آئینہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
عبدالکریم شاد
آئینہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
پارسا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
ان سے ملنے سے پہلے تھے اچھے بھلے
ہم یہ کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
جانے کیسے نگاہوں کی دستک ہوئی
قلب وا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
ایک دو بار ہی کی ملاقات میں
ہم نوا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
سانحے جن کی آنکھوں سے گزرے نہ تھے
سانحہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
جب چراغوں نے دیکھا ہواؤں کا رخ
سب ہوا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
وہ جو سائے کی صورت بیاباں میں تھے
آبلہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
جھاگ کی طرح کتنے ابھرتے رہے
سب فنا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
مسئلے حل کریں گے یہ تھا حوصلہ
مسئلہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
راستے سے جو بھٹکے ہوئے تھے وہی
رہ نما ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
خوب سے خوب تر تھا سنورنا جنہیں
برہنہ ہو گئے دیکھتے دیکھتے
…
ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے شاد! ہم
ناخدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
تبصرے بند ہیں۔