ایمان کی تجارت!

محمد خان مصباح الدین

ابتداء سے لیکر آج تک عالم اسلام کو سخت حالات کا سامنا رہا ہے لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ مذہبی اختلافات اور جنگ کا خطرہ ہے کیونکہ صہیونیوں اور عالمی استعمار کے حمایت یافتہ اسلام دشمنوں نے اسلامی معاشروں کے درمیان فرقہ وارانہ اور مذہبی جنگ چھیڑنے کے لے بہت وسیع پیمانے پرسرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کا سدباب کرنے کیلئے مذہبی رہنماؤں کی اہم اور دینی ذمہ داری ہے۔ مگر اس سے قبل کہ ہمارے رہنما اس بات کو سمجھ پاتے کہ اس کی فکر شاید دشمن ہم سے کہیں زیادہ پہلےمحسوس کر چکا تھا ,انہیں اسبات کا مکمل علم تھا کہ اگر کسی قوم کو زمیں بوس کرنا ہے تو سب سے پہلے اسکے رہنماوں کو ایمان فروش بنا دو اور اس قوم کے نوجوانوں میں زن و زر کیساتھ فحاشی پھیلا دو پھر  انہیں اپنی انگلیوں پے نچاتے رہو,یہی لائحئہ عمل بنا کر انہوں نے ہمیں آپسی اختلافات کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے جسکی وجہ سے ہم نے اپنا بنیادی مقصد اپنے ذہنوں سے مسخ کر لیا ہے اب ہمیں اسلام سے زیادہ اپنے فرضی مسائل عزیز ہیں جسکا خمیازہ ہم آئے دن بھگت رہے ہیں اور ہمیں قسطوں میں قتل کیا جارہا ہے جسکا ہمیں احساس تک نہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ:

  مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں پہ گروں

   جس طرح سایۂِ دیوار پہ دیوار گرے

قارئین کرام!

مذہب کوئی بھی ہو وہ زندگی کے اصول وضح کرتا ہے اور انہی اصولوں کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی چاہے تو عمل کرکے جنت باسکتا ہے اور چاہے تو ان اصولوں کو یکسر مسترد کر کے وحشی درندوں سے بھی ابتر زندگی گزار سکتا ہے۔ جب سے اس دنیا میں انسان اور مذہب نے جنم لیا ہے تب سے لیکر ابتک ہر کسی نے مذہب کو طرح طرح سے اپنا رنگ ڈھنگ دیکر نا صرف اپنی ذات کی چھپی خودسری کیلۓ استعمال کیا ہے بلکہ دوسروں پر اپنی انا اور ازلی غرور کی تسکین کی خاطر لاگو کرنے کیلۓ مذہب کو خوبصورت لفاظی کے کاغذ چڑھا کر بیچا بھی ہے- خوبصورت لفاضی کاغذ میں ملفوظ خود ساختہ تروڑمروڑ کر پیش کردہ مذہب کے بیچنے والوں نے ہم لوگوں کو اپنے جال میں ایسا پھانس رکھا ہے کہ ان کے پیروکار انکے خلاف ایک لفظ سنا تک گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم خود سے اپنے اپنے مذاہب اور الہامی کتب کا مطالعہ کرنے اور وہ عقل سلیم جو اللہ نے ہر انسان کو عطا کی ہے اسکو استعمال کرنے کے بجاۓ ان مذاہب کے سوداگروں کے کہے کو پتھر پر لکھی تحریر جانتے ہوے ایمان لے آتے ہیں، بنا عقل کی کسوٹی پر پرکھے ہوۓ۔ اگرچہ کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ نے سارے علوم کسی ایک شخص کو عطا نہیں کیۓ ہیں بلکہ ان علوم کو علیحدہ علیحدہ لوگوں کو مرحمت کیۓ ہیں۔

اسی طرح ہم خالی قرآن پڑھکر یا حدیث کا مطالعہ کر کے اگرچہ کے ہم عالم علم نہیں بن جاتے ہیں بلکہ بہت سی باتؤں کی تشریحات کیلۓ ہمیں مختلف علوم کے علماٰءکرام اور مفتیانٰءکرام سے رجوع کرنا پڑتا ہے مگر خود کیا گیا مطالعہ ہمیں ان عالمانءدین سے مزید فیض حاصل کرنے کا وسیلہ بنتا ہےاور ہم اس بات سے بچ جاتے ہیں کہ ہر کسی کی سچی جھوٹی مذہب سے متعلق بات پر بنا سوچے سمجھے ایمان لے آئیں اور اسکے بعد خود سے پڑھناا ور سمجھنا چھوڑبیٹھیں کیونکہ علم جتنا بھی حاصل کیا جاۓ وہ کم ہی ہوتا ہے۔ آجکل خاص طور پر پاکستان میں طرح طرح کے رنگ برنگے لوگوں نے  اپنے اوپر مذہب کے نام نہاد اسکالر کا ٹیگ لگا کر اسلام کو بیچنے کا کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔ یہ لو گ زیادہ تر ہمیں یا تو ٹی وی پر نظر آئیں گے یا پھر نامور لوگوں کے ساتھ کسی نا کسی حوالے سے خبروں میں میلنگے۔ آپ ہم جیسے لوگ ان حضرات سے مستفید یا تو کسی ملٹی ملین پروگرام میں ہو سکتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر خاص طور پر جاری کی گئی واعظ کی ویڈیو سے۔ یہ حضرات ایسے ایسے متحیر العقل واقعات بیان کرنے میں اپنا  ثانی نہیں رکھتے جنکا نہ تو اسلام کے احکامات سے تعلق ہوتا ہے نہ ہی رسول اکرم ﷺ کے احادیث سنہ سے، اور نہ ہی صحابہ ء کرام کی زندگیوں کے واقعات سے بلکہ ان واقعات کا سراسر تعلق انکی اپنی ذات اور اپنے پیروکاروں کی ذات کے لیۓ فوائد حاصل کرنے کیلۓ ہوتا ہے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے تو کوئی بھی ایسی بات اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے منسوب کرنا جسکا کوئی حکم یا عمل نا ہو وہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔

اسکے علاوہ ان حضرات نے مذہب کو عام و خواص میں بھی تقسیم کر رکھا ہے، یہ حضرات اپنا زیادہ وقت ایسے افراد میں گزارنا پسند کرتے ہیں جو معاشرے کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں یہاں تک کے سیاست کے میدان میں بھی اپنا مقام رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ جو مالی منفعت و سیاسی فوائد سے مستفید کرواسکیں وہ خواص کہلاۓ جاتے ہیں، انکے لیۓ ان مذہب کے سوداگروں کے پاس مذھب کی الگ تشریح ہے اور عام لوگوں کیلۓ الگ کیونکہ عام لوگ انکے لیۓ صرف اندیکھے غلاموں کی حیثت رکھتے ہیں جو اسی بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ بڑے صاحب نے فلاں حکم دیا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ اور بات ہے کہ بڑے صاحب نے کبھی سلام کا جواب دینا تو کجا کبھی اپنا رخ روشن کا دیدار بھی نا کروایا ہو عام زندگی میں۔ یہ بڑے حضرات عام طور پر لندن، امریکہ یا دبئی جیسی جگہوں پر سال کے دس مہینے پاۓ جاتے ہیں جہاں انکے چاہنے والے انکو بلاتے ہیں یا انکی رہائش ہوتی ہے اور ان حضرات کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کسی نا کسی طرح انکا نام،  کبھی کبھی کوئی پروگرام میں انکا انٹرویو، یا خبروں میں ضرور آۓ تاکہ عوام میں انکا ایک خاص تاثر بن سکے۔

مذہب کوئی جنس نہیں کہ جسے صرف اپنی جھوٹی ریاکاری کیلۓ بیچا جاۓ مگر آج کے معاشرے میں صرف دو ہی چیزیں ہیں جو ارزاں ہیں ایک عورت دوسری مذہب۔ جنکا کاروبار پل پل ہوتا ہے،  جو جتنا ملحما کاری سے خوبصورت ہوگا وہ اتنا ہی مہنگا بکے گا۔ آج ہم نام کے مسلمان منافقت میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ دوسروں کو قبر، آخرت و محشر کے سبق کی آڑ میں مذہب کو بیچ رہے ہیں. مگر وہ پاک ذات باری بہت بڑی ہے وہ ایسے لوگوں کے چہروں پر انکی اصلیت لے ہی آتی ہے بس ہم جیسے لوگوں کو چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ٹٹولیں کہ ہم خود کتنا اپنا  مذہب جانتے ہیں اور کتنا عمل کرتے ہیں تب کہیں جا کر ہم ان دجالی چیلوں سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔