النبی الخاتم: ایک مطالعہ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

سیرت نبی ﷺ پر اب تصانیف اور مقالات کی کمی نہیں رہی، اگر یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جتنا کچھ سیرت نبوی کے باب میں لکھا جاتا ہے کسی بھی علمی، ادبی، تاریخی موضوع پر اس قدر نہیں لکھاجاتا، اس سینۂ گیتی پر جتنا کچھ سیرت نبوی کے موضوع کو زیر بحث لایاگیا دوسرے علوم وفنون پر اس قدر اعتناء نہیں کیاگیا، اب تک یہ صورت حال ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ سیرت نبوی پرچھوٹی یا بڑی کوئی تصنیف، کوئی مقالہ یا مضمون منظر عام پر نہ آتاہو؛ لیکن شیوع اور ذیوع اور قبولیت عامہ اس میں چند ایک تصانیف کو ہی حاصل ہوتی ہے، انہیں گراں قدر اور مقبول عام تصانیف کو جس نے سیرت نبوی صحیح اورمکمل جھلک چاہنے والوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیا، انہیں تصانیف میں مولاناسید منظر احسن گیلانی کی تصنیف ’’النبی الخاتم‘‘ ہے جو نہ صرف اپنے پیرایۂ بیان، ادائیگی اور زبان کی برجستگی، ادبیت اور منظر کشی اورواقعات سے نتائج کے اخذ کے لحاظ سے دیگر تصانیف پر فوقیت وبرتری رکھتی ہے ؛ بلکہ یہ اپنی جامعیت اور اختصار کے ساتھ ’’خیر الکلام ما قل ودل ‘‘ یا ’’دریا بکوزہ ‘‘کی حقیقی مصداق ہے، اس قدر اختصار کے باوجود جامعیت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہونا ہی اس کی خوبی کی سب سے بڑی علامت ہے۔

اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ نہ صرف سیرت نبوی کو سرسری انداز میں عام مصنفین کی طرز نہایت خشکی ساتھ بیان کرتی ہے؛ بلکہ اس واقعہ سے حاصل ہونے عبرتوں اور موعظتوں کو اپنے اچھوتے اور البیلے طرز نگارش اور ادب ولذت وچاشنی سے بھرپور انداز میں قاری کو سیرت نبوی کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں سیر کرواتی ہوئی چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب واقعات کو تاریخ وار ذکر نہیں کرتی؛ بلکہ نتائج کے پہلو بہ پہلو واقعات آگے پیچھے تاریخی حیثیت سے ہوسکتے ہیں ، اس لئے کہ مصنف ِکتاب کامقصود اور مطمح نظر صرف سیرت نگاری نہیں تھی؛بلکہ سیرت کی روشنی میں دعوت وتبلیغ اور راہ حق وصدق وصواب کو بتلانا بھی تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے توحیدی دلائل کے ظہور وقوع کو اپنے اچھوتے اور البیلے انداز میں مختلف سیرت کے واقعات کی کڑیوں کو جوڑ کر یوں بیان فرماتے ہیں :

’’پہلی دلیل : پدر بزرگوارکی وفات:پھر دیکھو ! جس کا باپ مرجاتا ہے تو جھوٹی قوتوں کے ماننے والے گھبرا گھبرا کر چلاتے ہیں ، واویلا مچاتے ہیں کہ اس بچے کو کون پالے گا؟بے زوری کو زور کہنے والوں کا زور توڑنے کے لئے خود اس کے ساتھ یہ دیکھاگیا کہ پیدا ہونے کے بعد نہیں ؛ بلکہ اس سے پہلم کہ وہ آئے، اس میدان میں آئے، جہاں جھوٹی قوتوں سے آزادی کا پرچم کھولاجائے گا وہ دھوکے کی اس قوت سے آزاد ہولیا، جس کانام دنیا نے باپ رکھاہے۔

دوسری دلیل: مادر مہربان کا انتقال: اور ٹھیک جس طرح ظہور سے پہلے اس کی ہستی نے اس آزادی کی شہادت ادا کی، نمود کے ساتھ چند ہی دنوں کے بعد اس غلط بھروسے کا تکیہ بھی اس کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا، جس کو ہم سب ماں کہتے ہیں ۔

تیسر ی دلیل:جدامجد کی وفات : جو اپنی خوانی کی قوتوں کو کھو کر بڑھاپے کی ہلی ہوئی دیوار کے سہارے زندگی کی نمائش ختم کررہا تھا، اس پیرانہ سالی کے ساتھ آپ کے جد امجد نے چاہا تھا کہ سچی آزادی کی واشگاف ہونے والی حقیقت میں کچھ اپنی شرکت سے اشتباہ ڈال دیں ؛ لیکن جو خود اپنے دعوی کی دلیل تھا، اس کی دلیل کمزور ہوجاتی اگر عین وقت پر عبد المطلب کی سرپرستی کے فریب کا پردہ چاک نہ کردیا جاتا، آخر وہ بھی چاک کردیاگیا۔

چوتھی دلیل :ابوطالب کی معاشی تنگی:حقیقت جتنے بین اور شاندار چہرے کے ساتھ اب اس بے مادر وپدر اور لا وارث یتیم کی پیشانی سے چمک رہی تھی، وہ نہ چمکتی، اگر کہیں بجائے بے مایہ وبے بضاعت عم محترم حضرت ابو طالب کے خوانخواستہ آپ کی نگرانی مکہ کیساہور کار عبد العزی المشہور بہ ابی لہب کے سپرد ہوتی ؛ لیکن شیر کے بچے کے بھٹوں میں نہیں پالے جاتے، جس قطرہ کی قسمت میں موتی ہوتا ہے، وہ گھونگھوں اور مینڈکوں کے منہ میں نہیں گرتا۔ غریب ابو طالب کی کفالت سے اس کے برہانی وجود میں کیا ضعف پیدا ہوتا، جس کے متعلق شائد بہتوں کو علم نہیں ہے کہ مدتوں ان کی یعنی ابوطالب کی گزران ان قراریط پر ہی تھی جو بکریوں اور اونٹوں کے چرانے کے صلہ میں ان کا یتیم بھتیجا مکہ والوں سے مزدوری میں پاتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پانچویں دلیل حلیمہ سعدیہ کی رضاعت: فہموں کی قلابازیاں اس مسئلہ میں بھی تقریبا اسی قسم کی ہیں جو حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سمجھ کے پھیر سے بلاوجہ پیدا ہوئیں ۔

آپ کو حلیمہ سعدیہ سے دودھ ملا، حلیمہ یا حلیمہ کی اونٹنی، حلیمہ کی بکریوں ، حلیمہ کے شوہر، حلیمہ کے بچوں ؛ بلکہ آخر میں قبیلہ والوں تک کو، ان سب کو دودھ آپ ہی کے ذریعہ سے ملا؟ اس میں واقعہ کیا ہے اس کو جانتے ہیں ؛ لیکن نہیں جانتے یا نہیں جاننا چاہتے۔ ‘‘(النبی الخاتم : ۲۵-۲۷)ایسے ہی دیگر دلائل پیش فرمائے ہیں ، جس کا ذکر باعث تطویل ہوگا۔

یہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کا اندازِ بیان اور اللہ عزوجل کا اپنے حبیب ومحبوب کی بذات خود پرورش انجام دینے اور ظاہری سہاروں کو ایک بعد دیگرے ختم کر کے بغیر کسی سہارے اپنی ایک اکیلی ویکتا ذات کے سارے اپنے محبوب کی پرورش کر کے اپنی وحدانیت اور یکتائیت کا جہاں ثبوت پیش کررہاہے، وہیں اپنی محبوب کے قلب ودماغ میں اس بات کو جاگزیں کرنا بھی مقصود ہے کہ بااعتماد اور قابلِ بھروسہ ذات تو بس اللہ عزوجل کی ذات ہوسکتی ہے۔ ایک قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ حضرت مولانا نے مختلف واقعات کی کڑیوں کی جوڑ کر کس طرح خدا کی وحدانیت اور اپنے نبی کی بذات خود اپنی زیرنگرانی پرورش کو دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے۔

 حضرت مولانا سید مناظر أحسن گیلانی ؒ کی طرز نگارش کی یہ خصوصیت اور خوبی ہے کہ آپ تحریر میں گم ہو کر لکھتے ہیں اورجب لکھتے ہیں تو آپ کا قلم گوہر بار خوب موتی اور مونگے بہاتا ہوا بتکلف نہیں روانگی اورتسلسل کے ساتھ چلتا ہے، خصوصا سیرت نبوی پر زیر نظر کتاب نہ صرف اس کو انہوں نے دلنشیں انداز تحریر میں پیش کیا ہے ؛ بلکہ اگر یہ کہیں بے جا نہ ہوگا کہ اس تحریر کہ معرض وجود میں آنے کی اصل وجہ عشق محمدی کی آگ ہے اور دل کا سوزوگداز ہے جس نے ان کی اس تحریر کو عشق محمدی کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔

یہاں پر ہم ایک مصنف کی کتاب کا ایک پیراگراف پیش کرتے ہیں جن بالکل ابتدائی کتاب کا حصہ ہے، ادبیت، آمد اور عشق ومحبت اور سوز وگذازکا ایک اعلی نمونہ، قاری پڑھتا ہے عشق نبوی کی آمد آمد اس کے تن من دھن کو آگ لگائے دیتی ہے۔

’’یوں آنے کو تو سب ہی آئے، سب میں آئے، سب جگہ آئے، (سلام ان پر ) بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے ؛ لیکن کیا کیجئے کہ ان میں جو بھی آیا جانے ہی کے لئے آیا، پر ایک ایک اور صرف ایک جو آیا اور آنے ہی کے لئے آیا، وہی جو اگنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا، چمکا اور چمتا ہی چلا جارہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلاجارہاہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جارہا ہے، سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا ہی چاہئے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جو نبوت کے ساتھ کھڑے کئے گئے، برگزیدوں کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کسی کو ہوسکتا ہے، جو پچھلوں میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا، دور والے بھی اس کو ٹھیک اسی طرح پارہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے، جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا، جو آج بھی اسی طرح پہنچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا، جس طرح کل پہنچانا گیا کہ اسی کے اور صرف اسی کے دن کے لئے رات نہیں ، ایک اسی کا چراغ ہے جس کی روشنی بے داغ ہے ‘‘۔ (النبی الخاتم :۱۰)

یہ اس کتاب کا ایک اقتباس ہے نہ جانے عشق ومحبت کی کن گہرایوں میں اتر کر لکھاگیا ہے، یہ قوت تحریر نہ جانے کسبی ہے یا صرف اور صرف من جانب وہبی طور پر ودیعت کی ہوئی ہے، ایک ایک لفظ سر دھنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کتاب میں مصنف نے آنحضرت ﷺ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، مکی زندگی، مدنی زندگی، مکی زندگی کو انہوں کی دل کی آبیاری اور پرورش اور پرداخت کی زندگی قراردیا ہے جب کہ مدنی زندگی کو دماغی زندگی بتایا ہے، اور یہ سیرت نبوی کی تقسیم نہایت البیلے اوراچھوتی اور جدید تقسیم ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ جتنے کچھ کمالات ذات نبوی سے مکہ زندگی سے متعلق ہیں ان کا تعلق ملکات قلبیہ سے اور جب کہ مدنی زندگی میں جو امور کو انجام دینا تھا وہ تنظیمی امور تھے سے متعلق تھے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف امور کی تقسیم در تقسیم سیرت کے اقعات کی روشنی میں کی ہے، اس قسم کی جدت طرازی اور واقعہ نگاری دیگر سیرت کی کتابوں میں شاید شاذ ونادر ہی نظر آئے گی۔ اس کی ایک مثال ہم یہاں پیش کئے دیتے ہیں ۔

مولانا نے کفار مکہ کی جانب سے حضور اکرم ﷺ کو جن امتحانات اور آزمائشوں سے دوچار کیاگیااور جس طرح آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایاگیااور آپ ﷺ سے جوایجابی اور سلبی انداز سے امتحان لے گئے جس پر آپ ﷺ صد فیصد کھرے اترے جس کے نتیجے میں آپ کو معراج میں بلایا گیا۔

’’اوریہی وجہ ہے کہ سلبی یا ایجابی کون سی شکل باقی رہی جس معیار پر سچائی کی یہ ’’لاہوتی ‘‘حقیقت نہ پرکھی گئی ہو، زرلے کر دوڑے، زمین لے کر دوڑے، زن لے کر دوڑے، الغرض جو کچھ سونچا جاسکتا ہے، ہر ایک سے رگڑ رگڑ کر، گھس گھس کر انہوں نے جانچا، لیکن صدق وامانت کے احساس کی وہی گرفت جو دعوی سے پہلے ان کے دلوں پر مسلط تھی، کس تدبیر سے ڈھیلی نہیں پڑتی، اس میں کیا ؟ اس کے اندر کیا ہے، ؟ مال ہے، جاہ ہے، یا کچھ اور ہے، ہر سوال کی سلائیاں ، لمبی لمبی سلائیاں ڈال ڈال کر ہر ایک نے دیکھا، بار بار دیکھا ؛ لیکن سچ کے سوا اس میں کچھ نہیں ہے، اخلاص کے سوا اس میں کچھ نہیں ہے، ہر آزمائش، ہر جانچ کا آخری نتیجہ یہی برآمد ہوا، جانچ کی یہ ایجابی شکلیں تھیں ، اس راہ سے انہیں کچھ نہ ملا۔

اب وہ منفی وسلبی تدبیروں کے متعلق باہم ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے، دار الندوۃ کی مجلسی سرگرمیاں جتنی اس وقت تیز ہوئیں ، اس کی تاریخ میں ایسی گرم بازاری اسے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔

مسلو ! اس کے باطن کو مسلو ! متھو! اس کے اندر جو کچھ ہے، سب کو متھو، ملو اور جس جس جتن سے جو کچھ ممکن ہے، سب کچھ کر گزرو، قدرت ن، اس کا بھی ان کو وسیع موقع بغیر کسی مزاحمت کے بڑی فیاضی کے ساتھ اتنی فیاضی کے ساتھ جس کی نظیر حق وراستی کے تجربہ کی تاریخ میں قطعا مفقود ہے، عطا فرمایا۔ جانچ کی، اس راہ میں پھر کیا پیش ہوا، بجز اس کے جس میں اسی درجہ کا صدق ہو جو اس میں تھا، اسی درجہ کی امانت اس میں تھی (اور یہ مقام نسل آدم میں کسی کو میسر آسکتا ہے، ان کو کون جھیل سکتا ہے ؟)۔

سلبی امتحانوں کے سلسلے میں تعذیب صحابہ سے ابتداء :اس کے لاوارث بیکس ساتھیوں پر پہلے انہوں نے  ہاتھ چھوڑا اور اس طرح چھوڑا کہ چیرہ دستیوں کا کوئی ایسا دقیقہ نہ تھا جسے انہوں نے رکھ چھوڑا، دہکتے ہوئے کوئلوں پر زندہ کھال والی پیٹھیں ، ننگی پیٹھیں لٹائی گئیں ، جلتی ہوئی ریت بر جانداروں کو سلایا گیا۔ کتے جب مرجاتے ہیں تب ان کی ٹانگوں میں رسی باندھ کر مہتر گھسیٹتے ہیں ؛ لیکن قریش کے مہتروں میں ایسے مہتر بھی تھے جنہوں نے جیتے جاگتے آدمیوں کے گلے میں رسیاں باندھیں اور مکہ کی گلیوں میں ان ہی رسیوں کے ساتھ وہ گھسیٹتے گئے، گرم پـتھروں پر کھلے بدنوں کے ساتھ کوڑے مار مار کر ’’سچ‘‘ کو چھوڑ کر جھوٹ بولنے کے لئے تڑپائے گئے، تلملائے گئے، چٹائیوں میں باندھ کر ناک کی راہ سے تیز وتند ایندھنوں کا دھواں پہنچایا گیا……چڑیوں کے بھی گھونسلے ہوتے ہیں جن میں وہ پناہ لیتی ہیں اور سانپوں کے بھی بانبیاں ہوتی ہیں جن وہ چھپ کر رگیدنے والوں سے اپنی جان بچاتے ہیں ، لیکن دعوی کے زور کو توڑنے کے لئے ستم کے جو پہاڑ جن غریبوں پر توڑے جارہے تھے، ان کے پاس تو وہ بھی نہ تھا، ان میں بڑی تعداد ان غلاموں کی تھی جن کا نہ اپنا گھر ہوتا ہے اور نہ در، یا ایسے جو دوسروں کے سہارے زندگی بسر کر رہے تھے، جس پر سہارا ہو جب وہی سہاروں کو ختم کرنے کے درپے ہوجائے تو اس کے لئے کہاں پناہے ؟ …چنانچہ حضرت عثمان آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی رقیہ رضی اللہ عنہا جو ان کی بیوی تھیں ان کو اور مکہ کے غرباء فقہاء اوراسی قسم کے ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر حبشہ پہنچے۔

سلبی امتحانات کی شدت اور ذات مبارکہ پر تعدی: بہر حال یہ تو ان کی جانچ تھی جو گرمائے گئے تھے؛ لیکن ان تمام سرگرمیوو کا جو حقیقی منبع اور ان کا گرمانے والا تھا، اب تک اس کے صرف ایجابی امتحانات تک بات پہنچی تھی اس کو تو انہوں نے اس وقت تک مہلت دے کر جانچا تھا جس طرح اس کے ساتھیوں کی جان لے کر، ان کی عزت وآبرو لے کر ……سنگ دل، سیاہ سینہ جانچنے والوں نے پھر کیا اس سلسلہ میں کہیں رحم کھایا، جو کچھ کر سکتے تھے، سب کچھ کر رہے تھے ؛ لیکن ان کہیں دل دکھا؟عزت پر، آبرو پر، جان پر، حملوں کی کوئی قسم تھی، جس کو انہوں نے باقی چھوڑا، یقینا ان کے ترکش میں کوئی تیر ایسا نہ تھا جو چلنے سے رہ گیا، نکاحی بیٹیوں کو طلاق دلوائی گئی، سر پر خاک ڈالی گئی، راہ میں چہرہ مبارک بر بلغم تھوکا گیا، گردن مبارک میں پھندا لگایاگیا۔ اور آخر میں سب جانتے ہیں کہ کھانا کھانابند کیا گیا، پانی بند کیا گیا، زندگی کے تمام ذرائع روکے گئے، ایک ما ہ نہیں ، پورے تین سال تک ابی طالب کی گھاٹی میں اسی طرح رہنے پر مجبور کیا گیا، خود ان کو مجبور کیا گیا اور ان کے ساتھ بوڑھے ابو طالب اور معصوم بچے، ناتواں عورتیں جو بنی ہاشم اور چنددوسرے خاندانوں کی تھیں ، اس حال میں ڈالے گئے۔ وہی وہ فطرت رحیمہ ورؤفہ جو انسان تو انسان کسی جانور کے دکھ کو بھی دیکھ کر تڑپ جاتی تھی، اس کے لئے آزمائش کی کیسی گھڑی تھی کہ ننھے ننھے بچے اس لئے بلبلاتے تھے کہ ان کی ماؤں کی چھاتی میں دودھ نہیں ، آٹھ آٹھ دن، دس دس دن ان کے منہ میں اڑ کر کوئی کھیل بھی نہیں پہنچی ہے، کیا سخت وقت ہے کہ پیشاب سے شرابور خشک چمڑے کو دھو کر بھون بھون کر ان کو کھانا پڑا، جن کے دانتوں نے شائد سوکھا گوشت بھی نہیں چبایا تھأ، جو پتے شائد بکریا ں بھی شوق سے نہ کھاتیں ، ان پر ہفتوں بسر کرنا پڑا، مصیبت کی ان چیخوں ، تکیف کی ان پکاروں میں اسی احساسِ فطرت طیبہ کے لئے کیسی عظیم بے چینی تھی، اس کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جن کے دل میں درد ہواور جو درد دل والوں اپنے اندر کوئی ٹیس رکھتے ہوں ، لیکن یہاں تو باطن کوظاہر کر کے دکھانا تھا، چھوڑدیاگیا ؛ تاکہ کریدنے والے جہاں تک ممکن ہو کریدیں ، وہ مسل رہے تھے، رگڑ رہے ـتھے، انگلیاں ڈال ڈال کر ٹٹول رہے تھے جو کچھ ظاہر کیا جارہا ہے کیا اندرمیں کچھ بھی کہیں بہی اس کے سوا کچھ ہے، تجربے کرنے والوں کے لئے تجربے کے سارے ساز وسامان، تمام آلات اور اوزار ایک ایک کر کے مہیا کردیئے گئے تھے کہ آئندہ انہی کو گواہی دینی تھی، ان ہی کو دنیا کے فرض شہادت ادا کرنا تھا۔ (النبی الخاتم :۳۷-۴۵)

یہاں مولانا نے نبی کریم ﷺ کو کفار کی جانب سے پہنچنے والے امتحانات اور آزمائشوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا ہے ایجابی اور سلبی اور ہر دو آزمائش کی انتہاؤں کو واقعات کی روشنی میں ذکر کیا ہے، یہ طرز نگارش مولانا کے ساتھ خاص ہے۔

 ایک خصوصیت اس کتاب کی یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں تسلسل ہے نبوت محمدی کا اعجاز وارتقاء اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم کتاب مذکور سے مختلف مواقع سے نبوت محمدی کا اعجاز وارتقاء کے حوالے مولانا کے ذکر کردہ امور جس میں ساری دنیا کی ہر شیء کا آپ ﷺ کے لئے مسخر ہونے کا ذکر ہے بیان کررہے ہیں ۔

حضور اکرم ﷺ کو مکہ کے مشرکین کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کے نتیجے میں جو ارتقاء اور عروج حاصل ہوا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 طائف میں وہاں کے اوباشوں سے پہنچنے والی تکلیف اور اس کے نتیجے میں پہاڑں کے فرشتے کا حاضر خدمت ہو کر عرض کرنا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ان کو ان دو پہاڑوں کے پیس کر رکھ دیں گے۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ارتقاء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’پس وہی جس سے ہر چیز الگ کی گئی، کائنات کا ہر ذرہ جس سے ٹکرایا اور پوری شدت کے ساتھ ٹکر ایا، اتنی شدت سے ٹکرایا کہ صبر وسکون کے پہاڑ، سب سے بڑے پہاڑ میں بھی جنبش پیدا ہوئی، انتظار کر و کہ اب اسی کے ساتھ ہر چیز لپٹے جس سے سب بھاگے تھے، اسی کی طرف سب دوڑیں جس سے جدا ہوئے اسی سے سب آکر ملیں ، جس سے سب ٹوٹے اسی سے اب سب جٹیں ، جس سے سب پھٹیں اسی سے سب بھنچے تھے، اب اس کی طرف ہاں ! اسی کی طرف سب کھینچیں ، پوری طاقت کے ساتھ کھینچیں ، زمین کھنچے، آسمان کھینچے، فلک کھینچے، ملک کھینچے، جن کھینچیں ، انس کھینچیں ، الغرض جو چیزیں کھینچ سکتی ہیں ، سب کھینچیں اور دیکھو یکا یہی نہیں ہورہا ہے۔ جو زمین پر چھوڑا گیا تھا، اور ہر طرف سے چھوڑا گیا تھا، اسی کے مبارک قدموں سے سب کو جوڑنے کے لئے ملااعلی میں جنبش ہوتی ہے، سلسلہ ملکوت کے ارتقائی نقاط کا آخری نقطہ’’الجبرائیل الأمین‘‘ کو دکھایاگیاکہ وہ پکار رہے ہیں : سن لیا، اللہ نے سن لیاآپ کے لوگوں نے آپ کو جو کچھ کہا …اس کے بعد ملاء ادنی کے فرشتے ملک الجبال کی تسخیر کی بشارت سنائی جاتی ہے، کیسی تسخیر، جبرائیل امین عرض کرتے ہیں کہ : یہ پہاڑ کا فرشتہ ہے، آپ جو حکم دیجئے اس کو حکم دیجئے وہ بجا لائے گا۔

غیبی ہستیوں کی بعد برزخی ہستیاں یا جنوں کی تسخیر:شہادت ومحسوس سے پہلے غیب عطا ہوا، غیب میں پہلے ملا اعلی پر قابو دیا گیا، ملااعلی کے بعد ملاء ادنی پر قبضہ دیا کرایاگیا…صحیح روایتوں میں یقین کے ساتھ کہا گیا کہ تسخیر کا یہ سلسلہ اسی ترتیب کے ساتھ غیب سے شہادت کی طرف بڑھااور شہادت تک تسخیری آثار اس عالم کی چیزوں سے گذر کر پہنچے، جس کو ان دونوں دنیا کے درمیان برزخی حیثیت حاصل ہے (یعنی جنوں کی تسخیر عمل میں لائی گئی)۔

شہادتی تسخیر کا آغاز انسانی تسخیر سے : غیب اور اس کے سارے مدارج تسخیری قوت کے آگے جھک چکے تھے، اور اب محسوس وشہادت کی حد شروع ہوتی، پھر دیکھو ! غیب میں جس طرح سب سے پہلے وہ دیا گیا تھا جو سب سے بڑا تھا، شہادت میں بھی اس کے قدموں پر سب سے پہلے جو گرے یا گرائے جاتے ہیں ، ان کا تعلق جمادات ونباتات یا حیوانات سے نہیں ؛ بلکہ ان سے ہے جو اس سب میں بڑا گنا گیا۔ (یعنی اہل یثرب اور مدینہ کے اوس وخزرج قبائل کا اسلام لانا )

واقعہ ہجرت اور حیوانی نباتی، جمادی تسخیرات کا ظہور : جس کے آگے ’’غیب‘‘ جھک چکا تھا، ’’شہادت‘‘ جھک چکی تھی ملاء اعلیاور ادنی جھک چکا تھا، ’’جن ‘‘ جھک جھکے تھے ’’انس ‘‘ جھک چکے تھے ’’دل ‘‘ ڈھونڈتا ہے کہ اس کے آگے ’’جمادات‘‘ بھی جھکیں ’’حیوانات ‘‘ بھی جھکیں ، ’’درند‘‘ بھی جھکیں ، ’’پرند‘‘ بھی جھکیں ، الغرض جو بھی جھک سکتے ہیں سب جھکیں اور کیا یہ صرف عقل ہی تقاضا ہے جن کے کان ہیں سنیں ’’ إلی یا رسول اللہ‘‘(میری طرف تشریف لائیے، اٹھے اللہ کے رسول ) ’’حراء‘‘ کی جمادی چٹانیں چلا رہی ہیں ’’ثور‘‘ کا پہاڑ بھی یہی پکارہا ہے، آخر وہی مسعود ہوا جو محروم تھا’’حراء‘‘ میں نہیں جہاں رہ چکے تھے ؛ بلکہ نئے ’’غار ثور‘‘ کو یہ سعادت نصیب ہوئی اور کیا صرف یہی سنا گیا، کیا اسی کے ساتھ یہ بھی نہیں دیکھاگیا کہ اسی غار کے دہانہ پرجس میں ملائکہ کا مسجود تھا، قدرت کا مقصود تھا، ہر ے ہرے درختوں کی ڈالیاں سر بسجود ہیں ، اس ’’نباتاتی ‘‘ وجو د کے بعد ’’حیوانی ‘‘ قوتوں کو ’’ردندوں ‘‘ کی شکل میں بھی ’’پرندوں ‘‘ کی شکل میں بھی محو نیاز ومصروف کار پایاگیا، جلیل القدر اصحاب رسول زید بن ارقم، مغیرہ بن شعبہ انس بن مالک سب ہی اس کے راوی ہیں : اسی غار میں سلیمان علیہ السلام کی چیونٹیوں کی طرح غریب مکڑیوں نے سلیمان علیہ السلام کے محبوب ’’خلو محمدیم‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ گھر پیش کیا تھا جو تمام گھروں میں سب سے زیادہ کمزور تھا‘‘(النبی الخاتم ۵۴:-۸۷)

اس میں مولانا نبوت محمدی کے ارتقاء اور آپ ﷺ کے لئے دنیاکی ساری قوتوں کی تسخیر کو بتلایا ہے، کیا ہی اچھوتا اور البیلا انداز ہے سیرت نگاری کے باب میں ، شاید کہ اس قدر دلچسپ اورنرالاسیرت نبوی پر طرزِ نگارش کسی کے حصہ میں آئی ہو۔

اس مختصر سے مقالہ میں مولانا مناظر احسن گیلانی کی ’’النبی الخاتم ‘‘ کا تعارف ممکن ہی نہیں ہے، دیگر خصوصیات کے ساتھ مولانا کی سیرت نبوی پر اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مولانا مختلف مواقع نبوت محمدی کے اعجاز کو ظاہر کرنے کے لئے دیگر مذاہب کی کتابوں سے بھی استفاد ہ کیا ہے، اور آخری کتاب تک مولانا کا یہ مدعا برقرار رہاہے ساری کتاب نبوت محمدی کے اعجاز وارتقاء کو بتلاتی ہے، آخر میں ہم سیرت محمدی کی حفاظت کے سامان کے تحت مولانا کی کتاب ایک اقتباس ذکر کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں :

’’تجربات ومشاہدات کا یہی حیرت انگیز ذخیرہ تھا جس کی حفاظت ونگرانی کا فرض کسی خانقاہ کے درویشوں یا کسی مدرسہ کے معلموں یا کسی انجمن کے ممبروں یا کانفرس کے دفتریوں یا کسی افسانہ نگار، مورخ کی انگلیوں کے سپرد نہیں کیا گیا؛ بلکہ سب جانتے ہیں کہ زمین پر اس زمانہ کی جو سب سے بڑی قاہرہ سلطنت تھی اس نے اپنا پہلا فریضہ بھی اسی کی حفاظت وتبلیغ کو قرار دیا …اس کے لئے مدارس کھولے گئے، خانقاہوں کا جال بچھایا گیا، مجلسیں ترتیب دی گئیں ، حلقے قائم ہوئے، تصنیف وتالیف کا باب کھولا گیا، ایسے پیمانوں پر کھولا گیا اور بڑے بڑے عظیم پیمانوں پر کھولا گیا، ایسے پیمانوں پر کھولا گیا کہ شائد دنیا کے کسی ایک فن، ایک علم کے متعلق نہ کبھی دنیا میں اتنے بڑے بڑے عظیم الشان مدرسے کھلے، نہ تصنیفی کوششوں کا اتنا عظیم حصہ انسانی تاریخ میں کسی ایک فن کو ملا، جتنا کہ اس عجیب وغریب نبوت کے تجربات ومشاہدات کو ملااور یوں ہی مسلسل بغیر کسی انقطاع اور کسی وقفہ کے ایک قرن سے دوسرے قرن تک ایک نسل سے دوسری نسل تک نبوت کا یہ لا زوال ابدی، سرمدی، قیم خزانہ منتقل ہوتا رہااور اس وقت تک ہورہا ہے، ہوتا چلاجائے گا۔ ‘‘( النبی الخاتم : ۱۱۶)۔

مختصر یہ کہ یہ کتاب سیرت نبوی پر نہایت اچھوتی اور نرالی کتاب ہے، جہاں یہ سیرت نبوی کے واقعات اور اس سے حاصل ہونے والے عبرتوں اور موعظتوں کا ذکر کرتی ہے، وہیں اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب نبوت محمدی کے بتدریج ارتقاء اور ’’إن مع العسر یسرا‘‘ کی مصداق ہے، کہ مصائب ومتاعب کی بھٹیوں میں جل کر انسان صاف وشفاف ہوجاتا ہے، زبان اور الفاظ کی بندش اور پیرایہ بیان اس قدر گہرا وگیرا اور اردو زبان کی لذت وشاشنی کو لئے ہوئے کہ قاری کتاب کو پڑھتا جائے او ر سر دھنتا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔