زندگی کے معاملات میں اسلامی قانون کی مداخلت کی نوعیت

تحریر: مولانا امین احسن اصلاحی… ترتیب: عبدالعزیز

اس بات کو چند مثالوں سے سمجھئے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اسلامی قانون کس پہلو سے زندگی کی حد بندی کرتا ہے اور کس نوعیت سے وہ زندگی کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کو اسلامی قانون سے ہم آہنگ کرنے کا کام ہماری اپنی فہم و فراست اور ہماری اپنی صواب دید پر چھوڑتا ہے تاکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ ہم ان میں مناسب اور معقول تبدیلیاں پیدا کرسکیں۔ ہم مثال کیلئے صرف انہی چیزوں کو منتخب کریں گے جن کا ہماری زندگی سے نہایت قریبی تعلق ہے۔
ہماری زندگی سے ایک بڑا قریبی تعلق رکھنے والا مسئلہ کھانے پینے کا مسئلہ ہے۔ اس میں اسلام نے دخل تو دیا ہے لیکن اس دخل کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ پہلے ساری کھانے پینے کی چیزوں کی تفصیل سنائی ہو پھر یہ بتایا ہوکہ ان میں سے کیا کیا چیزیں جائز ہیں اور کیا کیا چیزیں ناجائز۔ پھر پیدا کرنے، ان کے سنبھالنے، ان کے تیار کرنے اور ان کے استعمال کرنے کے سارے قاعدے و ضابطے بتائے ہوں۔ اسلام کو ان ساری تفصیلات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس نے صرف یہ کیا ہے کہ چند متعین چیزوں کو جو حرام ہیں بتا دیا کہ یہ حرام ہیں ، ان کا کھانا پینا ناجائز ہے۔ اب جو چیزیں ان کے حکم میں آتی ہیں ان کے بارہ میں شریعت کا رجحان معلوم کرنا اسلام نے ہمارے اجتہاد پر چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ ا س سلسلہ کی ساری چیزوں کو انسان کی طلب اس کے ذوق اور اس کی قوت اکتساب و ایجاد پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی طبعی ضرورتوں اور اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرے اور ان کیلئے جو مناسب سمجھے ضابطے اور قوانین بنائے۔
اسی طرح کا مسئلہ ہمارے لباس کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں اسلام نے صرف یہ کیا ہے کہ چند اخلاقی نوعیت کی حدیں مقرر کر دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لباس ساتر ہو، مرد مسرفانہ لباس مثلاً ریشم کا استعمال نہ کریں، لباس سے شہدہ پن اور غنڈہ پن کا اظہار نہ ہو۔ عورتیں مردوں کا سا اور مرد عورتوں کا لباس نہ پہنیں۔ بس اس طرح کی چند شرطیں عائد کرکے ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ ہم جس طرح کے کپڑے چاہیں ایجاد کریں، جس طرح کے چاہیں سلوائیں اور جس ڈھب سے چاہیں انھیں پہنیں۔ ان ساری باتوں کا انحصار ہمارے ملک کی آب و ہوا، ہماری روایات ہمارے فطری ذوق آرائش اور ہماری قابلیت اختراع و ایجاد پر ہے۔ اسلام ان چیزوں کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی ضابطہ بندی نہیں کرتا۔
اسی طرح ہماری ازدواجی زندگی کا معاملہ ہے اس میں بھی اسلام نے چند اصول دے دیئے ہیں، مثلاً یہ کہ اس کی بنیاد جائز رشتۂ مناکحت پر ہو۔ اس میں مرد کی قوامیت کے ساتھ میاں بیوی دونوں کے حقوق اور دونوں پر ذمہ داریاں ہوں، اولاد کی پرورش اور تربیت دونوں کی مشترک ذمہ داری ہو اگر رشتہ کو توڑنے کی نوبت آجائے تو وہ یونہی ٹوٹ نہ جائے؛ بلکہ طلاق، عدت، مہر اور رضاعت کے چند متعین ضوابط کے تحت ٹوٹے۔ عورتوں اور مردوں کو جو ایک دوسرے کیلئے غیر محرم ہوں، آزادانہ میل جول کی اجازت نہ ہو بلکہ گھروں کے باہر اور گھروں کے اندر بھی چند معلوم حدود کی پابندی کی جائے۔ ان چند اصولی ہدایات کے تحت ازدواجی زندگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنا اور اس اجمال میں تفصیل کا رنگ بھرنا میاں اور بیوی کا اپنا کام ہے۔ اسلام اندرون خانہ کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی مداخلت پسند نہیں کرتا۔
اسی سے ملتا جلتا ہماری سیاسی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس کے متعلق بھی اسلام نے چند بنیادی طے کر دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ نظام حکومت خدا کی حاکمیت کے نظریہ پر مبنی ہو۔ قانون کا ماخذ خدا کی شریعت ہو۔ اس کے چلانے والے تقویٰ اور دیانت کے اوصاف سے متصف ہوں۔ جہاں شریعت الٰہی کی کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو وہاں سارے معاملات شوریٰ کے ذریعہ سے طے کئے جائیں۔ یہ اور اسی طرح کے چند بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک سیاسی نظام کو بنانا اور چلانا اور زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اس کو ڈھالنا اور ترقی دینا ہمارا اپنا کام ہے۔ اسلام ان تفصیلات میں نہیں پڑتا جو بالکل انتظامی نوعیت کی ہیں اور جن کا شعور ہر معاشرے کی فطرت کے اندر ودیعت ہے۔
یہ چند چیزیں بطور مثال ذکر کی گئی ہیں، میرا مقصود یہاں نہ تو شعبہ ہائے زندگی کو بیان کرنا ہے اور نہ اصولوں کی تفصیل پیش کرنا ہے جو ان شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اسلام نے دیئے ہیں۔ میں صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اسلامی قانون اگر چہ ہماری زندگی کے معاملات میں اثباتی حیثیت سے دخیل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہر شعبۂ زندگی کی حد بندی کرتا ہے، لیکن اس حد بندی کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ میں وہ ایک نہایت وسیع دائرہ ایسا بھی چھوڑتا ہے جس میں ہمیں وہ متعین آسمانی قوانین کا پابند بنانے کے بجائے آزادی دیتا ہے کہ ہم شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اپنی راہ خود متعین کریں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کیلئے خود قواعد و ضوابط بنائیں۔
ایک طرف وہ پابندی اور دوسری طرف یہ آزادی، ان دونوں چیزوں نے مل کر اسلامی قانون میں ایک طرف تو استحکام اور پائدادی کی صفت پیدا کر دی ہے اور دوسری طرف اس میں حرکت، ترقی اور حالات کے ساتھ سازگاری کی خوبیاں بھی نہایت اعتدال کے ساتھ سمو دی ہیں۔
اسلامی قانون کی اس حرکت اور ترقی کو آگے بڑھانے میں جن عوامل نے کام کیا ہے مختصراً ان کا تعارف بھی یہاں ضروری ہے۔
اجتہاد: ان میں سے پہلا درجہ اجتہاد کا ہے۔ اجتہاد اسلامی قانون کی توسیع و ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں جو حالات و معاملات ایسے پیش آئیں جن کے بارہ میں قرآن یا سنت میں کوئی واضح قانون نہیں بیان ہوا ہے، ان حالات و معاملات کو نظر انداز نہ کر دیا جائے بلکہ ان کو بھی اسلامی شریعت کے تحت لانے کی کوشش کی جائے اور اگر ان کے بارے میں واضح احکام نہیں ملتے تو شریعت کے عام احکام کے اشارات و کنایات سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس رہنمائی کے حاصل کرنے کا ایک مخصوص ضابطہ ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ اشارات و کنایات کے انطباق میں آدمی غلطی بھی کرسکتا ہے اور صحیح نتیجہ تک بھی پہنچ سکتا ہے، اس وجہ سے کسی اجتہاد کو کتاب و سنت کے نصوص کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اجتہاد کی تمام قدر و قیمت درحقیقت اس چیز میں ہے کہ کتاب و سنت سے اس کا لگاؤ کس درجہ کا ہے۔ اگر قوی ہے تو اجتہاد قوی ہے اور اگر ضعیف ہے تو اجتہاد ضعیف ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم کیلئے کسی اجتہاد کو بے چون و چرا مان لینا صحیح نہیں ہے، بلکہ ہر صاحب علم کیلئے ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کے ساتھ اس کے تعلق کی جانچ کرے اور اس تعلق ہی کو کسی چیز کے رد یا قبول کی کسوٹی بنائے۔
اس اجتہاد نے اسلامی قانون کی توسیع و ترقی میں جو حصہ لیا ہے اس کی سب سے بڑی شہادت فقہ اسلامی کے اس وسیع ذخیرے سے ملتی ہے جو آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ زمانہ کے تغیر کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتوں کو جن نئے نئے معاملات و مسائل سے سابقہ پڑا ہمارے فقہاء اور مجتہدین نے اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے حل معلوم کرنے کی کوشش کی اور ان کی اس کوشش کے نتیجہ میں اسلامی قانون نے یہ وسعت حاصل کرلی۔ اگر اسلامی قانون میں حرکت اور ترقی کی صلاحیت نہ ہوتی تو یہ عہد نبوت کے بعد جبکہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا، بالکل ٹھٹھر کے رہ جاتا؛ لیکن ہم صاف دیکھ رہے ہیں کہ عہد نبوت میں اس کی صرف بنیادیں استوار ہوئی تھیں، ان بنیادوں پر ایک شاندار قصر کی تعمیر صحابہ اور فقہائے مجتہدین کے دور میں ہوئی ہے۔
مباحات کا دائرہ: دوسری چیز جو اسلامی قانون کے اندر حرکت و ترقی کی صلاحیتوں کی شہادت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی قانون نے ہماری زندگی کا ایک وسیع دائرہ یہ کہہ کر کہ انتم اعلم بامر دنیا کم (تم اپنے دنیوی معاملات سے بہتر طور پر واقف ہو) بالکل ہماری صواب دید پر چھوڑ دی ہے،(صحیح مسلم: کتاب الفضائل ، باب 38)۔ یہ وہ دائرہ ہے جس دائرہ میں اس نے شروع ہی سے کسی قسم کی مداخلت کو پسند نہیں کیا ہے ، اس دائرہ میں جو کچھ ہماری مصلحت ہو وہی اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے اور اس دائرہ میں اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کو سامنے رکھ کر ہم جو قانون بنائیں گے وہ اسلامی قانون ہی کا ایک حصہ ہوگا بشرطیکہ اس میں کوئی چیز شریعت کے کسی امر یا نہی کے خلاف نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں۔