کلاسیکی انگریزی شعر و ادب پر یہودی اثر

منیر احمد خلیلی

 میں نے انگریزی کے شعری اور نثری ادب کے اس مختصر جائزے میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سولھویں، سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں، جسے دورِ روشن خیالی یا Enlightenment Age کہا جاتا ہے، یہودی یورپی اور بالخصوص برطانوی مراکزِ دانش اور وادیِ شعر و ادب میں کس گہرائی میں سرایت کر گئے تھے۔ برطانوی دانش کدوں کا جائزہ اس لیے اہم ہے کہ یہ برطانیہ ہی تھا جس کی سرپرستی میں فلسطینیوں سے ان کی سرزمین اور گھر چھین کر یہودیوں کے لیے اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز ریاست کی تشکیل ہوئی تھی۔ اعلانِ بالفور سے کوئی 78سال پہلے کی بات ہے جب  Anthony Ashley_Cooper, 7th Earl of Shaftesbu(انتھونی ایشلے کوپر) برطانیہ میں صیہونی عیسائیت کا سب سے بڑا بااثر نمائندہ بن کر ابھرا تھا۔ وہ صیہونی عیسائیت کے فروغ اور تبلیغ میں سرگرم کئی سوسائٹیوں کا سربراہ تھا۔ اسی نے Land without People & People without Landکا تصور پیش کیا اور اپنی سرکاری حیثیت میں یہ پرچار شروع کیا تھا کہ فلسطین ایک بے آباد سرزمین ہے اور یہودی ایک بے زمین قوم ہیں، اس لیے یہ زمین جس کا کوئی مالک نہیں اس کے اصل مالکوں یعنی یہودیوں کو لوٹائی جائے۔ اس نے 1841میں یورپ کے پروٹسٹنٹ بادشاہوں کے نام ایک میمورنڈم Colonial Times میں شائع کرایا تھا جس میں یہودیوں کی فلسطین میں بحالی کی زور دار اپیل کی گئی تھی۔ شاعر اور ادیب اپنے ماحول کے عکاس ہوتے ہیں۔ شعر وادب سماج میں اپنے دور کی اجتماعی سوچ کی طرف بڑے نمایاں اشارے موجود ہوتے ہیں۔ خواجہ میر درد، میر تقی میراور غالب جیسے عظیم شاعر جس فضا میں سانس لے رہے تھے، ان کے کلام میں آشوبِ دہر اور زمانے کے حوادث اور المیوں کا دردکی پوری طرح موجود ہے۔ شاعر اور ادیب اگر ہمارے آج کے شاعروں اور ادیبوں اور اہلِ دانش کی طرح اپنے ماحول سے کٹا ہوا نہ ہو تو وہ ایک مخصوص دورکے نظریات، افکار، تصورات کاگواہ ہوتاہے۔ اہلِ تحقیق کو اگر کسی ایک دورکے فکری رجحانات کاکھوج لگانا مقصود ہو تو وہ اس دور کی شاعری اور ادب میں اور دانش و فکر کے سرچشموں میں جھانکتے ہیں۔

 پانچویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی کے آغاز تک کے عرصے کو علمی، فکری اور تہذیبی طور پریورپی تاریخ کا سیاہ دور تصور کیا جاتا ہے۔ تیرھویں صدی سے سولھویں صدی تک یورپ میں سلسلہ وار ایک علمی اور فکری تحریک چلی جس کی چرچ، ملوکیت اور اشرافیہ سے کشمکش جاری رہی۔ اس کشمکش نے Renaissance کی تحریک کو جنم دیا۔ یہ فرانسیسی اصطلاح ہے۔ اردو میں ہم اس کوتحریک ِ احیائے ِ علوم کہتے اور لکھتے ہیں۔ علم و فکر اور معاشرت و تمدّن میں قرونِ ظلمت کی جہالت، اندھی تقلید، فرسودگی اور کہنگی کے نقوش مٹا کر اجتماعی زندگی کو ایک نیا مفہوم دینا اور ایک نئے علمی و فکری دور کا آغاز کرنا اس تحریک کا اصل مقصد تھا۔

اسپانیہ سے جب مسلمان اور یہودی جبری طورپر جلا وطن کیے گئے تو یہودیوں کی ایک بڑی تعدادیورپ اور خاص کر برطانیہ میں جا کر بسی تھی۔ وہ اپنے ساتھ گرانقدرعلمی و تمدنی اور مالی سرمایہ بھی لے کر گئے تھے جو انہوں نے اسپین میں مسلمان اقتدار میں بلاروک ٹوک حاصل کیا تھا۔ جرمنی اور برطانیہ میں انہی یہودیوں کی خفیہ پشت پناہی سے عیسائی مذہب میں Protestant اور Puritansکے نام سے اصلاحی اور تطہیری تحریکیں اٹھی تھیں۔ ان تحریکوں کے اثر سے عیسائیت پر صیہونیت کے نقوش نمایاں ہوئے۔ ’صیہونی عیسائیت‘کا دائرہ مذہب تک محدود نہیں تھا۔ اس نے سیاست، معیشت و معاشرت، تہذیب و تمدّن اور ادب و ثقافت سمیت ہر شعبے کو اپنے زیر اثر لانے کی کامیاب کوشش کی۔ سولھویں صدی کے وسط میں جب برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول تاج و تخت کی مالک بنیں توحکومت و اقتدار کے ایوانوں میں بھی صیہونی عیسائیت سرایت کر گئی۔ اس وقت جو بیج بوئے گئے وہ اُگے اور وکٹورین عہد میں تناور درخت بن کر بھرپور برگ و بار لانے لگے تھے۔ مغربی ادب –انگریزی شاعری اور نثر یعنی ناول اور افسانہ –میں جو بلند پایہ نام آج بھی ادب و ثقافت کے استعارہ کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی تخلیقات سے بھی صیہونی عیسائیت کا رنگ جھلکنے لگاتھا۔

یہاں مختصرطور پر یہ بتانا مقصود ہے کہ صیہونی فکر نے یورپ اور بالخصوص برطانیہ کی ادبی دنیا پر کس حد تک اپنے اثرات ڈالے تھے۔ ہم جب وکٹورین عہد کے نثری ادب پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں اہلِ قلم میں جوسب سے نمایاں نام ملتاا ہے وہ چارلس ڈکنز (Charles Dickens)ہے۔ اس کے شہرہ آفاق ناول Oliver Twistمیں صرف فاگن (Fagin) ایک ایساکردار ہے جس سے یہودیوں کے بارے میں منفی  تأثر ملتا ہے۔ ناول میں فاگن کا زیر زمین جرائم کی دنیا سے گہرا تعلق دکھایا گیا ہے جہاں وہ نوجوان لڑکوں کو جیب تراشی کی تربیت دیتا تھا۔ چونکہ اس کردار کی نسبت یہودیت سے جوڑی گئی تھی اس لیے یہودیوں نے اس پر وہی ہتھیار استعمال کیا جس کا آج اکیسویں صدی میں بھی وہ دانش و فکر کو زیرِ دام رکھنے کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ڈکنزپر سامیت مخالف ہونے کا الزام دھردیاگیاحالانکہ اس نے اپنی تحریروں میں کئی یہودی کرداروں کوخیر اور بھلائی کے حامی اور نیکی اور پارسائی کے نمونے کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ یہودی ذہن نے اس ایک کردار پراتنا سخت ردِّ عمل ظاہرکیا کہ چارلس ڈکن کو اس کی تلافی کی فکر پڑگئی۔ جب اس طرف چاس ڈکن کی توجہ مبذول کرائی گئی اس وقت اس کے ناول کے 38 ابواب طباعت کے لیے پریس میں جا چکے تھے۔ بقیہ پندرہ ابواب میں اس نے کوشش کر کے بہت سے ایسے حوالے بدل دیے جن سے یہود مخالف ہونے کا تأثر پیدا ہوسکتا تھا۔ چارلس ڈکن نے اپنی اگلی کتاب Our Mutual Friend میں اہتمام کے ساتھ Mr. Riahکے نام سے ایک کردار تخلیق کیا جس کو اس نے دیانت و شرافت کا پیکر بنا کر پیش کیا گیا۔ نقادانِ فن کی رائے ہے کہ  چارلس ڈکن نے یہ کردار Faginکی وجہ سے پیدا ہونے والے تأثر کو زائل کرنے اور یہودیوں سے معذرت کے طور پر تخلیق کیاتھا۔ جارج ایلیٹ کے قلمی نام سے لکھنے والی ایک معروف ناول نگار میری این ایوانز (Mary Ann Evans) ہیں۔ اس خاتون کاایک مشہور ناول Daniel Derendoہے جو 1876میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں توراتی ادبیات اور صیہونیت نوازی کا رنگ صاف نظر آتا ہے۔ اس میں ایک خاص انداز میں اسرائیل کے قیام اور اس کے تحت عدل و حریت اور خوشحالی و فارغ البالی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بنجمن ڈیزرائیلی  (Benjamin D’Israeli)جو 1868میں برطانیہ کاپہلا یہودی  وزیر اعظم بنا، ادب و فکر میں بھی وہ ایک بڑا نام ہے۔ اس نے کئی ناول لکھے۔ وہ تھا ہی یہودی چنانچہ بحیثیت ایک ادیب اور مصنف اس کی تحریروں پر صیہونیت نوازی کا رنگ غالب ہونا باعثِ تعجب نہیں۔

 کہنے کو تو سولھویں صدی کے وسطِ آخر اور سترھویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشرے کو ولیم شیکسپئرکا عہد کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملکہ الزبتھ اول کے زمانے میں اپنی شاعری کی دھوم مچانے والا شیکسپئر آج بھی صرف انگریزی ہی میں نہیں بلکہ عالمی ادب میں سب سے بڑا شاعر اور ڈرامہ نگار مانا جاتا ہے۔ انگریز اپنی ادبی تاریخ میں اس کو وہی درجہ دیتے ہیں جو ہم روحانیت میں اپنے اولیاء و صلحا کو دیتے ہیں۔ شیکسپئرکی زندگی اور فن پر شروع سے لے کر آج تک پراسررایت اور شکوک شبہات کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ فرانسس بیکن اور کرسٹوفر مارلوو (Christopher Marlowe)سمیت ایسے درجنوں آدمیوں کے نام ہیں جن کے بارے میں ناقدینِ فن کو شبہ رہا ہے کہ شیکسپئرکے پردے میں ا نہی میں سے کوئی ایک تھا جس کے تخلیقی کارنامے شیکسپئر سے منسوب ہو کر زندۂ ِ جاوید بنے۔ ملکہ الزبتھ اول کے

 عہد کے کچھ عرصہ بعد تک یہودیوں سے نفرت بھرا برتائو برطانوی سماج کا خاصّہ تھا۔ چنانچہ یہودیوں نے کمال کی ہوشیاری سے دانش و ادب اور علم و فکر کے راستے ذہنوں میں سرایت کرنیکے منصوبے تیار کیے تھے۔ بعید نہیں کہ انہی منصوبوں کے تحت شیکسپئر کوبطور آلۂ ِ کار سامنے رکھا گیاہو۔ اس نے گنوار پنے کی چادر اوڑھ کر شہرت خود کمائی اور فکر کسی اور نے پیش کی۔ ایک معتبر اورمعروف اہلِ قلم آرتھر مُلر (Ghislain Arther Muller)نے اپنی دو ٹوک رائے پیش کی ہے کہ شیکسپئرحقیقت میں یہودی تھا۔ 2016 کی بہترین شمار ہونے والی کتاب–The Woman Behind Shakespeare’s Plays Shakespeare’s Play Dark Lady Amelia Bassano Lanier میں جان ہڈسن نے ٹھوس شواہد اورمضبوط دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ شیکسپئر کے فن کے پیچھے جو Dark Ladyکارفرما تھی وہ امیلیا بسانو لانیر (Amelia Bassano Lanier)ہی تھی۔ اس کا تعلق ایک سکّہ بند یہودی خاندان سے تھا۔ یہ ملکہ الزبتھ اول کے درباری موسیقاروں کا ایک خاندان تھا۔ اس خاتون نے برطانوی سماج میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنی مذہبی شناخت پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ اس کی کرسٹوفر مارلوو جیسی نمایاں ادبی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ گہری آشنائی اور قریبی تعلقات تھے۔ ہمیں شیکسپئر کے ڈراموں میں دنیا کے مذہب، جغرافیہ اور علم و ادب کے بارے میں جن تلمودی و توراتی تلمیحات و استعارات اورتصورات بھی نظر آتے ہیں، ان کی توقع  Stratford on Avonکے نیم گنوار باشندے شیکسپئر سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل 2012  میں Stratfordکے پروفیسر ولیم گرین نے اس موضوع پر پورے یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ اہلِ تحقیق کے ہاں موجود بھاری دستاویزی اور تحقیقی مواد اس نظریے کو مضبوط بناتا ہے کہ شیکسپئرکے ڈرامے اصل میں امیلیا بسانو لینئر کے خلّاق ذہن کی پیداوار تھے۔ جس عورت نے شیکسپئر کو اتنی شہرت اور اہمیت دلائی اس کے اثر سے اس نے اگر درپردہ یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس دلچسپ موضوع کی حقیقت اور کھل کر اس طرح سامنے آ رہی ہے کہ شیکسپئر کی شہرت و عظمت کا فخر و اعزاز امیلیا بسانو لینئر کے نام کرنے کی سب سے بڑی مہم یہودی اہلِ قلم نے شروع کر رکھی ہے۔

 انگریزی ادب میں جو عظمت اور شہرت شیکسپئر کو ملی وہ کسی اور شاعر اور ادیب کے حصے میں نہیں آئی۔ اسی وجہ سے اس کا تذکرہ ذرا تفصیل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ جان ملٹن سولھویں صدی کا ایک نابینا شاعر تھا۔ خاندانی طور پراس کا تعلق تطہیری مذہب (Puritans)سے تھا، جس کے بارے میں اس سے قبل ایک تحریر میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اصلاحی اور تطہیری تحریک پر یہودی اثرات تھے۔ ملٹن کی شہرہ آفاق نظمیں Paradise LostاورParadise Foundیہودی تاریخ کی روشنی میں خیر و شر کی کشمکش اور اس کے اثرات و نتائج کو واضح کرتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہودیوں نے خُدا کے قانون اور اس کی اطاعت سے منہ موڑا تو ان سے عظمت چھن گئی۔ اگر وہ رَب کے ساتھ جڑ جائیں تو انہیں ایک بار پھر ساری دنیا پر تسلط و اقتدار نصیب ہو سکتا ہے۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی کو یورپی تاریخ کا عصرِتنویر یا عہدِِ روشن خیالی (Enlightenment Age)تصور کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی عرصے میں یہودیوں کی Haskalah Movement سامنے آئی۔ اس کو ہم برِّ صغیر میں کسی حد تک سر سیّد احمد خان کی علی گڑھ تحریک کے مماثل قرار دے سکتے ہیں۔ ان دونوں تحریکوں کا خلاصۂ ِ فکر یہ تھا کہ ’ترقی کرنی ہے تو جدید مغربی تعلیم اور مغربی کلچر اورطور طریقے اپنائو‘۔ دونوں تحریکوں میں فرق اثر پذیری اور اثراندازی کا تھا۔ علی گڑھ تحریک مغربیت کے لیے اپنے دروازے کھول دینے کا موجب بنی جب کہ یہودیوں کی Haskalah Movementان کے توراتی و تلمودی تصورات و معتقدات کے لیے مغربی فکرکے دروازے کھولنے پر اور صیہونیت کو قابلِ قبول بنوانے میں مددگاربنی۔

 یہ وہی’ روشن خیالی ‘کا عرصہ تھا جب برطانیہ میں شعر و ادب کی رومانوی تحریک پروان چڑھی اورکولرج، بائرن ا ور ولیم وردزورتھ  (Byron, Coleridge,William Wordsworth)جیسے نامور شاعروں نے اس میدان میں اپنے جوہر دکھائے۔ جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ میرا مدعا انگریزی شاعری کا جائزہ اور سولھویں سے لے کر انیسویں صدی تک کے شاعروں کے فن پر تنقیدی نظرڈالنا نہیں ہے۔ میرے پاس اس کے لیے نہ مطلوبہ صلاحیت و مطالعہ ہے اور نہ ضروری اسباب و وسائل ہیں۔ میں نے صرف یہ کھوج لگانے کے لیے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے کہ یہودیوں کی Yiddish, Maskilinاور Zionistتحریکوں نے کس حد تک بالعموم یورپ، بالخصوص برطانیہ اور پھر امریکہ کے اعلیٰ درجے کے فہمیدہ اور دانشور طبقے پر اپنے اثرات قائم کیے۔ شعر و ادب کے راستے  خاص و عام دماغوں پراپنے اعتقادی اور تہذیبی و تمدنی نقوش پختہ کیے۔ آگے بڑھ کربالتدریج ان ملکوں کے پورے سیاسی، معاشی، سماجی و ثقافتی، صنعتی و عسکری اور آئینی و قانونی نظام پر اپنی گرفت قائم کر لی تھی۔

سیموئیل ٹیلر کولرج اور ورڈزورتھ انگریزی شعر و ادب کی رومانوی تحریک کے دو ناور شاعر تھے۔ اگرچہ ان دونوں کی یہودیوں سے گہری قربت کی کوئی بڑی شہادت میرے مطالعہ میں نہیں آئی ہے لیکن کولرج یہودی مذہبی کتابوں کی روشنی میں ان کے حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ان کے اندر ان پیغمبروں کے اخلاق اور اوصاف کی توقع کرتا تھا۔ Chris Rubinsteinنے اپنی کتاب Coleridge and Jewsکے صفحہ92کے آخر میں جو واقعہ لکھا ہے وہ ممکن ہے حقیقی ہونے کے بجائے اس دور کے ڈراموں کی کوئی جھلکی ہو لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کولرج کے ذہن میں یہودیوں کی ماضی کی مقدس نسبتوں کے بارے میں واضح تصویر موجود تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ کولرج ایک کوچ میں سفر کر رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک یہودی بیٹھا تھا جو پیغمبر یشعیاء کی تصویر دکھتا تھا۔ یہودی نے کوچ کی کھڑکی بند کر دی۔ کولرج نے اسے کھول دیا۔ یہودی نے دوبارہ بند کر دی اور کولرج نے کھڑکی پھر کھول دی۔ یہودی جب اپنی حرکت سے باز نہ آیا اور اس نے تیسری بار کھڑکی بند کر دی تو اس پر کولرج نے بڑے شائستہ لہجے میں اس سے کہا: ’اے اولادِ ابراہیمؑ! تجھ سے بدبو آرہی ہے، اے اسحاق ؑ کے بیٹے! تویہاں ناگوار ثابت ہو رہا ہے۔ اے یعقوب ؑ کے فرزند!تم سراپا تعفّن بنے ہوئے ہو۔ چاند کی طرف دیکھو۔ وہاں کا آدمی کراہت سے اپنی ناک پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ تمہیں احساس نہیں کہ میں بھی تمہارے سامنے بیٹھا ہوا ہوں۔ ‘اس پر اس یہودی نے اٹھ کر کھڑکی کھول دی اور کہا:’ مجھے اس سے پہلے اس حقیقت کا ادراک نہیں تھا کہ کس شریف اور عظیم سلسلے سے میرا تعلق ہے۔ ‘

 اوریہ لارڈ بائرن! مثل مشہور ہے کہ بد سے بدنام برا۔ بائرن جتنا بدنام تھا اس سے زیادہ برا تھا۔ بو الہوسی اورعیاش طبعی میں وہ مقدس رشتوں کی حرمت کا احساس بھی کھو بیٹھا تھا۔ اس نے اپنی سوتیلی بہن سے جنسی تعلقات قائم کیے اور1814 میں اس سے ناجائز بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کی ساری زندگی سکینڈلوں کے داغوں سے آلودہ رہی۔ ذاتی زندگی کے اس تاریک پہلو سے قطعِ نظربائرن کا یہودیوں کے ساتھ گہرا ربط و تعلق تھا۔ ابھی سات سال پہلے شیلا اے سپیکٹر (Sheila A. Spector) کی نئی کتاب Byron and The Jews چھپی۔ اس میں اسحاق ڈیسرائیل اور اسحاق نتہن جیسے یہودی اہلِ فکر و دانش سے بائرن کے معاملات و تعلقات کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ یہودیوں کی Haskalah Movement مغربی اقوام کے علمی، ثقافتی اور سماجی خون میں سرایت کر جانے اور یورپ و امریکہ کے ہر شعبہ ٔ ِ زندگی میں اپنی جگہ بنانے کا ایک کامیاب حیلہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہودی اثرات عیسائیت کی رگوں میں داخل ہوئے جن سے صیہونی عیسائیت کی راہیں ہموار ہوئیں۔ بائرن کے تراجم یہودیوں کی لسانی تحریکوں میں ظاہر ہوئے۔ یہ باہمی تعلق کی بنا پر ہی ہوا تھا۔

معروف فلسطینی مفکرآنجہانی دانشور ایڈورڈ سعید نے اپنے ایک مقالے میں بڑی خوبصورتی سے اور متأثر کن دلائل کے ساتھ مغربی عصرِ تنویر (Enlightenment Age) اورمغرب کی ظالمانہ استحصالی استعماریت اور نو آبادیاتی (Imperialism/ Colonization) کے باہم ہم عصر اور اعتقادی اور بہ اعتبارِ فطرت ہم آہنگ ہونے کا جائزہ لیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مغرب کی استعماری قوتوں نے سولھویں صدی میں خاص طور پر بلادِ اسلامیہ پر قبضے کے لیے جو قدم بڑھائے اور انیسویں صدی کے اواخر تک تقریباً سارے عالمِ کو اپنے استبدادی پنجوں میں جکڑ لیا تھا، اس ظلم و ناانصافی پر اس دور کے انگریزی اور یورپی شعرو ادب میں کوئی چیخ بلند ہوئی، کوئی صدائے احتجاج سنی گئی، کسی مزاحمتی رویے کی تحسین ہوئی؟ جواب بڑا مایوس کن ہے۔

اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے سیاسی حلقوں ہی میں نہیں بلکہ اہلِ دانش و فکر اور اصحاب قلم نے صیہونیت کی تائید و حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مغربی اور امریکی سیاست دانوں ہی نے نہیں بلکہ دنیائے دانش نے بھی اس تصور کو اپنا عقیدہ بنا لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا ظہورِ ثانی یہودیوں کی ارضِ موعود —فلسطین— کی طرف مراجعت، اس سرزمین پر قبضے اور وہاں داود اور سلیمان علیہما السلام جیسی طاقتور یہودی ریاست قائم کرنے سے مشروط ہے۔

تبصرے بند ہیں۔