ مقید کردیا جائے تو اس کے دفاع میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس تادیب میں ایک طرح سے شفقت کا پہلو ہی مضمر ہے کیوں کہ بے حیائی کی راہ جس عمل پر منتج ہوتی ہے اس کی سزا اسلام میں رجم ہے یعنی سنگساری، تو ایک بڑی سزا سے بچانے کے لئے ایک چھوٹی سزا دینا عین ہمدردی ہے خلاف محبت نہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے کسی عزیز کے پھوڑے پھنسی کا عمل جراحی کرانا کہ اس سے مریض کو گو وقتی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن کوئی بھی اسے خلاف محبت نہیں کہتا کیونکہ بصورت دیگر متعلقہ عضو کے ہی ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

  اور اگر مارنے کی اس اجازت کو مطلق نافرمانی کے ساتھ منسوب کردیاجائے جب بھی قرآن کریم نے اسے تیسرے درجہ میں رکھا ہے۔ اس سے قبل اصلاح کے دو درجے یعنی نرمی سے سمجھانے اور بستر سے علیحدگی کا ذکر ہے اور اگر ان شریفانہ سزائوں سے بھی کسی کی اصلاح نہ ہو تو ہلکی مار مارنے کی اجازت ہے، اس میں بھی چہرے پر مارنے کا حکم نہیں اور نہ ہی ایسی مار مارنے کی اجازت ہے جس سے بدن پر نشانات آجائیں یا ہڈی ٹوٹنے اور زخم لگنے تک نوبت آجائے۔ لیکن کچھ غیر مہذب لو گ بات بات پر اور بہانے بنا بنا کر عورتوں کے ساتھ مارپیٹ اور جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں اور اپنی اس بد سلوکی کو اسلام کے کھاتہ میں ڈال دیتے ہیں ۔ ایسے افراد یاد رکھیں کہ گرچہ رسول پاک ﷺ نے بدرجہ مجبوری اس کی اجازت دی ہے لیکن آپؐ نے اس کو قطعی پسند نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔ چنانچہ مارنے کی سزا پر عمل نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صلحائے امت سے کہیں ایسا منقول ہے۔آپؐ نے فرمایا :

’’لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمْ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُھَا فِي آخِرِ الْیَوْمِ‘‘

’’ تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو غلام لونڈی کی طرح نہ مارے (کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ صبح کو تو اسے اس طرح مارے )پھر شام کو اس سے صحبت کرے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، بابُ مَا یُکْرَہُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَآئِ، بروایت عبداللہ بن زمعہؓ)۔

اسی طرح طلاق کے حکم کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اکثر معاملوں میں دین کی سمجھ نہیں ہونے کی وجہ سے ہی اس حق کا غلط استعمال ہوتا ہے اور حقوق نسواں کے علمبرداران بھی شریعت سے لاعلمی یا بعض اوقات بیزاری کے سبب ایسے واقعات کو اسلام کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔ طلاق کی اجازت انتہائی ناگزیر حالات میں دی گئی ہے۔ اصلاح کی مذکورہ بالاتین تدابیر اختیار کرنے سے عورت اگر اپنے عمل میں تبدیلی لے آئے اور مطیع و فرمانبردار ہو جائے تو معاملہ کو وہیں ختم کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر اس کے بعد بھی مصالحت اور اصلاح نہ ہو تو قرآن کریم نے ایک چوتھی تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔ وہ یہ کہ ایک حکم (ثالث) مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کرکے دونوں میاں بیوی کے پاس بھیجے جائیں ۔ یہ دونوں حالات کی تحقیق کریں اور معاملات طے کرکے باہمی مصالحت کی صورت پیدا کریں ۔ اللہ رب العزت نے اس بات کا وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر دونوں ثالث خلوص و ہمدردی کے ساتھ باہمی مصالحت کی کوشش کریں گے تو وہ ضرور ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔

 اگر یہ تمام تدابیر بھی ناکام ہو جائیں اور باہمی مصالحت کی کوئی صورت نظرنہ آے تو مرد کو اختیار ہے کہ وہ طلاق کا حق استعمال کرے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہوکر اپنی مرضی کے مطابق بقیہ زندگی گزار سکیں ۔ یہ کم از کم اس صورت سے تو بہت بہتر ہے کہ انسان گھٹ گھٹ کر ساتھ زندگی گزارے یا پھرشریک حیات کا قتل کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرلے جیسا کہ ہمارے برادران وطن کے معاشرہ میں عام طور پر رائج ہے۔ گو عورت کو طلاق کا آزادانہ اختیار نہیں دیا گیا ہے لیکن اُسے اس حق سے بالکل محروم بھی نہیں کیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے ظلم کو سہنے پر مجبور ہو بلکہ اُسے یہ حق ہے حاکم شرعی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور اپنی شکایات کے حق میں ثبوت فراہم کرکے نکاح فسخ کرالے یا طلاق حاصل کرلے جسے شریعت میں خلع کہتے ہیں ۔ عورت کو طلاق کا آزادانہ حق نہیں دینے کی ایک وجہ تو مرد کی قوامیّت اور اس کا مہر اور نفقات کی شکل میں عورت کی ذات پر مال کا خرچ کرنا ہے۔اگر عورتوں کو طلاق کا آزادانہ اختیار دیا گیا ہوتا تو آج کے دور کی بہت سی رذیل قسم کی عورتیں نکاح کو تجارت ہی بنالیتیں ۔ ان کی نگاہیں مہر اور شوہر کے دوسرے اموال پر ہوتیں اور جب یہ چیزیں اس کے قابو میں آجاتیں تو وہ شوہر کو طلاق دے کر چل دیتیں ۔ اس لئے اصولاً یہ بات درست سمجھی گئی کہ جس نے مال خرچ کئے ہوں اسے ہی طلاق کا آزادانہ حق ہو۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عورتیں بنسبت مردوں کے وقتی تاثرات سے جلد مغلوب ہو جاتی ہیں ، اس لئے اس میں ایک طرح کی حفاظت بھی ہے کہ کہیں وقتی تاثرات رشتوں کے انقطاع کا سبب نہ بن جائیں ۔

  دوسری طرف مردوں کو طلاق کا آزادانہ اختیار تو دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی اس پر ناپسندیدگی بھی ظاہر کردی گئی ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ‘‘

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔ (سُنن ابی دائود، کتابُ الطَّلاق، بابُ فِي کَرَاھِیَّۃِ الطَّلَاق، بروایت عبداللہ بن عمرؓ )۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :

’’مَا أَحَلَّ اللّٰہُ شَیْئًا أَبْغَضَ إِلَیْہِ مِنَ الطَّلَاق‘‘

’’ طلاق سے زیادہ مبغوض کوئی اور چیز اللہ نے حلال نہیں کی‘‘۔ (سُنن ابی دائود، کتابُ الطَّلاق، بابُ فِي کَرَاھِیَّۃِ الطَّلَاق، بروایت محارب بن دثارؓ )۔

مذکورہ روایتوں میں اول الذکر روایت اس کے ایک راوی کثیر بن عبید کے لین الحدیث ہونے کی وجہ سے اور ثانی الذکر روایت مرسل ہونے کی وجہ سے اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے گو کہ حاکمؒ نے اس کی تصحیح کی ہے اور علامہ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے لیکن امام ابوحاتمؒ، دارقطنیؒ اور بیہقیؒ نے اس حدیث کے مرسل ہونے کو ہی راجح کہا ہے۔ تاہم اس کے پیغام کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ زوجین کی تفریق انسان کے ازلی دشمن ابلیس کی پسندیدہ ترین چیز ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے متنبہ بھی کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو (عالم میں فساد کرنے کے لئے) بھیجتا ہے۔ پس اس کے نزدیک مرتبہ میں مقرب ترین وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑافتنہ برپا کرے۔ (چنانچہ) ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا (مثلاً فلاں کو شراب پلوائی، فلاں سے چوری کرائی وغیرہ) تو ابلیس کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق (جدائی) نہ کرادی تو ابلیس اس کو اپنے سے قریب کرلیتا (چمٹالیتا) ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیاہے‘‘۔ ( صحیح مسلم، کتاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِیْنَ وَ أَحْکَامِھِمْ، باب تَحْرِیْشِ الشَّیْطَان وَبَعْثِہِ سَرَایاہُ لِفِتْنَۃِ النَّاس۔۔، بروایت جابرؓ)۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو چیز ابلیس کی محبوب ترین چیز ہو وہ اللہ عز و جل کی پسندیدہ تو نہیں ہوسکتی۔

 اس کے علاوہ طلاق کی اجازت کے ساتھ کئی پا بندیاں بھی لگا دی گئی ہیں ۔ مثلاً غصہ کی حالت اور وقتی نا گواری میں اس اختیار کو استعمال نہ کیا جائے، عورت جب حیض کی حالت میں ہو تو اُسے طلاق نہ دیجائے، اسی طرح اُس طہر کی حالت میں بھی طلاق نہ دیجائے جس میں مجامعت (Intercourse) کی نوبت آئی ہو۔ آخرالذکر دونوں صورتوں میں جہاں عورت کی عدت کی مدت کے طویل ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اس کی تکلیف سے حفاظت مقصود ہے وہیں اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ ممکن ہے مقصود مدت کے انتظار میں غصہ فرو ہو جائے اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے۔ اسی طرح شریعت نے ایک اور آسانی یہ بھی رکھی ہے کہ لفظ طلاق کے منہ سے نکلتے تمام رشتے منقطع نہیں ہو جاتے بلکہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں عدت کی مدت تک عورت اسی مرد کے نکاح میں رہتی ہے اور اگر وہ دونوں چاہیں تو شرعی قائدے کے مطابق باہم رجوع کرسکتے ہیں ۔ اسی لئے عدت اسی گھر میں گزارنے کا حکم ہے کہ بہت ممکن ہے کہ غصہ فرو ہوجائے اور باہمی مصالحت کی کوئی صورت نکل آئے اور اسی لئے بہ یک وقت تین طلاق کے استعمال سے بھی روکا گیا ہے تاکہ غور و فکر اور رجوع کے امکانات باقی رہیں ، یکسر ختم نہ ہوجائیں ۔

 ان تمام احکامات پر اگر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ شریعت میں اخیر درجہ تک اس کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ رشتہ ازدواج ٹوٹنے نہ پائے۔ رسول پاک ﷺ نے صحابہ کو اپنی بیویوں سے حتی الا مکان نباہ کرنے کی ترغیب دی، انہیں ان کی خوبیوں پرنگاہ رکھنے اور عیبوں کو نظرانداز کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر اس کے اندر کوئی عیب ہے تو کوئی خوبی بھی ہوگی۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’’لَا یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً، إِنْ کَرِہَ مِنْھَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْھَا آخَرَ أَوْ قَالَ غَیْرَہُ‘‘

’’مومن مرد کی یہ شان نہیں کہ اپنی مومنہ بیوی سے بغض رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اُسے ناپسند ہوگی تو دوسری پسندیدہ بھی ہوگی‘‘۔(صحیح مسلم، کتابُ الرِّضَاع، بابُ الْوَصِیَّۃِ بِالنِّسَائِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔

طلاق کے احکامات پر غور کرنے سے دوسری اہم بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ طلاق(کم ازکم رجعی کی حد تک)اصلاحی تدابیر کاہی حصہ ہے اور اسے بالکل اخیر درجہ میں بطور اصلاح ہی استعمال کرنا چاہیے اور حتی الامکان نباہ کی صورت پیدا کرنی چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق دینا، نشہ کی حالت میں طلاق دینا، ایک ہی مجلس میں دو، تین یا اس سے زائد طلاق دینا شریعت کی منشاء کے بالکل خلاف ہے۔ یہ سب وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں یا تو شریعت کا علم نہیں یا پھر شریعت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔