اسمرتی ایرانی کے نام برکھا دت کا کھلا خط

 ڈیئر اسمرتی،

جانتی ہوں مخاطب کرنے کا یہ طریقہ آپ کو کافی غیر مناسب اور قابل اعتراض لگتا ہے، لیکن پھر یہ ان بے شمار تنازعات میں سے ایک بھی تو ہے جو ان غیرضروری جھگڑوں کی پہچان بن گیا ہے جن میں کئی دفعہ آپ خود ہی الجھ پڑیں. ٹھیک ہے، اس خط کو آپ ان طنز بھرے ‘میں نے- کہا- تھا- نا’ کی طرز پر شائع تحریروں میں سے ایک نہ سمجھیں جو گزشتہ دنوں آپ کو لکھے گئے ہیں.

بلکہ اگر ہم ان تنازعات کی گہرائی میں جائیں جن میں آپ گاہے بگاہے پڑ چکیں ہیں تو ہم پائیں گے کہ آپ پر کئے گئے وہ ٹھٹول، بےڈھنگے مذاق، بے بات کی کانا پھوسی اور بیہودے اشارے – مکمل طور پر خواتین مخالف تھے. کوئی بھی مرد نیتا، پھر وہ کتنا بھی متنازع، یا گھمنڈی یا سخت کیوں نہ رہا ہو اس سطح کی بیان بازی کا شکار نہیں ہوا ہے.

ایک ناری وادی ہونے کے ناطے ہمیں خواتین کے ساتھ ہونے والی عصبیتوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے – اور میں کہوں گی کہ جب بھی آپ اس کا شکار ہوئی ہیں، ہم کھڑے ہوئے ہیں. پھر وہ شرد یادو کا پارلیمنٹ میں آپ پر کیا گیا طنز ہو، یا پھر کانگریس سے جڑے تحسین پونا والا کا ‘no HRD feelings’ والا كھلنڈرانہ بیان – ہم نے ان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے. کم از کم میں اپنے لیے تو یہ کہہ ہی سکتی ہوں. یہ اس ڈراؤنے سچ کو دکھاتا ہے جن سے کامیاب اور آزاد خواتین کو ہوکر گزرنا پڑتا ہے.

میرا اختلاف تو آپ سے جڑی اس بحث سے ہے جو آپ کے انسانی وسائل سے کپڑا وزارت میں شفٹ ہونے کے بعد شروع ہوئی ہے. مجھے دشواری اس بات سے ہے کہ ایک طرف آپ کے حامی آپ کو اس امتیازی رویہ کے شکار کی طرح پیش کر رہے ہیں جو اکثر خواتین کے ہی حصے لگتا ہے، وہیں آپ ‘ایک بار بھی’ اس جنسی امتیازی رویہ کے خلاف کھڑی نہیں ہوئیں جس سے خواتین کو سوشل میڈیا اور اس کے باہر آئے دن دو چار ہونا پڑتا ہے.

ستم ظریفی دیکھئے کئی بار آپ کا رویہ دوسری خواتین کے تئیں اتنا ہی بے رخا اور خراب ہوتا ہے جیسا دوسروں کا آپ کے تئیں رہتا ہے. بطور وزیر تعلیم آپ کے لئے گئے فیصلوں سے میں نظریاتی طور پر کتنی بھی مخالف کیوں نہ رہی ہوں یا پھر مجھے دیئے ٹی وی انٹرویو میں آپ کی باتوں میں میرے تئیں کتنی بھی تلخی کیوں نہ رہی ہو، لیکن اس کے باوجود آپ کے کام پر سوال اٹھاتے وقت میں نے اپنی زبان اور کلمات کے حدود کو کبھی تجاوز نہیں کیا.

نہ ہی اس سے میرے دل میں آپ کی ہمت، آپ کے حوصلے اور آپ کے اب تک کے اس سفر کے تئیں احترام کم ہوا ہے جسے آپ نے اپنے طور پر مکمل کیا ہے.

وہیں دوسری طرف ایسا لگتا ہے جیسے ان خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی یا پریشانیوں سے آپ  کو کافی لطف ملتا ہے جن سے آپ کے ذاتی یا سیاسی خیالات میل نہیں کھا پاتے. آپ انہیں اس رتی بھر اعزاز سے بھی محروم رکھتی ہیں جس کی وہ حقدار ہیں. مجھے یاد ہے حال ہی میں امیٹھی کے ایک ڈھابے پر میں نے آپ کا انٹرویو کیا تھا – جہاں مجھے واقعی میں لگتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں آپ نے راہل گاندھی کو تگڑی ٹکر دی تھی. آپ کے جوشیلے حامی ہمیں اس کمزور سے پٹئے کے ارد گرد گھیر کر کھڑے ہوئے تھے جو ان کے ایک ہاتھ پڑنے سے کبھی بھی ٹوٹ سکتا تھا، وہ مکمل ماحول آپ کی فصاحت، آپ کے جلوہ اور آپ کو زمین سے جڑے رہنما کے طور پر پیش کرنے کے لئے بہت مناسب تھا . اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے بے تکلف ماحول میں راہل گاندھی نہ ہی اتنے پرسکون ہو پاتے اور نہ ہی چائے اور نمکین کے دور کے ساتھ بہت سے آنے جانے والوں کے درمیان انٹرویو دے پاتے.

ظاہر ہے وہ آپ کا دن تھا کیونکہ آپ اپنے علاقے میں، اپنے لوگوں کے درمیان تھیں. لیکن مجھے حیرانی ہوئی کہ انٹرویو کے دوران آپ کتنی تلخ، کتنی ذاتی ہوتی چلی گئیں. جب میں نے آپ سے پوچھا کہ وزارت میں ابھی تک کی مدت میں کیا آپ کو کسی بات کا افسوس ہے تو آپ نے جوہری سائنسدان انل كاكوڈر پر قانون شکنی کے الزام لگانے کی بات نہیں کی، آپ نے جے این یو مسئلے کی بھی بات نہیں کی اور نہ ہی دلت طالب علم روہت ویمولا کی خودکشی کی. آپ نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا – ‘مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو اور آپ کے چینل کو انٹرویو دے رہی ہوں.’ گویا کہ آپ نے ٹوئٹر پر اپنی ٹرول فوج کے ذریعہ ٹرینڈ کئے جانے والے  #SmritiSlapsBarkha کا اندازہ پہلے ہی لگا لیا تھا. اس کے بعد آپ نے میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں کافی قابل مذمت خیالات سامنے رکھے لیکن اس بحث میں نہ پڑکر شاید میں نے آپ کو مایوس کیا.

انٹرویو میں ہی آپ نے ٹوئٹر پر کانگریسی ترجمان پرینکا چترویدی کے ساتھ ہوئی بحث کے لئے حیرت انگیز طور پر کہا کہ آپ نے تو ‘اس عورت کو جواب دے کر اس کی سست پڑی سیاسی زندگی کو ایک نئی ہوا دی ہے.’ پرینکا چترویدی جنہیں سوشل میڈیا پر ریپ کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور ٹویٹر پر یہ بات گھوم پھر کر آپ کے ساتھ بحث پر جاکر ختم ہوئی. میں بتا دوں کہ چترویدی کے ساتھ میری بھی کئی معاملات پر آن لائن کافی تو تو میں میں ہو چکی ہے – جیسے کہ حال ہی میں رابرٹ واڈرا سے جڑی ہماری ایک نیوز رپورٹ پر جس میں کہا گیا تھا کہ انکم ٹیکس محکمہ لندن میں ایک گمنام جائیداد کے سلسلے میں واڈرا سے پوچھ گچھ کر رہا ہے- لیکن  بد زبانی اور جنسی اہانت کے لئے کیا کوئی صفائی دی جا سکتی ہے. ایسی بدسلوکي کی تو کوئی وضاحت دی ہی نہیں جا سکتی نا! لیکن اس کے باوجود کسی طرح کی ہمدردی نہ دکھاتے ہوئے آپ نے کہا کہ کچھ صحافیوں نے آپ کو بتایا ہے کہ پرینکا کا کیریئر رو بہ زوال تھا اور ‘آپ نے اسے بچا لیا.’ آپ نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے بارے میں بھی کافی اناپ شناپ کہا جاتا ہے، لوگوں نے آپ کے بچوں تک کو نہیں بخشا، لیکن آپ کا صرف ایک ہی مول منتر ہے – ‘اگر آپ کے بس کی بات نہیں ہے تو کھیل سے باہر ہو جائیے. ٹویٹر پر ٹرول کرنے والوں کے خلاف یہی میرا منتر ہے. ‘

اپنے آپ کو بے چارہ بتانے کی اس سوچ کے خلاف آپ کا یہ جو فلسفہ ہے اس سے میں بھی متفق ہوں. مجھے بھی آن لائن کیا کیا نہیں کہا گیا، طوائف، کو **، رن **، میں نے تو گننا بھی بند کر دیا ہے. میرے تکثیری نظریہ کو میرے ان مسلمان شوہروں سے جوڑا گیا جو کبھی رہے ہی نہیں. میرے موبائل نمبر کو آن لائن شیئر کیا گیا تاکہ مجھے ہفتہ در ہفتہ وہاٹس ایپ پر پریشان کیا جا سکے اور ڈیئر اسمرتی، اگر آپ کو ‘آنٹی نیشنل’ کے عہدے سے نوازا گیا ہے تو میں بتا دوں کہ مجھے بھی ‘سكيولر’ اور ‘اینٹی نیشنل پروسٹيٹيوٹ ‘سے کم میں نہیں چھوڑا گیا. لیکن ان سب کے باوجود آپ ہی کی طرح میں بھی اپنی بات رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹی، تمام بحثوں میں پڑتی رہی اور آپ ہی کی طرح ٹرولس کی چھٹی کرتی رہی.

شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے حیرت ہوئی جب آپ اپنے اوپر کئے ایک مذاق کو بھی برداشت نہیں کر پائیں اور بہار کے وزیر تعلیم کے ذریعہ آپ ‘ڈیئر’ کہنے پر ان سے بغیر بات کے لڑ پڑیں – جس کے بعد آن لائن جو ہوا وہ کسی سے چھپا نہیں ہے. خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیاز کے خلاف کھڑی نہ ہوکر آپ ایسی چھوٹی لڑائیوں میں الجھی رہیں – یہی نہیں اس معاملے نے تو اس مسئلہ کی سنگینی کو چھوٹا کر دیا جس سے خواتین کو ہر دن دو چار ہونا پڑتا ہے.

جس وقت ‘او ڈیئر’ ٹرینڈ کر رہا تھا، میں نے بھی مذاق میں کہہ دیا تھا کہ میں بھی ایک ایسے وزیر کی ‘ڈیئر’ بننا چاہتی ہوں جو مجھے پسند نہیں کرتیں – لیکن آپ نے الٹا لیا. آپ نے سمجھا میں بھی آپ کو ٹرول کر رہی ہوں – اور یہ سب آپ اس وقت کہہ رہی ہیں جب خود آپ نے ہزاروں خواتین کے ساتھ ہونے والے تشدد اور ظلم کی کبھی بھی عوامی طور پر مذمت نہیں کی ہے. مجھے حیرانی ہوئی کہ ‘ڈیئر’ لفظ پر میرا کیا گیا ایک چھوٹا سا مذاق آپ اپنے ایک فیس بک پوسٹ پر بھی لے گئیں. آپ کی پوسٹ میں آپ نے عورتوں کو ‘منہ بند’ رکھنے کی صلاح دینے والوں کے خلاف ایک قابل غور بات رکھی. آپ نے لڑکیوں کو خاموش رہنے کی روایت کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کہی، آپ نے کہا کہ شرم تو ان کو آنی چاہئے جو خواتین کے خلاف ایسی سوچ رکھتے ہیں. آپ نے سیاست کی دنیا میں اپنی ‘سخت مقابلہ آرائیوں’ کو بیان کیا، کہ کس طرح آپ کو ان پڑھ کا طعنہ دیا جاتا رہا، کس طرح آپ کو بار بار چپ رہنے اور ظلم سہنے کے لئے کہا جاتا رہا – لیکن آپ پیچھے نہیں ہٹیں.

آپ کی یہ پوسٹ وائرل ہو گئی – اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں کہا گیا ایک ایک لفظ سمجھنے اور سوچنے کے قابل تھا. لیکن پھر جیسا کہ میں نے کہا مجھے آپ کی دوہری سوچ کا احساس ہوا. کیوں آپ ان عورتوں کے ساتھ تال میل نہیں بٹھا پاتیں جو یہی سب برداشت کرتی آ رہی ہیں، پھر بھلے ہی وہ آپ کو ناپسند ہی کیوں نہ ہوں؟ کیوں آپ اپنی سوشل میڈیا فوج کے آگے اتنا جھک جاتی ہیں کہ عوامی طور پر خواتین کی توہین کرنے کے لئے آپ انہیں ایک بری پھٹکار بھی نہیں لگا پاتیں؟ شاید اس لئے کیوں کہ  یہ وہ خواتین ہیں جو آپ کی اور آپ کی حکومت کی تنقید کرتی ہیں – دوسرے الفاظ میں کہوں تو جو اپنا کام کر رہی ہیں؟

اپنی فیس بک پوسٹ پر آپ نے مجھے ان میں سے ایک بتایا جو چھوٹی سی بات پر بھی تحریک نسواں کا جھنڈا بلند کر کے کھڑی ہو جاتی ہیں جس پر میں کہوں گی کہ مجھے میرے حقوق نسواں کی علمبردار ہونے پر رتی برابر بھی افسوس یا گلہ نہیں ہے. وہیں دوسری طرف آپ اور آپ کے حامی تو ضرورت کے حساب سے تحریک نسواں کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں، خاص طور پر اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے یا پھر اس کے بعد جب آپ خود کسی امتیازی کڑواہٹ کا شکار ہوتی ہیں. باقی وقت تو آپ اور آپ کے سوشل میڈیا بریگیڈ، گالی گلوچ، بدسلوکی اور بے حیائی کے خلاف ‘خاموش نہیں رہنے’ والی ہم جیسی خواتین کو ڈھونگی ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں اور لگے ہاتھ موٹی چمڑی ہونے کی صلاح دے ڈالتے ہیں. گلوکار ابھیجیت نے حال ہی میں ایک سینئر صحافی کو سرعام ‘بے شرم بڑھیا’ کے ساتھ ساتھ  کافی نازیبا بات کہی. کیا اس صحافی کو منہ بند کر لینا چاہئے یا پھر ایسی زبان کے لئے گلوکار کے خلاف کیس درج کرنا چاہئے؟ اپنی پہلی کتاب میں جب میں نے بچوں کے جنسی استحصال سے جڑے اپنے تلخ تجربے کو شامل کیا تو دائیں بازو ٹرول نے نہايت ہی گھٹیا زبان میں دعوی کیا کہ – یہ سب میں نے توجہ بٹورنے کے لئے کیا ہے.

لیکن میں تب بھی ‘خاموش نہیں’ بیٹھی تھی اور نہ ہی اب ‘خاموش’ بیٹھوں گی، ڈیئر اسمرتی، کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا: ایک عورت ہونے کے ناطے آپ کے حقوق کے لئے ہم ہمیشہ کھڑے رہیں گے، لیکن یہ بھی صاف ہے کہ آپ ہمارے لئے کبھی کھڑی نہیں ہوں گی. ایک مضبوط عورت ہونے کے ناطے آپ برابری کی لڑائی کی اگوائی کر سکتی ہیں لیکن افسوس کہ آپ نے ہمیں مایوس کیا …!

برکھا دت 

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔