آتش بازی اور ہمارا معاشرہ

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اسلام ایک کامل ومکمل دین اور دائمی نظام العمل ہے، جس میں تغیر پذیر ز ندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لیے بدرجہٴ اتم رہبری موجود ہے،دین اسلام فقط چند جزئیات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا دستور(پیکیج )ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک، انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک،عائلی اور معاشرتی مسائل سے لےکرمعیشت وتجارت تک،غرض انسانی تمدن کے پر پہلو کے بارے میں بھرپوررہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دین فطرت ہونے کے لحاظ سے اسلام انسان کی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی ضروریات کے بارے میں ایک مفصل لائحہ عمل پیش کرتا ہے؛ جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔

چوں کہ برصغیر میں ہمارا ثقافتی اور معاشرتی پس منظر ہندو تہذیب سے وابستہ رہا  اور آج بھی عملی طور پر بڑی اکثریت اسی تہذیب سے جڑی ہوئی ہے،اس لیے بہت سے مسلمان کہلانے والے افراد کا دین کےساتھ تعلق نماز روزہ حج زكٰوة کی حد تک محدودہے ان فرائض کے علاوہ دین کے کیا احکام ان پر لاگو ہوتے ہیں اس سےان کو کم ہی سروکار ہے؛جب کہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں غیروں کے ساتھ مشابہت پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

لہٰذا ہم فرزندانِ اسلام کو کسی بے بنیاد مذہب،گمراہ دین نیزکسی بھی باطل قدیم وجدید تہذیب وکلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں ،کتاب وسنت کی تعلیمات اور اسلاف امت کے ہدایات  ہی ہمارے لیے کافی وشافی ہیں۔

لیکن افسوس صدافسوس کہ آ ج امت کا ایک بڑا طبقہ اغیار(کفار ومشرکین اور یہود ونصاری) کے طور وطریق کادل دادہ وشیدائی بن چکاہے؛ بلکہ اسی طرز واندازکو اپنےلیےباعث فخر محسوس کرنےلگا ہے۔

اغیار کی نقالی :

اللہ تعالی اس چیزکوبالکل نا پسند فرماتےہیں کہ کوئی مسلمان دین اسلام پرعمل پیرا ہوتے ہوئےدیگر مذاہب کی رسومات کو بھی بہ نظر استحسان دیکھے یا ان پرعمل کی خواہش ظاہر کرے؛کیوں کہ ہرایمان والے پر ضروری ہے کہ  وہ حکم الہی کے آگے سر بندگی خم کرنے والا اور مقام تسلیم ورضا پر فائز ہو،اﷲ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی شریعت پر مکمل اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ اطاعت بجالائے۔ چناں چہ کتب تفاسیر میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (جو قبول اسلام سے قبل یہودیوں کے زبردست عالم تھے) اورآپ کے بعض (یہودی)ساتھی اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی یوم السبت(ہفتہ کے دن) کی تعظیم کرتے تھے،اور اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ کو مکروہ گردانتے تھے،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیں کہ ہم (احکامات اسلام کے ساتھ ساتھ)قیام لیل (تہجد)میں تورات کی تلاوت کریں کہ وہ بھی تو کتاب اللہ ہے۔ اس پر قرآن پاک کی اِس آیت کا نزول ہوا۔

اے ایمان والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاوٴ،اورشیطان کے نقش قدم ہر نہ چلو،یقین جانو وہ تمہارا کھلادشمن ہے۔(البقرۃ)

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں مکمل داخل ہوجاوٴ،تمہارے لیے احکامات اسلام ہی کافی وشافی ہیں ، اب تمہیں کسی اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کا خیال شیطانی کارستانی ہے؛اس لیے یہ خیال دل سے نکال دو،اور سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کرنے سے ان کی مشابہت ہوجائے گی جو مذموم ہے۔ (البغوی)

بہت سے سلف صالحین نے قرآن مجید کی آیت "والذین لا یشھدون الزور”یعنی مؤمن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شرکت نہیں کرتے، کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں “زْور” سے مراد کفار کے تہوار ہیں ،کوئی شخص کفار  کی محفلوں میں جاکر کوئی عمل سر انجام نہیں دیتا،صرف حاضرہوتا ہے تو یہ مومنانہ شان کے خلاف ہے لیکن اگرکوئی  کفار کے مخصوص اعمال میں بہ نفس نفیس شرکت کرتاہے تو کس قدر سنگین  بات اور مجرمانہ حرکت ہوگی؟؟

اسی طرح سنن ابو داود میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اور ایک حدیث میں الفاظ یوں ہیں :وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں (غیر مسلموں ) کی مشابہت اختیار کرے۔ چنانچہ کفار کے ساتھ محض عادات میں مشابہت اختیار کرنے پر اتنی بڑی وعید ہے، تو آگے بڑھ کر عبادات میں شرکت کرنے پر کتنی بڑی وعید ہوگی؟!”(الفتاوی الکبری)

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا تھا :

"ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ مربوط ومنسلک رہنے میں عزت عطا فرمائی ہے، اگر ہم اسلام کے علاوہ کسی دین یا تحریک سے اپنی عزت کی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو اﷲ تعالیٰ ہمیں ذلیل کردے گا۔”

آتش بازی :

آگ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ایک مخلوق ہے جس کے چلنے سے حرارت اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔ آگ جب روشن و فروزاں ہو تواس کی زد میں آنے والی ہر چیز  جل کر بھسم ہو جاتی ہے،آگ کی ایک چنگاری پورے شہر یا جنگل کوجلانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان کواللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا اور شیطان روزِ اول ہی سے آگ اور آگ سے منسوب چیزوں کو اپنے آلۂکار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جہنم جو آگ کاسب سے بڑا مرکز ومنبع ہے اس کاسب سے بڑا جہنمی خود شیطان ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کے لیے عذاب کا اصل گھر آگ ہی کو قرار دیا ہے۔ نیز ا س نے اس عذاب کے دینے میں کسی اورکو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کیا۔ آگ ہماری دشمن ہے اس آگ ہی سے ڈرانے اور بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسول بھیجے اور خود ہمیں تعلیم دی گئی کہ خود کو اور اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ! بایں ہمہ  آگ ہماری ضرورت بھی ہے اور ضرورت کے وقت آگ سے کام لینا انسان کا حق ہے؛لیکن اسے بغیر ضرورت جلائے رکھنا اس سے پیا ر کرنا، کافروں کی طرح اپنی رسومات اور عادات کا حصہ بنانا کسی صورت بھی زیب نہیں دیتاہے۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:ان بری بدعتوں میں جو ہندوستان کے باشندوں میں رواج پکڑی ہے آتشبازی، پٹاخے چھوڑنا اور گندہک جلاناہے۔(ما ثبت بالسنۃ،87)

دیوالی کا پس منظر:

دیوالی کے پس منظر اور اس کی تاریخ کے حوالے سے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں :

شری  رام کو اپنے والد کے وعدے کا پاس کرنے کے لیے اپنی بیوی سیتا اور چھوٹے بھائی لکشمن کے ہمراہ چودہ سال تک جنگلوں میں جاکر رہنا پڑا۔ چودہ سالہ جلا وطنی کے بعد رام ایودھیا لوٹے تو لوگوں نے ان کی واپسی کی خوشی میں چراغاں کیا، اس بنیاد پر اس موقع کو ”دیپاولی“ یا چراغوں کا تہوار قرار دیا گیا،اسی دیپاولی کو اب دیوالی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح مہابھارت کے مطابق،دیوالی درحقیقیت پانڈؤ کے اپنے 12 سالہ بن باس اور ایک سالہ اگیات واس سے واپس ہونے پر خوشی کا اظہار ہے۔ بہت سارے ہندو پیروکاروں کے مطابق دولت اور ثروت کی دیوی، وشنو کی بیوی لکشمی دیوی کی یاد میں منائے جانے والا تہوار “دیوالی“ ہے۔ کائناتی دودھیا سمندر میں کھنگال کے موقع پر برائی پر اچھائی غلبہ پایا اور اس وقت لکشمی دیوی کا جنم ہوا، تب لکشمی نے وشنو کو اپنا شوہر مانا اور شادی کی۔

اس حوالے سے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:دیوالی کے ساتھ بہت سے عقائد اور تصورات وابستہ ہیں جن کی بنیاد دیویوں اور دیوتاؤں کے مشرکانہ عقیدوں پر ہے اور اس طرف بھی ان کی توجہ نہ گئی کہ دیوالی میں شریک ہوکر کیک کاٹنے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے ؟ دنیا کے عام رواج کے مطابق عموماً کیک کاٹنے کی رسم کسی کے یوم پیدائش کے موقع پر ادا کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیوالی کے موقع پر کس کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے ؟ بہت سے ھندؤوں کے عقیدے میں دولت اور خوشحالی کی دیوی (goddess)لکشمی بھی دیوالی کے پہلے دن پیدا ہوئی تھی، اور صحت وشفاکا دیوتا (god) دھن ونتری کا بھی یوم پیدائیش یہی ہے (وکی پیڈیا)۔چنانچہ دیوالی کے دنوں میں لکشمی کے بُت کی پوچا دیوالی کی تقریب کا ایک اہم حصّہ ہے۔ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے ، وہ کیک کاٹیں ، یادئیے جلائیں یہ ان کے مذہب کا تقاضا ہے ،لیکن جو مسلمان توحید کا عقیدہ رکھتا ہو، اور لَااِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ پر ایمان اس کی شناخت کا لازمی حصہ ہو ، اس کے لئے اس عقیدے کے عملی مظاہرے کا حصہ بننا رواداری نہیں ، مداھنت اور اپنے عقیدے کی کمزوری کا اظہار ہے۔

آتش بازی کے نقصانات :

آتش بازی میں بلا کسی منفعت و  فائدہ کے مال کا ضیاع ہو تا ہے؛جو فضول خرچی اور اسراف ہے اوراللہ تعالی کا ارشادہے: اور فضول خرچی بالکل مت کرو،بیشک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (بنی اسرائیل۔26/27)

آتش بازی میں جسمانی نقصان و ہلاکت کااندیشہ رہتا ہے جبکہ شریعت مطہرہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیاگیا ہے ارشاد باری تعالی ہے:تم اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرۃ۔195)

مسلمان کو لا یعنی کام کرنےسےمنع کیاگیااورمومن کی یہ نشانی بتلائی گئی کہ وہ لغو و عبث کاموں سے دور رہتاہےجیسا کہ جامع ترمذی کی روایت ہے: انسان کے مسلمان ہونے کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ چیز چھوڑدے۔اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ مسلمان کیلئے ہر غافل کرنے والا کھیل مکروہ ہے۔(در مختار)

آتش بازی،خلق خدا کی  ایذارسانی کاسبب ہےاور اسلام میں کسی بھی انسان کو ستانے ، ڈرانے اور خوف زدہ کرنے سے منع کیاگیا؛فی زماننا پٹاخوں کی بھی نت نئی قسمیں بازاروں میں دست یاب ہیں ؛جو نہایت خطرناک مواد سے تیار کی جاتی ہیں ؛جن سے فضائی آلودگی  کے علاوہ ا ور بھی نقصانات سامنے آتےہیں مثلا پٹاخوں کی خوف ناک آوازوں سے لوگ اچھلنے کودنے لگتے ہیں ، بغیر کسی تکلیف کے اپنے کانوں کو پکڑ لیتے ہیں ،راہ گیروں کا سڑکوں سےگزرنا مشکل ہو جاتا ہے،کوئی بیمار آرام کا متقاضی چین سے   سو نہیں پاتا،کمزور و بوڑھے لوگ دہشت ناک چنگھاڑوں سےبےچین ہوجاتےہیں ، آتش بازی کی وجہ سےکئی لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتےہیں ،غریبوں کی جھونپڑیاں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں اور بھی جانی ومالی اتلاف کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔  ان مفاسد و خرابیوں کی وجہ سے آتش بازی کی شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔