نظام کی ناکامی کے معنی !

عالم نقوی

جنگ عراق میں لاکھوں بے گناہوں کی ہلاکت کے تیرہ سال بعد سر جان چلکاٹ Sir John Chilcot انکوئیری کمیشن رپورٹ کہتی ہے کہ 2003 کی جنگ عراق میں برطانیہ کی شمولیت کا وزیر اعظم ٹونی بلئیر کا فیصلہ غلط تھا۔ اس وقت کے نائب وزیر اعظم برطانیہ جان پریسکاٹ John Prescott تیرہ سال بعد اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ عراق غیر قانونی تھی ! چلکاٹ کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربِن Jeremy Corbyn اور جان پریسکاٹ کہتے ہیں کہ وہ جنگ عراق میں برطانیہ کی غلط شمولیت کے لیے معافی مانگنے کو تیار ہیں !
شمال مشرقی ہندستان میں افسپاAFAPA کے نفاذ کے 58سال بعد اور جموں کشمیر میں افسپا کے نفاذ کے 38 سال بعدمظاہرین کے نہتے ہجوم پر فائیرنگ اور بے گناہوں کے فرضی الکاؤنٹروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد شمال مشرق سے لے کر جموں کشمیر تک ہزاروں میں پہنچ چکی ہے سپریم کورٹ نے جمعہ 8جولائی 2016کو یہ فیصلہ سنایا ہے کہ قیامِ اَمن کے نام پرشہری علاقوں میں فوج کی بے مدت تعیناتی فوج اور حکومت دونوں کی ناکامی اور ملک کے جمہوری عمل سے کھلواڑ کے مترادف ہے !
برطانیہ سے لے کر اس کی سابق کالونی بھارت تک کیا یہ دونوں فیصلے نظام حاضر کی مکمل ناکامی کے مظہر نہیں ہیں ؟ کیا یہ نہیں بتاتے کہ عوام خواہ تعلیم یافتہ یورپ اور امریکہ یا آسٹریلیااور کناڈا کے ہوں یا ان کے مقابلے میں نسبتاً جاہل ایشیا اور افریقہ کے، فی ا لحقیقت بے اوقات اور یکساں طور پر کمزور اور بے یارو مددگار ہیں !
جنگ عراق سے قبل 2002میں یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں عوام نے جنگ مخالف مظاہرے کیئے تھے جس میں بلا مبالغہ کروڑوں لوگوں نے حصہ لیا تھا،  لیکن بش اور بلئیر، ان کی حکومتوں اور اس نظام نے جو دنیا پر غالب ہے۔ کب کسی کی سنی؟ صدام حسین کے پاس عمومی تباہی کے ہتھیاروں WMD’s کے ذخیروں کی جھوٹی کہانیاں خانہ زاد انٹلی جنس ایجنسیوں اور زرخرید میڈیا کے ذریعے پھیلا کر، 2003 میں عراق پر دوبارہ حملہ کر دیا گیاجس میں لاکھوں بے گناہ عراقیوں کی جان گئی اور صدام حسین کو پھانسی دی گئی۔
ستمبر 2015میں مغربی بنگال کے ایک بہادر صحافی کشالے بھٹا چار جی کی ایک یادگار دستاویزی کتاب Blood on My Hand ہارپر کولنس پبلی شر نے شایع کی تھی جس میں شمال مشرقی ریاستوں میں افسپا کے نام پر سیکیورٹی فورسز کے کالے کارناموں کا کچاچٹھا ہے۔اس کے علاوہ خود دو دو کشمیریوں افتخار گیلانی اور انجم زمرد حبیب کی کتابیں My Days in Prison اور۔ قیدی نمبر 100اور مینو مسانی نیز اے جی نورانی کی غیر معمولی کتابیں مسئلہء کشمیر پر نہایت قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر حکومتوں کی صحت پر، خواہ ہندستان کی ہوں یا پاکستان کی، کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اس کے معنی اس کے سوا اور کیا سمجھے جائیں کہ نظام حاضر میں عوام دوستی اورحقوق انسانی کے احترام اور پاسداری کا شائبہ تک نہیں ہے اور محض چلکاٹ کمیشن کی رپورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلوں سے اس میں عوام دوستی اور احترام انسانیت کی روح نہیں پھونکی جا سکتی۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے کے ذریعے مسلح افواج کے بے محابہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے(دیکھیے 9 جولائی کے تمام اخبارات، با لخصوص دی ہندو اور انڈین ایکس پریس ) لیکن،  وہ کس حد تک عملاً مؤثر ہوں گے، اور عوام کے جمہوری اور انسانی حقوق کس حد تک بحال ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گاْ۔
کشمیر کے موجودہ حالات با لخصوص رمضان کے آخری ایام، عید اور اس کے بعد پیش آنے والے سنگین، اندوہناک واقعات گواہ ہیں کہ پولیس، مسلح افواج، ریاستی حکومت، مرکزی حکو مت، مقامی ابن ا لوقت سیاسی پارٹیوں اورمختلف کشمیری تنظیموں، کانگریس پریوار اور یرقانی سنگھ پریوار نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے !سیاسی اور انسانی مسائل کو طاقت، قوت اور اس کے اندھے استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتا !
امریکہ سے یورپ تک اور ایشیا سے افریقہ تک جتنے سیاسی نظام رائج ہیں ان کی اکثریت عوام دشمن، انسان دشمن اورانصاف دشمن ہے ! ظلم اور منافقت کے ذریعے دنیا کے کسی گوشے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔
دنیا بھر میں جاری ہر طرح کی دہشت گردی، بد عنوانی اور بد امنی کا ایک ہی علاج ہے، صرف ایک علاج اور اس کا نام ہے : انصاف ! جو داخلی اور خارجی اور عملی ہر سطح پر انسان دوستی اور عوام دوستی سے عبارت ہو۔ اور ایسا جامع نظام انصاف،  اِس کائنات کے خالق و مالک و پالن ہار اور اس کے مقرر کردہ آخری یوم حساب کے خوف کے بغیر قائم اور نافذ نہیں ہو سکتا ! اور ہمیں کتنا ہی نا پسند کیوں نہ ہو، دنیا بہت تیزی سے اُسی آخری یوم احتساب و قیام انصاف کی طرف بڑھ رہی ہے۔ زمین کے ان تمام ظالم خداؤں اور ان کے مددگار سبھی بندگان ابلیس کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ان کا کیا حشر ہونے والا ہے ! انشاء اللہ ! وسیعلموا لذین ظلموا ای منقلب ینقلبون !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔