تذکرۂ معاصرین: بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

مولانا سید آصف ملی ندوی

وطن عزیز بھارت میں مسلمانوں میں پیدا شدہ عمومی بے دینی کی فضاء، اسلامی اقدار کی پاسداری کا فقدان اور اس ناگفتہ بہ صورت حال پرمسلم علماء و دانشوران کی بے حسی و بے اعتنائی،  اور اغیار و اسلام دشمن عناصر کی اسلام مخالف ریشہ دوانیوں کے پیش نظر ان کے اسباب و عوامل پر غوروخوض کرنے اور ان کے تدارک کے لئے کوئی منظم لائحۂ عمل طئے کرنے کی غرض سے جمعیت علماء مہاراشٹرا کے صوبائی دینی تعلیمی بورڈ کے معزز اراکین عاملہ و مدعوئین خصوصی حضرات کا ایک اہم اجلاس گذشتہ جمعرات مؤرخہ ۶ ستمبر ۲۰۱۸ کو دارالعلوم سونوری، تعلقہ مرتضٰی پور ضلع اکولہ میں منعقد ہوا۔ شہر ناندیڑ سے اس اہم ترین اجلاس میں شرکت کے لئے اس عاجز اور جناب سدی سلیم صاحب کے نام دعوت نامہ موصول ہوا۔ حسب پروگرام ہم دونوں بدھ کے دن دوپہر ہی کو انٹرسٹی ایکسپریس سے مرتضٰی پور کے لئے روانہ ہوئے، تقریباً رات آٹھ بجے ہم لوگ مرتضٰی پور ریلوے اسٹیشن پہنچے، یہاں سے دارالعلوم سونوری محض سات کلو مٹر کی دوری پر ممبئی ناگپور ہائی وے پر واقع ہے۔ مرتضٰی پور ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں نے دارالعلوم سونوری کے ہیڈ کلرک جناب حافظ نوید صاحب کو فون پر اپنے مرتضٰی پور ریلوے اسٹیشن پہنچنے کی اطلاع دی، اللہ حافظ صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے کہاکہ مولانا آپ حضرات اسٹیشن ہی پر صرف پانچ سے سات منٹ تک انتظار کی زحمت گوارہ فرمائیں میں دارالعلوم کی گاڑی آپ حضرات کو لینے کے لئے بھیج رہا ہوں، اور الحمدللہ دس سے پندرہ منٹ میں گاڑی پہنچ گئی جس کے ذریعے ہم لوگ دارالعلوم کی طرف روانہ ہوئے۔ دوران سفر ڈرائیور صاحب سے علیک سلیک اور مختصر تعارف کے بعد مدرسہ اور اس میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد اور ان کی تعلیم وغیرہ سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے محض دس سے پندرہ منٹ ہی گذرے ہونگے کہ ہم لوگ مدرسہ پہنچ گئے۔

دارالعلوم سونوری میں حاضری کا یہ میرا پہلا اتفاق ہے، اس سے قبل کبھی حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، وہاں پہنچ کر دل انتہائی حیرت انگیز، خوش کن و قابل رشک جذبات و احساسات سے معمور ہوگیا۔ دارالعلوم کی خوشنما و دیدہ زیب تعمیرات،  خوبصورت و دل آویز سبزہ زار، عالیشان و پر سکون مسجد، باوقار و پرنور خانقاہ، مہمانوں کی راحت رسانی اور ان کے آرام کے لئے ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ جدید طرز کا مہمان خانہ، اور مہمان خانہ کی حسن تعمیر سے کئی گنا زیادہ میزبانوں کا حسن ضیافت، طلباء عزیز کا ڈسپلن و حسن تنظیم، ان کی صفائی و ذوق نفاست، اور ان سب سے بڑھ کر ان کا حسن اخلاق، فرمانبرداری، مدرسے کے اصول و ضوابط کی پابندی، فرض نمازوں کے بعد خاموشی کے ساتھ خوشدلی سے سنن و نوافل کا اہتمام،  نماز عشاء کے بعد سنن و نوافل سے فارغ ہو کر تقریباً آٹھ سو طلبہ کا بیک وقت و بیک آواز درود شریف اور دیگر مسنون اوراد و وظائف کا وردکرنا، اور اس کے بعد نہایت ہی منظم و مرتب انداز سے ایک لائن میں کھڑے ہوکر یکے بعد دیگرے انتہائی خاموشی کے ساتھ ہوسٹل کی طرف روانہ ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کا نہایت ہی خوشگوار نقش دل پر ثبت ہوگیااور جن سے یہ عاجز بے حد متأثر ہوا، اور یہی وہ تأثر ہے جس نے احاطۂ دارالعلوم سونوری میں بتائے ہوئے ان دو دنوں کی حسین و خوشگوار یادوں کو سپرد قرطاس کرنے پر مجبور کردیا۔

 چشم بد دور !  دارالعلوم سونوری کی یہ ساری رونق، تعمیرات کا یہ سارا دیدہ زیب سلسہ، طلباء کی یہ تمام تر چہل پہل،منارۂ مسجد سے پنج وقتہ بلند ہوتی ہوئی یہ دلنوازصدائیں، خانقاہ کی یہ خاراشگاف ضربیں، فضل خداوندی کے بعد اگر آپ یہ سوچ رہے ہو کہ کسی بہت ہی بھاری بھرکم، قوی الجثہ، لحیم شحیم حضرت جی کے دم خم سے ہوگی جن کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں کا محور و مرکزصرف اور صرف اپنے مدرسے کی ظاہری و روحانی تعمیر و ترقی ہی ہوگاتو آپ غلط سوچ رہے ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ دارالعلوم سونوری کے نام سے آبادی سے بہت دور جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرنے والا یہ عظیم انسان نہایت ہی متواضع، خوش اخلاق، مرنجان مرنج اور ملنسار و باغ وبہار طبیعت کا مالک ہے، سادگی کا یہ پتلا اگر طلباء کے ہجوم میں ہو تو امتیاز کرنا دشوار ہو جائے کہ طالب علم کون ہے اور شاگرد کون!  جی ہاں جناب ! ایسا ہی ہے یہ عظیم انسان، دنیائے علم و عرفان انہیں مفتی روشن شاہ صاحب کے نام سے جانتی ہے، موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت ہے،  مختلف میدانوں میں بیک وقت انتہائی قابل قدر و قابل رشک خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک طرف تو آپ دارالعلوم سونوری، تعلقہ مرتضٰی پور ضلع اکولہ (جہاں تقریباً آٹھ سو طلباء مع قیام و طعام زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں ) کے بانی و ناظم ہے، تو دوسری طرف آپ حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب زید مجدہ کے سلسلۂ دعوت سے نہ صرف وابستہ ہے بلکہ اس جماعت کے صف اول کے داعیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔

 نہ صرف وطن عزیز بھارت بلکہ پورے برصغیر میں مسلمانوں میں رائج عمومی بے دینی کی فضاء کو ختم کرنے اور نوجوانوں کی دینی تربیت اور انہیں تعلیمات نبوی سے آراستہ کرنے میں حضرت مولانا الیاس کاندہلوی قدس سرہ کے ذریعہ جاری کردہ دعوت و تبلیغ کے مبارک سلسلے کا جو بنیادی رول رہا ہے وہ جگ ظاہر ہے، اس کام کو حضرت مولانا الیاس کاندہلوی کے بعد حضرت مولانا یوسف کاندہلوی اور حضرت مولانا عمر پالنپوری کے ذریعے جو تقویت پہنچی اوران دونوں بزرگوں کے دور میں اس مبارک کام کا دائرہ جس قدر وسیع سے وسیع تر ہوا ہے وہ بھی بالکل عیاں ہے، حضرت مفتی روشن شاہ صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے سالہا سال تک مرکز نظام الدین میں رہ کر حضرت مولانا عمر پالنپوری کی خدمت و صحبت کو نہ صرف اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا تھا بلکہ آپ اس تمام تر مدت صحبت و خدمت گذاری کے دوران اس داعئی جلیل سے اکتساب فیض بھی کرتے رہیں۔ حضرت پالنپوری کی ڈاک میں اردو کے جو خطوط آیا کرتے تھے ان کے جوابات تحریر کرنے کی ذمہ داری حضرت مفتی صاحب ہی کے ذمہ تھی، اور یہ حضرت پالنپوری ہی کا فیض نظر تھا کہ مفتی صاحب ان خطوط کے جوابات اس  طرح تحریر فرماتے جو حضرت پالنپوری کے مزاج و مذاق اور دعوت و تبلیغ کی اس عظیم محنت کی روح کے عین مطابق ہوتے۔ اسی خدمت و صحبت کا ثمرہ ہے کہ اللہ نے حضرت پالنپوری کی رحلت کے بعد ان کے علوم و معارف کو نقوش میں ثبت کرنے کا کام بھی حضرت مفتی صاحب ہی سے لیا، چنانچہ آپ نے حضرت مولانا محمد عمر پالنپوری کے بیانات کا مجموعہ بیس جلدوں میں مرتب کرکے شائع فرمایا ہے، اسی طرح حضرت جی مولانامحمد یوسف صاحب کاندہلوی کے بیانات کا مجموعہ دس جلدوں میں شائع فرمایا ہے، حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کے محاضرات و بیانات کی ترتیب کاسلسلہ بھی آپ نے شروع کر رکھا ہے جس کی متعدد جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ نیز اسلام کے دامان رحمت ا ور سایۂ عاطفت میں پناہ لینے والے سینکڑوں نو مسلم   افراد کے قبول اسلام کی داستان دل فریب کوآپ نے نسیم ہدایت کے جھونکے کے نام سے تقریباً آٹھ جلدوں میں مرتب کرکے شائع فرمایا ہے۔ آپ کی یہ تمام ترگراں قدر دعوتی و تحریری کاوشیں علمی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں۔  درس و تدریس، دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کی ان ہوش ربا مصروفیتوں کے دوش بدوش آپ وطن عزیز بھارت میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ باوقار و نمائندہ تنظیم جمعیت علماء کے نہ صرف معزز رکن ہے بلکہ آپ جمعیت علماء ودربھ کے صدر بھی ہے، نیز جمعیت علماء کے ذریعے قائم کردہ دینی تعلیمی بورڈ کے ریاست مہاراشٹرا کے صوبائی صدر بھی ہے۔

  تو جناب یہ ہے وہ نرم مزاج، خلیق و شگفتہ شخصیت جو پروپیگنڈے اور تشہیر سے بے نیاز انتہائی سادگی اور خاموشی کے ساتھ بیاباں کی شب تاریک میں علوم و عرفان کے قندیل رہبانی روشن سے روشن تر کئے جارہا ہے، موصوف کے ذوق مہمان نوازی اور اکرام و تعظیم کا یہ حال ہے کہ مہمان ان سے متأثر ہوکر زیادہ سے زیادہ دنوں تک اس پرکیف و پربہار فضا میں کھوجانا چاہے، سچ تو یہ ہے کہ مجھ جیسے کھلنڈر شخص کو بھی وہاں اپنے گھر کی سی راحت میسر آئی۔ فجر کی نماز کے بعدواپسی سے قبل یہ عاجز اور رفیق محترم سدی سلیم صاحب اجازت طلبی کے لئے حاضر ہوئے تو کافی دیر تک انتہائی باغ و بہار نشست رہی، حالات حاضرہ، وطن عزیز میں آئندہ ہونے جارہے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر ووٹر لسٹ میں مسلمانوں کے ناموں کے اندراج کرانے کی ضرورت و اہمیت، مسلمانوں کی عمومی بے دینی کو ختم کرنے کے لئے علماء کی ذمہ داری جیسے اہم و حساس موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی اور یہ عاجز ان کے وقیع تجربات اور علمی افادات سے نہال ہوتا رہا۔بہر کیف وقت رخصت تو آپ نے حق ضیافت کی انتہا ہی کرڈالی، دراصل یہ عاجز حضرت مولانا عمر پالنپوریؒ کے مجموعۂ بیانات کا سیٹ خریدنے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن مفتی صاحب نے نہ صرف حضرت مولانا عمر پالنپوری کے مجموعۂ بیانات کا بیس جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ بلکہ اس کے ساتھ حضرت مولانا یوسف صاحب کاندہلوی ؒکے بیانات کا دس جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ، اسی طرح نسیم ہدایت کے جھونکے کا آٹھ جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ بھی اس عاجز کو ہدیے میں پیش کردیا، مجھے اتنی ساری کتابوں کے ہدیے میں قبول کرنے پر تأمل ہورہا تھا،میں ان کتابوں کی رقم ادا کرنے کی حتی الامکان سعی و کوشش کرتا رہا، لیکن مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہو، آپ کو ہدیہ دے کر ہمیں زیادہ خوشی ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کی مفتی صاحب کی اس مہمان نوازی، اکرام و تعظیم، سادگی و بے تکلفی اور مختصر وقت میں ان کے ان بے پناہ الطاف و عنایات سے بہرہ اندوز ہونے کے بعد باوجودیکہ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہم مدت سے ایک دوسرے سے تعارف آشنا ہیں، اسی وقت دل نے یہ گواہی دی کہ مفتی صاحب کے بیک وقت مختلف میدانوں میں ہمہ جہت اور روشن و تابناک خدمات کا رازدر اصل ان کے اخلاق کریمانہ، اخلاص و للہیت اور سادگی وتواضع میں مضمر ہے۔ اللہ انہیں اس ہدیے اور اخلاق کریمانہ پر جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں درس و تدریس، علم و عرفان، دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف اور ان جیسے مزید کارناموں کی توفیق ارزانی فرمائے اور ان کے کاموں میں غیر معمولی برکت عطا فرمائے۔ (آمین)۔

بہرحال مفتی صاحب سے رخصت لے کر ہم لوگ مدرسہ ہی کی گاڑی میں مرتضٰی پور ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے،  پتہ ہی نہیں چلا کہ دو دن کس طرح گذرگئے، جمعیت علماء کے دینی تعلیمی بورڈ کی باوقار نشستیں اور دارالعلوم سونوری کی وہ پرکیف بہاریں دیکھتے ہی دیکھتے خواب و خیال ہوگئیں۔

حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد

تبصرے بند ہیں۔