باپ سولی چڑھ گیا

محمد حسن

وہ ایک باپ تھا اور باپ بھی ایسا جس کے آنگن میں چار  پھول، نرگس، نیلوفر،چمپا اور چنبیلی کی شکل میں چار بیٹیاں ہمیشہ خوشبودار ماحول بنائے رکھتیں وہی ان کی موجودگی سے صبح وشام چڑیوں کی چہچہاہٹ کا موسم  بھی خوب بنا رہتا، ایک غریب کسان ہونے کے باوجود بھی بیٹیوں کے ہونے کااسے کوئی رنج تھا اور نہ ہی سماج کے طعنوں کی کوئی پرواہ تھی، اس کی زندگی فرحت و مسرت کی ایک نمایاں مثال تھی، دن رات کھیتوں میں مزدوری کرتا اور اپنی خوشیوں کے تئیں اپنی کوششیں صرف کرتا، وہ ان ہزار باپوں میں  سےایک تھا جن کو اپنی بیٹیاں زحمت نہیں بلکہ نعمت لگتی ہیں اور قدم بقدم ان کے بدلتے حالات اِس احساس کو ان کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں اور ان کی روزی روٹی میں برکت اور کاروبار میں بڑھوتری دودھیا اجالے کی طرح  انہیں صاف نظر آتا ہے، بیٹوں کے نہ ہونے کا اسے ذرا  بھی ملال نہ  تھا لیکن پھر بھی قدرت نے تحفے کی شکل میں ایک آت عدد بیٹے دے ہی دئے جس سے ان کے رنگ پھیکے پڑ گئے جو شروع میں پے در پے بیٹیوں کے جنم لینےپر اسے طعنے  دیتے، مذاق کا موضوع بناتےاور بنا مانگے طرح طرح کے مشوروں سے نوازتے۔لیکن اسے ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا ،وہ اپنی دنیا میں مست مولا تھا، گھر جنت کی کیاریاں اور کھیت اسے جنت کے باغیچےمحسوس ہوتے جہاں وہ اپنی عیش وآرام، چین وسکون کی زندگی اطمینان سے گزار رہا تھا۔

 اس کی بیٹیاں اب بڑی ہورہی تھیں، ان کی تعلیم وتربیت کا مسئلہ اندر سے اس کی پریشانی کا سبب بننے والا تھا لیکن شاید اس نے پہلے سے ہی سوچ لیا تھا کہ بچیوں کو اعلی تعلیم کے ساتھ روزگار کے راستے پر لگانا جہاں اس کی تنگی سے نجات کا سبب بن سکتا ہےوہیں سماج میں بھی اسے فخر اور عزت کی نظرسے دیکھا جائے گا۔اس نے  اسکول کے راستے ہموار کرائے اور  ضروری وسائل کی فراہمی کے ساتھ انہیں اعلی تعلیم کی طرف رہنمائی کی یکے بعد دیگرے سب کی تعلیم کا مسئلہ حل ہوا، سب نے ہائی اسکول سے لے کر کالج تک اعلی نمبرات حاصل کئے، سماج میں خوب واہ واہی ہوئی، مٹھائیں تقسیم ہوئیں، انعامات ملے اور گاؤں بھر میں ان کے چرچے زبان زد عام ہوئے، مستان جہاں بھی جاتا اسے بیٹھنے کے لئے کرسی پیش کی جاتی ، بچیوں کو بولا کر مستان چچا سے سلام نمستے کرنے کو کہا جاتااور  اس کی ترغیب دلائی جاتی، وہیں بیٹیوں کے روشن مستقبل کو لے کر کئی طرح کے سوالوں کے جواب اس سے طلب کئے جاتے اور  خوب پذیرائی ہوتی، مستان ایک معمولی  قسم کا آدمی ہوتے ہوئے بھی کافی ہوشیار تھا،بہت سنجیدگی سے درپیش مسائل کا حل اور آنے والی دشواریوں سے نجات کا راستہ بتاتا اور سب کے دلوں پر چھا جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہردلعزیز ہوگیا، اس کے لئے تعریفوں کے پل باندھے جانے لگے اور اس کی شہرت آسمان چھونے لگی کیوں کہ اس کی ایک بیٹی اب یونیورسیٹی سے بی۔کام۔ کی ڈگری حاصل کرچکی تھی اور برسرروزگار ہونے والی تھی۔

مستان کی کوئی سفارش نہ تھی جس سے آسانی سے اس کی بیٹی کو نوکری مل جانے کا امکان ہو لیکن اسے یاد آیا کہ اس کے علاقے کا ایک  ودھایک اس کا دور کا کوئی رشتے دار لگتا  تھا جو انتخابات کے وقت اس کے یہاں آنا جانا کرتا ، ہاتھ جوڑ کر  ووٹوں  کے لئےمنت سماجت کرتا اور رشتوں کو زندہ کرنے کی باتیں کرتا جس کامقصد کسی بھی طرح سے سیاسی بازار گرم کرنے کے علاوہ  کچھ او ر نہ تھا، مستان سیاسی سازشوں اور سیاست کی ریشہ دوانیوں سے بالکل بےخبر اور ناواقف تھا، اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کیچڑ میں کنول نہیں کھلتے بلکہ لاشیں تیرتیں ہیں اور ان لاشوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا  یہاں تک کہ حساب لینے اور کرنے والے بھی لاش بن کر رہ جاتے ہیں اور اپنے پسماندگان کو لاچار ی اور بے بسی کی دلدل میں ڈھکیل جاتے ہیں جواس کرب سے پوری زندگی کراہتے رہتے ہیں۔ یہ وہ سیاست نہیں جس سے سماج  پھلتاپھولتا اور پروان چڑھتا  ہے  بلکہ یہ وہ سیاست ہے جو سماج کی جڑیں اکھاڑ کر اس کی تہ میں بارود بچھادیتی ہے جس سے لاشوں کی تجارت کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔

مستان ان سب چیزوں سے پرے ایک دن اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر اُس ودھایک کا پتہ معلوم کرکے اُس کے دربار تک پہونچا۔ پہلے تو معمولات کے مطابق اس نے  ملنے سے صاف منع کر دیا لیکن جب اس کے ایک چمچے نے کان بھری کہ ساتھ میں ایک جوان لڑکی بھی ہے جس کی نوکری کے سلسلے میں کچھ بات ہونی ہے تو من کے پاپی نے اندر آنے کی اجازت دی اور چہ جائے کہ کوئی کام کی بات کرتا اِدھر اُدھر کی باتوں میں الجھا کر آنکھیں سیکنے کا عمل جاری رکھا اور ‘کل سے اسے اکیلے بھیجیں میں کہیں مناسب جگہ دلا دیتا ہوں’بول کر رخصت ہونے کو کہا اتنی دیر میں اس کے اندر کا سویا ہوا  شیطان انگڑائیاں لے چکا تھا، اس کے ذہن میں اس معصوم کی عزت کو تار تار کرنے کے خیالات جوش مارنے لگے تھے، اس کے اندر کا درندہ بے قابو ہوا جارہا تھا اور صبح جب اکیلی لڑکی اس کے سامنے حاضر ہوئی تو  وہ بھیڑیا اس پر ٹوٹ پڑا  اور اس کے جسم کو نوچ کھایا، اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دی اوراسے جیتے جی مارڈالا، اس کی تقدس کو پامال کر دیا  اور سیتا اور عائشہ کی پاکی پر بدنما داغ لگا دیا۔

بیٹی جب واپس گھر پہونچی تو اس کی رنگت ماند پڑ گئی تھی، اس کی چہچہاہٹ ختم اور خوشبو زائل ہوگئی تھی، مستان جوں ہی اپنی نرگس کی یہ کیفیت دیکھا اس کے پیروں تلے زمین رہی نا  سر کے اوپر آسمان، ہانپتے، کانپتے، روتے، چلاتے ، سینہ پیٹتے پولس تھانہ پہونچا، جہاں قانون کے رکھوالے اس کی مدد کے لئے بیٹھے تھے ، جہاں سے اس کو حمایت ملنے کی امید تھی، جہاں اس کے درد کو درماں مل سکتا تھا اور جہاں اس کی بے چینی اور تڑپ کو سنا اور سمجھا جا سکتا تھا لیکن  ہائے رے قانون!  ہائے رے انصاف!  الٹے مستان کو پیٹ پیٹ کر  قانون کے رکھوالوں اور انصاف کے محافظوں  نے اُس کی جان جسم سے جدا کردی اور اپنی بیٹی کی عزت کے لٹنے پر قانون اور انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے والا باپ خود سولی چڑھ گیا۔

تبصرے بند ہیں۔