آزادی کا اسلامی تصور اور عالمی برادری

قمر فلاحی

آزادی انسانوں کی جبلت nature  میں داخل ہے کیوں کہ انسان  فطری طور پہ آزاد پیدا ہوا ہے، مگر ایک حقیقت اور بھی ہے کہ انسانوں کی یہ جماعت جو آزادی کو دل و جان سے پسند کرتی ہے ہمیشہ دوسروں کی آزادی سلب کرنا بھی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے، انسانوں کی یہ جماعت ایک غلامی سے آزاد ہوتی تو دوسری غلامی خود قبول کرلیتی ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ غلام ہے۔ جبکہ یہ صفت جانوروں میں نہیں ہے۔

غلام قومیں لوگوں کو غلام بنانے کا روز خواب دیکھاکرتی ہیں، اور جو قومیں لوگوں کے حقوق سلب کرنے کی پیہم کوششیں کرتی ہیں وہی آزادی کا علمبردار بن کر دنیا کو شعبدہ بازی دکھاتی ہیں، غلامی کو آزادی کا نام دیتی ہیں اور دنیا اسے تسلیم بھی کر لیتی ہے۔

کائنات میں صرف اسلام ہی آزادی کا علمبردار رہا ہے، اس کے آزادی کے رہنماء اصول ہر زمانے میں یکساں رہے ہیں، اسلام نے مخصوص اور محدود آزادی کا تصور دنیا کو دیا ہے جبکہ دنیا میں لوگوں نے آزادی کو ہی آزاد کردیا۔

ابتدائے آفرینش سے ہی انسان آزاد ہے مگر ساتھ ہی اس کی آزادی محدود بھی ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمانے کے بعد فرمایا:

  وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ  البقرہ ۳۵۔

 کہ تو جنت میں جہاں چاہے گھوما پھراکر، جو چیز بھی تمہیں پسند ہو اسے کھالیا کر اور اپنی بیوی سے لطف اندور ہوا کر مگر ہاں صرف اس پیڑ کے قریب مت جانا۔ معلوم یہ ہوا کہ انسان کو پہلی آزادی کھانے پینے، اور گھومنے پھرنے کی دی گئ اور بیوی کے ساتھ آزادانہ رہنے کو دیا گیا ان آزادیوں میں جو بندش لگائ گئ وہ یہ تھی کہ صرف ایک پیڑ کا پھل نہیں کھانا ہے۔ گویا معلوم ہوا کہ آزادی زیادہ ہے اور بندشیں کم ہیں۔

اب اس پیڑ کے پھل کھانے کے بعد جو معاملہ ہوا وہ سب جانتے ہیں کہ حضرت آدم اور حوا علیھما السلام ننگے ہوگئے اور پتوں سے ستر پوشی کرنے لگے۔

فَدَلاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ۔ الاعراف ۲۲۔

اب سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اس سے پہلے انہوں نے لباس پہن رکھا تھا؟ اگر ہاں تو پھر اسی لباس کو  دوبارہ پہن لیتے، پتوں کی کیا ضرورت تھی، مگر نہیں آدم و حوا علیہ السلام نے کوئ ظاہری لباس نہیں پہن رکھا تھا بلکہ تقوی کا لباس پہن رکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ الاعراف ۲۶۔

تقوی کے لباس کے بعد جنسی برہنگی کا احساس ہی نہیں تھا کہ کون کس حال میں ہے مگر جب حکم الہی کا انکار کیا اور حرام غذا اندر داخل ہوئ تو تقوی کا لباس اتر گیا ایک دوسرے کا عیب نظر آگیا۔ ۔

آج شیطان نے دنیا والوں کو آزاد کر دیا کہ جو جی میں آئے کھائو پیو مگر حلال نہ کھائو کیوں کہ  اسے کھانے کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے۔

اب میں طوالت سے بچنے کیلئے آخری کڑی میں آجاتاہوں آج دنیا میں اتنے کپڑے تیار ہوتے ہیں کہ اس کے ذریعہ پورے کرہ ارض کو لپیٹا جاسکتاہے مگر کیا انسان اپنی  اس آزادی کا استمعال اپنے جسم کو ڈھاپنے کیلئے کر رہا ہے؟  پھر لباس کا مطلب کیا ہے ؟ ذہنی اور دماغی طور پہ غلام قوموں نے اپنی شعبدہ بازی کے ذریعہ دنیا کو بتادیا اور دنیا نے مان بھی لیا کہ لباس پہننا اور پہنانا آزادی کے خلاف ہے چنانچہ پردہ نسواں پہ اعتراضات اسی کی ایک کڑی ہے۔

دنیا میں دو عالمی جنگیں صرف آزادی سلب کرنے کیلئے لڑی گئیں، آج پوری دنیا میں تمام ممالک کو محدود آزادی حاصل ہے۔ پوری دنیا پانچ ممالک کی غلامی کرنے پہ مجبور ہے جنہیں ویٹو پاور حاصل ہے مگر حیرت ہے کہ سارے ممالک بڑے فخر سے کہتے ہیں ہم آزاد ہیں۔

آج پوری دنیا کا بچہ بچہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا غلام ہے اور ہر کوئ یہ کہتاہے کہ ہم آزاد ہیں۔ اپنے دماغ سے کوئ سوچتا نہیں صرف کاپی پیسٹ کرتا رہتاہے اور کہتاہے کہ ہم آزاد خیال ہیں اپنی مرضی سے سوچتے ہیں۔ سرخیاں دیکھتے ہی اپنے ذہن میں مضمون بنا لیتا ہے اور کہتا ہے ہمارا دماغ آزاد ہے۔

ہاں میرے بھائ ہم ایک جگہ پہ ضرور آزاد ہیں کہ اس سوشل میڈیا کے ذریعہ جسے چاہیں ننگا کر سکتے ہیں، خوہ وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہواور کسی کو بھی ننگا دیکھ سکتے ہیں، اور جسے چاہیں بھدی بھدی گالیاں دے سکتے ہیں، کسی کی پرسنل اور بیڈروم کی خبریں جب چاہیں جہاں چاہیں بھیجنے میں آزاد ہیں۔ ہاں ہمیں آزادی ہے کہ جو جی میں آئے بول سکتے ہیں کیوں کہ کوئ ہمارا نگراں نہیں رہا، ہمیں کسی اخلاقیات کی حد نہیں معلوم۔

خوشی منائیے کہ اس میڈیا نے ہمیں اتنی آزادی فراہم کردی ہے کہ دس میٹر کے فاصلہ پہ جب کوئ اپنا ہوتا ہے تو ان سے بھی اسی کے ذریعہ بات ہوجاتی ہے، ان کے پاس جانے کا وقت نہیں ہوتا۔ بیمار کی عیادت کے وقت، میت کی تعزیت کے وقت، دعوتی اور اصلاحی اجتماعات میں، مسجد اور مدرسوں میں ہمیشہ ہم فیسبک یوٹیوب اور وہاٹس اپ یونیورسٹی میں گھسے رہتے ہیں۔ یہ آزادی ہمیں ضرور میسر ہے میرے دوست۔

ایسی آزادی کا اسلام قائل نہیں ہے۔ اسلام انسانی آزادی کو اللہ تعالی کے احکامات کے ساتھ تسلیم کرتاہے، اسلام نے تمام مخلوقات کی الگ الگ آزادی طے کر رکھی ہے اور یہ تعلیم دیا ہے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق کی آزادی میں دخل اندازی نہ کرے۔

ہم نے جنگلوں کو اجاڑنا شروع کردیا، جانوروں کو قید کرنا شروع کردیا، فطری چیزوں کی جگہ مصنوعی چیزوں کو فروغ دینا شروع کردیا اور ہم ہی کہتے ہیں سب آزاد ہیں۔

ظالم نے بنا کی ہے اب ظلم نیا کرنا

پر کاٹ کے بلبل کا پنجرے سے رہا کرنا

آج کے مسلمان بھی عجیب ہیں اسلام سے آزادی کو آزادی سمجھنے لگے ہیں، کل تک جن کی انگلیوں کے سہارے چلنے کا ہنر سیکھا آج کہتے ہیں آپ کو چلنا نہیں آتا، آپ نے دنیا کہاں دیکھی ہے۔ کہتاہے کہ میں کسی کی نہیں سنتا اپنی مرضی کا کرتا ہوں ہاں وہ اپنی مرضی کا ہی کرتا ہے کیوں کہ وہ اپنی مرضی کا غلام ہے۔ کہتا ہے میں بڑا طاقت ور ہوں مگر اس کی طاقت سے کسی کمزور کو انصاف کیا ملیگا رات و دن اپنے ظلم سے لوگوں کا جینا محال کیا ہے۔

آج دین پرائیویٹ معاملہ ہوگیا ہے  یہ آزادی ہمیں دی گئی ہے مگرہم  کیا کھائیں گے اس کا فیصلہ دھرم کے ٹھیکیدار کریں گے۔

اسلام نے آزادی کا ایک اصول دیا ہے وہ یہ ہیکہ اللہ کی حدیں [حرام وحلال] بتائی جاچکی ہیں انسان پہلے ان حدوں کو جان لے اور اسی کے درمیان رہے تو وہ کبھی غلامی کا شکار نہ ہوگا۔ نہ فرد کا، نہ اجتماعیت کا، اور نہ عالمی برادری کا۔

جس کسی کو آزدی پسند ہو وہ اپنے مالک کی غلامی تسلیم کرنے کو تیار ہوجائے پھر وہ آزادہے۔

جسے آزادی پسند ہو اسے چاہیے کہ وہ ٹکنالوجی سے محبت کرے اس سے فائدہ اٹھائے مگراس کے عشق میں گرفتار نہ ہو۔

اپنی زندگی کو روحانی بنائے، کیوں کہ روحانیت کا ایک پل رقص وسرور کی ہزار محفلوں سے بہتر ہے۔

انسانوں کو تن کی آزادی چاہیے من کی نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔