آج پھرتلخی حالات نے سونے نہ دیا

سیف ازہر

حالات بہت سنگین ہیں ۔مسائل بہت زیادہ ہیں ۔ملک کے حالات کو دیکھا جائے یا اور کہیں کے ۔کس کو ترجیح دی جائے اور کس کو چھوڑ اجائے ۔کو ن ساموضوع اہم نہیں یاکون زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔نوٹ بندی سے مرنے والوں کا درد ہویا بھوپال فرضی انکاؤنٹر کا شاخسانہ ۔نجیب کی گمشدگی ہو یا اے ٹی ایم کے باہر لگنے والی لائن ۔داعش اور صیہونی حکومت کا ستم ہو یا فلسطینیوں کی چیخ وپکار ساتھ ہی اسرائیل کی خوفناک آگ ۔بہت سارے مسائل ہیں مگر آج مجھے سب سے زیادہ برمی مسلمانوں کی کسمپرسی نے پریشان کر رکھا ہے ۔تین سال پہلے شروع ہونے والی منظم نسل کشی کی مہم آج کل ایک بار پھر تیز ہوگئی ہے ۔2012 کے آخر میں برما دھسٹ بلوائیوں نے جووہاں کے مسلمانو ں کو جلانا اور مارناشروع کیا تھا وہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہو ا۔وہاں کوئی آزاد ذریعہ جانچ نہیں کر سکتا ۔ظاہر ہے دنیا کو وہی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں جو برمی حکومت اور اس کی ظالم فوج دکھائے گی ۔دنیا میں فی الحال برمی مسلمانوں سے مظلوم کوئی اور قوم نہیں ہے ۔دنیا میں کوئی آبادی فی الحال ایسی نہیں ہے جس کے پاؤں تلے زمین نہ ہو ۔دنیا میں صرف روہنگیا مسلمان ہیں جن کے سر پر کوئی سایہ ہے اور نہ ہی پاؤں کے نیچے زمین ہے ۔بدھ بلوائی اور برمی فوج گاڑیوں سے آکر ان کے گھروں پرحملے کرتے ہیں ان کی عورتوں کی عصمت دری کرتیہیں اور بالآخرجلا دیتے ہیں یا کسی طریقے سے مار دیتے ہیں ۔ایک ویڈیودیکھی آنکھ میں آنسو آگیے ۔دل بے چین ہوکر رہ گیا ۔ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ پر افسوس بھی ہو ا۔ ایک شخص کو کچھ لوگ گردن میں رسی ڈال کر پانی کے ایک گڑھے میں ڈالتے ہیں اس گڑھے میں پہلے سے کرنٹ دوڑا رکھا ہوتا ہے ۔وہ شخص جب ابل کر ادھ مرا ہوجاتاہے تو اس کوپھر گھسیٹنا شروع کرتے ہیں اس کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا ،لوگ اس کے پیچھے شور کرتے اورجشن مناتے ہوئے چلتے ہیں ۔اسی طرح ایک اور ویڈیو دیکھی ۔ایک میدان ہے اور جھاڑیوں کا سلسلہ ہے اس میں جگہ جگہ کٹی پھٹی لاشیں پڑی ہوئی ہیں ۔سیکڑوں لاشیں ہونگی ۔باخدا لاشوں کی وہ حالت دیکھی کہ آج تک میں نے اس طرح کسی جانور کی بھی لاش نہیں دیکھی ۔کوئی بڑا جانور نہیں ہم نے اس طرح کبھی کسی مسخ اور کٹے پھٹے چوہے کو بھی نہیں دیکھا۔ان سب کے پیچھے روہنگیا مسلمانوں کوبرما سے نکالنے کی مکمل منصوبہ بندی ہے ۔یہ بیج جو آج پورے برما میں پھیل گیا ہے اس کو 1962 کی فوجی آمریت نے بوئے تھے ۔یہ لوٹ مار اور بھگانے کی سازش1982؍میں برما میں پاس ہوئے قانون شہریت کی دین ہے ۔اس قانون نے انھیں نہ صرف حق شہریت سے محروم کیا بلکہ انھیں بنگلہ دیشی قرار دے دیا ۔1982کے بعد پیدا ہونے والے کسی بچے کو درج ہی نہیں کیا گیا ہے ۔برمی حکومت کے مطابق ایسے تقریبا40؍ہزار بچے ہیں ۔وہاں کوئی دو بچوں سے زیادہ پیدا نہیں کرسکتا اگر اس سے زیادہ کسی گھر میں پیدائش ہوئی تو 10؍کی قیدبہ مشقت کی سزاہے ۔ 2004کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کوشادی بیا ہ نقل وحرکت کسی بھی چیز کی اجازت نہیں ہے ۔قانون شہریت کے پاس ہونے کے بعد برمی مسلمان زمین پر رہتے ہوئے کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہوسکے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں 35؍ہزار مسلمان مارے اور 50؍ہزار سے زائدزخموں سے کراہ رہے ہیں ۔ساتھ ہی ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اس سلسلہ میں کئی چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے ۔برمی مسلمانوں کے لیے کوئی بھی کام اگر تھوڑ ابہت ہو اہے تو وہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی جانب سے ہوا ہے ۔اقوام متحدہ کایہ کوئی احسان نہیں ہے اس کاکام یہی تھا جواس نے کیا مگر پھر بھی قابل تحسین ہے ۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی تعدادتقریبا 13؍لاکھ ہے ۔(غیر سرکاری اعداد وشمارمیں صحیح تعداد تقریبا1؍کروڑ ہے )۔یہ برماکی آبادی کی دوسری بڑی اکثریت ہیں ۔برما میں تقربیا6؍کروڑ لوگ رہتے ہیں ان میں اکثریت بدھ مذہب کے لوگوں کی ہے ۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبہ رخائن میں تقریبا 1600؍سے زائد گھرو ں کو بلوائیوں نے آگ لگا دیا ہے ۔یواین کی ایک اورتازہ ترین رپورٹ کہہ رہی ہے کہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔رپورٹ نے یہ بھی کہا کہ بلوائیوں کے ساتھ برمی فوج بھی بچوں کو ذبح کر رہی ہے ،خواتین کی عصمت ریزی کر رہی ہے ،گولیاں مار رہی ہے اور گھروں کو بڑی تیزی کے ساتھ جلا اور لوٹ رہی ہے ۔ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی بے گھر ہے ۔ان کے پاس کوئی شہریت نہیں ہے مگران کو شہریت دلانے کے لیے کس نے کون ساقدم اٹھایا ہے یہ ابھی تک کم ازکم میرے علم میں نہیں ہے ۔اقوام متحدہ، امریکہ اور دنیا میں انسانی حقوق کے علم بردار تما م ملکوں کو لیبیا ،مصر،تیونس وغیرہ میں انسانی حقوق کی پامالی تو فورا دکھائی دے جاتی ہے اور یواین جو کہ اب امریکہ اور چاربڑی طاقتوں کا مہر ہ بن چکا ہے فورا بل پاس کردیتا ہے، حرکت میں آجاتا ہے ۔بمباریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ہتھیارو ں سے امداد شروع ہوجاتی ہے ۔لیکن 34؍سال سے برمی حکومت کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔اسرائیل میں آگ لگی ہے ،اسرائیل کے جنگلات جل رہے ہیں وہاں کوئی جانی نقصان کی اطلاع ابھی نہیں آئی ہے مگر امریکہ نے اپنی پوری توانائی اس آگ کو بجھانے پر صرف کردیاہے۔نہ جانے کتنے امریکی طیارے آسمان سے آگ بجھانے والی گیسوں کا مسلسل اخراج کر رہے ہیں ۔ظالم اسرائیل کی مددپر امریکہ اتنا متحرک ہے مگر ادھربرما کے مسلمانوں کے گھر جل رہے ہیں ان کے گھروں کو بجھانے کے لیے نہ تو کوئی طیارہ ہے اور نہ ہی کوئی گیس ۔میں نہیں کہتا کہ اسرائیل کی مدد نہیں کی جانی چاہئے مگرسوال یہ ہے کہ برماکی مدد کیوں نہیں کی جارہی ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ یہی آگ اگر فلسطین میں لگی ہوتی تو امریکہ اتنا متحرک کبھی نہیں ہوتا ۔اس واقعہ سے اور اس سے طرح نہ جانے کتنے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اور یورپ وہیں متحرک ہوتے ہیں جہاں ان کامفاد ہو۔وہ ایسی جگہ ہاتھ نہیں ڈالتے جہاں ان کامفاد نہ ہویا وہ مذہبایہودی اورعیسائی نہ ہوں ۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم غیروں کے رحم وکرم پر کیوں رہیں ۔پہلے برمامیں جب بھی کوئی بات ہوئی دنیا کے ساتھ ہندستانی مسلمان بھی کھڑے ہوئے ہیں مگر اس بار ابھی تک ہندستانی مسلمانوں کی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی ہے زیادہ ممکن ہے کہ یہ سب نوٹ منسوخی کی وجہ سے ہو ۔دوتین دنوں سے بنگلہ دیش ،پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ میں مظاہرے ہورہے ہیں مگر ہندستان میں کوئی مظاہرہ ابھی تک نہیں ہوا ہے ۔ایک طرف برمی مسلمان فوج اور بلوائیوں کے ظلم کا شکارہورہے ہیں اور دوسری طرف بنگلہ دیش نے ان کو اپنے ملک میں گھسنے سے روک دیا ہے ۔اب وہ جائیں تو کہاں جائیں ،نہ جانے کتنے برمی مسلمان گزشتہ کئی سالوں میں چھوٹی چھوٹی کشتی میں ادھر ادھر سمندر میں بھٹکتے رہے ۔دودو تین تین ماہ بھٹکنے کے بعد کوئی بھوک سے مر گیا کوئی ڈوب کر مر گیا ، نہ جانے کتنے لوگوں کو انسانی اسمگلروں نے لے جاکر بیچ دیا ۔مجھے یا د ہے گزشتہ سال ایک ایسی ہی سمندری کشتی میں کھانے کے لیے تقریبا 100؍برمی مسلمان لڑکر مر گئے تھے ۔ہمیں اقوام متحدہ امریکہ اور دنیا کے کسی بھی ملک سے توقع کیوں رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔دنیا میں 57؍مسلم ممالک ہیں ،وہ برما کی ظالم حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتے ۔اقوام متحدہ کوبرما پر کارروائی کرنے پر مجبور کیوں نہیں کرتے ۔اگر یہ سب نہیں کرسکتے تو پھر ان بے گھر مسلمانوں کا بہ حفاظت لاکر اپنے یہاں رہائش کیوں نہیں دیتے ؟۔کیا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا یورپ اور امریکہ کاہی حق ہے مسلم ممالک سے یہ حق کس نے چھین رکھا ہے ۔معاف کیجئے گاساری دنیا کے مسلمان فلسطینی مسلمانوں اور فلسطین کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں ۔میں نہیں کہتا کہ ان کی مدد نہیں8 کی جانی چاہئے مگرموجودہ دور میں برما کے مسلمان اس پورے روئے زمین پر نظر کرم کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ،کیونکہ ان سے زیادہ مظلوم دنیا میں اور کہیں کے مسلمان نہیں ہیں ۔جن کے پاس کوئی گھر نہیں ہے ،کوئی ملک نہیں ہے ،جان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ،کسی کوپتہ نہیں کی کب کہاں ماردئے جائیں گے ۔کب کہاں کون ان کوکون پیچ دے گا۔کب ان کا گھر جلا دیا جائے گا ۔کب ان کے بھائی اور باپ کا خون ہوجائے گا۔کب کس ماں اور بہن کی عزت لوٹ لی جائے گا ۔کب کس کا گھر جلا دیا جائے گا ۔کب کس کوظلم کی چکی میں ڈال دیا جائے گا ،بھلا ایسے لوگوں سے زیادہ مظلوم اورہماری نظر عنایت کا مستحق کون ہوسکتا ہے ۔آخرمیں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا 57؍مسلم ممالک کی زمیں اتنی تنگ ہے کہ وہ دس سے تیرہ لاکھ یاایک کروڑ ہی مان لیا جائے اپنے مظلوم بہن بھائیوں کو جگہ نہیں دے سکتے اور اگر نہیں دے سکتے تو کیوں؟۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔