تفہیمِ سرسید: کیا صحیح، کیاغلط؟

تحریر:ڈاکٹرفیضان مصطفی، ترجمانی:نایاب حسن

 عظیم ماہرتعلیم اور سماجی مصلح سرسیداحمد خان کے200؍ویں یوم پیدایش کے موقع پرخاص طورسے ہندوستان کے موجودہ انتہاپسندانہ نظریۂ قومیت کی لہرکے درمیان ہمیں سرسید کے نظریۂ ہندوستان کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے،یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیا سرسید احمد خان دوقومی نظریہ کے حامی تھے یا وہ صرف تہذیبی و تمدنی تنوع کے نئے نظریات کو اپنانے کی دعوت دے رہے تھے؟بعض مؤرخوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ برصغیر میں ہندومسلم تفریق کی بنیاد دوقومی نظریہ تھا،جس کا تانابانا مبینہ طورپر سرسید کی فکر سے جڑا ہوا تھا۔ قومیت یا نیشنلزم بطورایک فکر اور نظریہ کے یورپ میں بھی بیسویں صدی میں متعارف ہوا، جہاں سے اسے ہندوستان میں درآمد کیا گیا۔ معروف تاریخ داں انیل سیل(Anil Seal)نے صحیح نشان دہی کی ہے کہ سرسید کے زمانے میں :’’نہ دوقومیں تھیں، نہ ایک قوم تھی ؛بلکہ سرے سے کوئی قوم ہی نہیں تھی‘‘۔ (یعنی زمینی سطح پر ایسا کوئی نظریہ نہیں تھا)سرسید کا نظریۂ قومیت سیکولرزم کا لازمی حصہ تھا۔ 1883ء میں انھوں نے پٹنہ میں اپنے ایک لیکچر کے دوران درست کہا تھا:’’میرے دوستو!ہمارے ملک میں بنیادی طورپر دومشہور قومیں بستی ہیں، ایک ہندو، دوسری مسلم۔ ان دونوں قوموں کا اس ملک کے ساتھ وہی رشتہ ہے،جو سراور دل کا انسانی جسم کے ساتھ ہے‘‘۔ 1884ء کو گورداسپور میں اپنی تقریر کے دوران کہا : ’’اے ہندوواور مسلمانو!کیا تم ہندوستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے باشندے ہو؟کیا تم اس سرزمین پر زندگی نہیں گزارتے اور مرنے کے بعد یہیں کی مٹی میں دفنائے اور یہیں کے گھاٹوں پر نذرِ آتش نہیں کیے جاتے؟اگر تم سب اس ملک میں بستے ہو،تو اس حقیقت کو ذہن نشیں کرلو کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام ہندو،مسلمان اور عیسائی ایک قوم ہیں ‘‘۔ 1898ء میں سرسید کی وفات تک’’ہندوستانی قوم‘‘جیسا کوئی تصور اس ملک میں نہیں پایا جاتا تھا،حتی کہ کانگریس پارٹی کے بانیوں نے بھی اپنے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی تھی،سرآکٹیوین ہیوم’’Sir Octavian Hume‘‘(1829–1912)نے کانگریس پارٹی کو مختلف جماعتوں اور طبقات کا مجموعہ(A congeries of communities) قراردیا،نہ کہ ایک قوم۔ کانگریس کے تیسرے صدر بدرالدین طیب جی( 1844 –1906)نے تاکید کی کہ’’کانگریس ایسی مختلف جماعتوں کا مرکب ہے،جن کے اپنے خاص حل طلب مسائل ہیں ‘‘۔ معروف بنگالی سیاسی رہنما سریندرناتھ بنرجی (1848–1925)نے اپنی خود نوشت سوانح کا نام’’A Nation in the Making‘‘ رکھا۔

سرسیدایسے تہذیبی تنوع کے قائل تھے،جس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ریاست کے تمام طبقات کو برابر کا درجہ دیا جائے۔ یہ رائے کہ ملک کے تمام لوگ نہ صرف شہریت کے اعتبار سے؛بلکہ متعدد شناخت رکھنے والے مختلف طبقات کے ممبر ہونے کی حیثیت سے بھی متحد ہوں، لبرل ڈیموکریٹک روایات کا اعلیٰ ترین معیار ہے،جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ملک میں رہنے والے مختلف طبقات ایک دوسرے میں ضم ہونے کی بجاے اپنی اپنی شناخت پر قائم رہتے ہوئے متحد ہوں گے، ایسا نہیں کہ سارے طبقات کسی ایک مخصوص فکر و رنگ میں رنگ جائیں، اسی وجہ سے ہندوستانی دستور کے آرٹیکل نمبر29کے تحت مختلف تہذیبی شناخت رکھنے والے طبقات کو اپنی مخصوص بولی، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ کا حق دیا گیا ہے۔

 ایم اے او کالج کی اساس گزاری کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے سرسید نے کہا تھا:’’اگر کوئی یہ کہے کہ اس کالج کی بنیاد ملک کے ہندومسلم طبقات کے درمیان تفریق کے جذبے سے رکھی گئی ہے، تو مجھے یہ سن کر افسوس ہوگا،اس کالج کے قیام کی بنیادی وجہ ملک کے مسلمانوں کی مایوس کن صورتِ حال تھی،اپنی مذہبی عصبیت کی وجہ سے وہ حکومت کے ذریعے فراہم کردہ تعلیمی اداروں کا رخ بھی نہیں کررہے تھے،اسی وجہ سے ان کی تعلیم کے لیے خصوصی انتظام کرنا ضروری تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ شروع سے اب تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے بانی کے وژن پر قائم ہے اور اس نے کبھی بھی نسلی یا مذہبی تفریق سے کام نہیں لیا؛چنانچہ اے ایم یو کے کانووکیشنز میں زیادہ تر گولڈمڈلز ہندو طلبہ کو حاصل ہوئے ہیں، جبکہ ادارے کے اہم اور ممتازپیشہ ورانہ شعبوں کے چالیس فیصد طلبہ غیر مسلم ہیں۔ 1863ء میں سرسید کے ذریعے جس سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی، وہ اپنے خط و خال اور طرزِ عمل ہر دو اعتبار سے مکمل سیکولر تھی،اس ادارے کے انگریز ممبران کے علاوہ82ہندواور107مسلم ممبران تھے،حتی کہ ایم اے او کالج کی مجلسِ انتظامی کے 22؍ ممبران میں سے6؍ہندو تھے،اس کالج کے دوسرے نمبر کے استاذ کا نام شری بیجناتھ تھا،معروف ریاضی داں جے سی چکرورتی(J.C. Chakravarty)نے1888میں کالج جوائن کیا،پھر وہ رجسٹرار کے اہم و اعلیٰ منصب تک پہنچے،اس کالج کے پہلے گریجویٹ کانام ایشوری پرساد (Ishwari Prasad)تھا،جبکہ پہلے ماسٹر ڈگری حاصل کرنے  والے طالب علم کا نام امبا پرساد (Amba Prasad)تھا،معروف ہندوستانی کرکٹر لالہ امرناتھ بھی یہیں کے تعلیم یافتہ تھے۔

 حالیہ دنوں میں یوجی سی کی آڈٹ ٹیم کی جانب سے یونیورسٹی کے نام سے لفظِ ’’مسلم‘‘کو ہٹائے جانے کی سفارش سراسر غلط تھی۔ معروف تاریخ داں ہیملٹن گبس(Hamilton Gibbs)نے درست طورپر(؟) اے ایم یو کو (ہندوستان میں )’’پہلا جدیدیت پسند اسلامی ادارہ ‘‘قراردیاتھا،ہندوستان کے تیسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اسے’’ہندوستانی تکثیریت کی تجربہ گاہ‘‘کہاتھا؛لہذااس دانش گاہ کو ایک اقلیتی ادارہ کے طور پر پھلنے پھولنے دینا چاہیے؛تاکہ عالمی سطح پر ہمارے ملک کے تہذیبی تنوع اور جمہوریت کی علمی شناخت قائم رہے۔

تبصرے بند ہیں۔