آخر ذاکر نائک کا جرم کیا ہے؟

محمد شاہد خان
ذاکر نائک کون ہیں ان کے خلاف آخر اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہے ، یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں اور آخرذاکر نائک کاجرم کیا ہے ؟
ذاکر نائک پیشہ سے ڈاکٹر ہیں لیکن اللہ تعالی کو ان سے کوئی اور ہی کام لینا منظور تھاچنانچہ ربع صدی قبل انھوں نےدعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا۔ انھوں نے عام روایتی علماء کی طرح دعوت وتبلیغ کا کام شروع نہیں کیا اور نہ ہی انھوں نے کسی خاص مسلم گروہ یا فرقہ کے دائرہ میں محدود ہو کر اپنے کام کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی دعوت کا کام فتووں سے بھی نہیں شروع کیا، بلکہ براہ راست کتاب و سنت کی طرف دعوت دی جہاں نہ اندھی تقلید کا گزر تھا اور نہ اجتہاد پر کوئی پابندی تھی، اسلئے مسلکوں اور گروہوں میں بنٹے ہوئے مسلمانوں نے ان پر وہابیت کا لیبل لگا دیا اور وہی سب سے پہلے ان کے دشمن بن گئے ۔
دوسری طرف انہوں نے امت دعوت کو اپنا مخاطب بنایا اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کی، اسلام سے متعلق اغیار کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا جواب انہیں کی زبان میں دینا شروع کردیا اور اسلام کی حقانیت کو انہیں کی اپنی کتابوں سے واضح کرنا شروع کی۔
اللہ کی مدد اور توفیق سے وہ تبلیغ کے میدان میں بہت کامیاب رہے، اورجب لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہونے لگے تو مشنری اور ہندوتوا کی نیندیں اڑنے لگیں اور انھوں نے ذاکر نائیک کے خلاف سازشیں کرنا شروع کردیں ۔
اپنے مذہب پر چلنا، اسپر عمل کرنا، اسکی طرف بلانا اور اسکے نظریات کا پرچار کرنا ہر ہندستانی شہری کا آئینی حق ہے جسے اس سے چھینا نہیں جاسکتا اسلئے ذاکر نائک صاحب نے کوئی بھی آئینی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی ایسی تقریر پیش کی جاسکتی ہے جس میں انھوں دہشت گردی پر اکسایا ہو بلکہ ان کے ویڈیوز کو سیاق وسباق سے کاٹ کر یہ ہندستانی دجال اور بکاؤ میڈیا پیش کررہا ہے۔ رہی بات اسلامی نظریات کی تعبیرو تشریح کی تو جس طرح اسلاف کے نقطہ نظر میں آپسی اختلاف پایا جاتاہے اسی طرح ہم بھی ان سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن صرف اس بنیاد پر کہ فلاں دہشت گرد کسی کو فالو follow کرتا ہے اور پھر اسکے عمل کو کسی اور شخص کے سر منڈھ دیا جائے یہ سراسر نا انصافی ہے، ہم اپنے باپ سے دسیوں معاملات میں اختلاف کرتے ہیں اور سیکڑوں معاملات میں ان سے متفق ہوتے ہیں تو کیا ہماری غلطیوں کی سزا ہمارے باپ کو دی جاسکتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان جو ٹیلیویزن اور فوٹو کے جواز کیلئے علماء سے فتوے پوچھتا ہے خبروں کے معاملے میں برہمن میڈیا پر پورا بھروسہ کرلیتا ہے۔ اسوقت پوری بھارتی میڈیا پر برہمنوں کا قبضہ ہے اور سارے چینل اور اخبارات والے پیکیج بیچتے ہیں آج ہر چیز کمرشیل ہے اس بازار میں ہر چیز بکاؤ ہے بتایئے کسے کیا خریدنا ہے۔
مسلمانو جب فسادات ہوتے ہیں تو یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ یہ وہابی مسلمان ہے یا دیوبندی مسلمان ، بریلوی مسلمان ہے یا کوئی اور مسلمان اور بلا تمیز تمہاری املاک کو برباد کردیا جاتا ہے عصمتوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، اور قتل غارتگری کا بازار گرم کردیا جاتا ہے۔
دراصل اس پردۂ زنگاری کے پیچھے کچھ اور ہی راز ہے۔
موجودہ سرکار اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر جذباتی ایشوز پر کام کررہی ہے اور آج بھی انگریزوں کی طرح divide and rule کے اصول پر عمل پیرا ہے۔ گجرات ماڈل کو پورے بھارت پر آزمایا جارہا ہے دادری میں اخلاق کا واقعہ ، اودےگڑھ راجستھان میں دو مسلمانوں کا قتل
مظفر پور کا فساد ، لو جہاد ، گئو کشی وغیرہ یہ سارے مسائل اصل مسائل سے بھٹکانے کے نسخے ہیں۔
یوپی کا الیکشن قریب ہے اور انھیں معلوم کہ اگر مسلمانوں نے متحد ہوکر ووٹنگ کی تو سماجوادی پارٹی یا بہوجن سماج کی سرکار بنے گی۔ لیکن اگر ڈاکٹر ذاکر نائک کا نسخہ کارگر ہوا تو دیوبندی وہابی اور بریلوی ووٹوں کا بٹوارہ ہوجائے گااور پھر یوپی میں اقتدار کا راستہ صاف ہوجائے گا ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے peace tv چینل پر پہلے ہی سے ہندستان میں پابندی عائد ہے اب مزید کون سی پابندی لگائی جائے گی ان کو پہلے ہی سے ہر جگہ پروگرام کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی تو اب کونسی آزادی کے خاتمے کا ڈر ہے اور انھوں نے ایسا کونسا جرم کیا کہ جسکی وجہ سے ان پر فرد جرم عائد کردی جائے اور پھر انھیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔
آج ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف سلگائی ہوئی بھٹی میں اپنے بھی اور غیر بھی اپنی مصلحتوں کی روٹی سینک رہے ہیں اور ان کوبدنام کرنے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں ‘ويمكرون ويمكر الله والله خير الماكرين
یہی ہندستان ہے جہاں سے خلافت کو بچانے کیلئے مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کی بھی آوازیں اٹھی تھیں۔ اسی ہندستان سے مظلوم فلسطین کی حمایت میں بھی آوازیں اٹھتی تھیں اور آج یہی ہندستان ہماری نااہلی اور آرایس ایس کی محنتوں سےایک غیر معلنہ ہندو اسٹیٹ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اور ہندستان میں ایکبار پھر اسپین کی تاریخ دہرانے کا خواب دیکھا جارہا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔