ہم ڈھونڈ کے لائیں آزادی

انور حسین

ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوکر ستر سال بیت گیے۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ویلفیر اسٹیٹ بن جائے گا۔

ملک کی سمت کو درست رکھنے کے لیے دستور بھی تیار کیا گیا۔ جس میں مساوات، انسانی حقوق، بھائی چارہ، مذہب پر چلنےاور اس کی تبلیغ کی آزادی،انسانی جان و مال کا تحفظ، اظہار راے کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ  کی ضمانتیں دی گئی۔

شاید اسی لیے جگر مراد آبادی نے کہا تھا۔

خدا کرے یہ دستور ساز گار آیے 

بہار آیے تو اس شان کی بہار آیے 

پھول ہی نہیں کانٹوں پہ بھی نکھار آیے 

 لیکن ستر سال کے بعد محسوس ہورہا ہے کہ آزادی بوڑھی ہورہی ہے۔

 ابتدا میں ملک کی تعمیر کے لیے نعرہ دیا گیا تھا کہ ًآرام حرام ہے ً۔ملک کو تیزی سے صنعتیانے کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بھارت ایک ذرعی ملک ہونے کی وجہ سے سبز انقلاب کا نعرہ دیا گیا تھا۔”جے جوان جے کسان۔۔”

 انگریزوں نے جاتے جاتے بھارت کو معاشی طور پر قلاش کردیا تھا۔ بھارت کے سامنے غربت، تعلیم، روزگاراور صحت جیسے سنگین مسائل موجود تھے۔ ہر ایک کے لیے نعرے دیے گیے۔ غریبی ہٹانے کا نعرہ بھی دیا گیا تھا۔ لیکن ملک آہستہ آہستہ گندی سیاست اور کرپشن کے چنگل میں پھنستا گیا۔

ترقی اور فلاح سے زیادہ مذہب اور ذات پات کی سیاست نے اس کو داغدار کیا۔ اس  دستوری جمہوریہ نے ایمرجنسی کا بدترین دور بھی دیکھا۔ سیاست اور نفرت کے  ذریعے  بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ بھی رونما ہوا۔

  ملک میں آزادی سے قبل ہی سیکولرازم کے مقابلہ میں فاشسٹ قوتوں کا ظہور ہوچکا تھا جو دھیرے دھیرے ملک میں پھیلتا گیا۔ اس نے نہ صرف سیکولرازم کے نظریہ کو کمزور کیا بلکہ فاشسٹ نظریہ کو تقویت بخشی۔ ۔

اس ستر سال کی تاریخ کا سب سے معروف چلن نفرت کی سیاست اور کرپشن کی کالا بازاری  رہا۔ اس کا لازمی نتیجہ سامنے ہے کہ ہر طرف نفرت ہی نفرت پھیلائی جارہی ہے۔

اب وہ دستور کی ضمانتیں جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ۔۔مساوات کو ڈھونڈ رہے ہیں، آزادی اظہار راے کو ڈھونڈ رہے ہیں، اقلیتوں کے جان و مال کی ضمانت ڈھونڈ رہے ہیں، مذہب پر چلنے کی آزادی ڈھونڈ رہے ہیں، لنچنگ کی بدترین خباثتوں میں بھائی چارہ اور جان ومال کا تحفظ ڈھونڈ رہے ہیں، دستور کے سایے میں عدالتوں سے انصاف ڈھونڈ رہے ہیں۔ عورتوں کی عصمتیں ڈھونڈ رہے ہیں۔

 ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ‘

ڈھونڈ رہے ہیں۔

مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں تھیں،  علماء نے پھانسی کے پھندوں کو قبول کیاتھا۔ رہنماؤں نے پوری زندگیاں جھونک ڈالیں تھیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ اس عیاں حقیقت کو سمجھانے میں ستر سال گزر گیے لیکن حقیقت کو ابھی فسانہ ہی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ تو آزادی سے پہلے کی حقیقت ہے۔ آزادی کے بعد کے ستر سالوں کی تاریخ بھی مسلمانوں کی عزیمت کی تاریخ رہی ہے ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری اس بات سے اختلاف کرینگے اس لیے کہ مسلمان آج تک اپنا وہ مقام حاصل نہیں کرسکے جس کہ وہ حقدار ہیں۔

  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے لاشوں کے ڈھیر پر جو  آشیانے بنائے تھے وہ اب اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں۔ فسادات کا لامتناہی سلسلہ، شریعت میں مداخلت، بابری مسجد کی شہادت کا درد۔ ۔ان سب کے باوجود جو قوم اب بھی سینہ تان کر کھڑی ہے اس کی تاریخ کو عزیمت کی تاریخ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔

 آزادی کے بعد بھی تعلیم، ساینس، ادب، معیشت، معاشرت، تہذیب اور ثقافت میں بھی ہمارا غیر معمولی رول رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کی تاریخ رقم نہیں کی گئی۔ آزادی کے بعد مسلمانوں نے اس ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا اس پر کوئی کتاب پڑھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ اب اس تاریخ کو رقم کرنا پڑے گا۔ ۔۔لیکن کام ابھی باقی ہے۔

ہمارے اسلاف کی قربانیوں کی لاج رکھنا ہے تو اس وقت مسلمانوں کو اس سر زمین ہند کو ہر طرح کی غلامی سے آزادی دلانی ہوگی۔ یہاں انسانیت کو زندگی بخشنے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہاں کے انسانوں کو نفرتوں سے نکال کر محبتوں کے درس دینے ہونگیں۔ عورتوں کی عصمتوں کی بازیابی ہم سے بہتر کون کرسکتا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ آج تک ملک کو کرپشن کے ذریعے لوٹنے والوں میں ہمارا نام نہیں کے برابر ہے۔

  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات ہمارے لیے سازگار نہیں ہیں۔ ۔زوال سے عروج کی سمت سفر کرنے والی قومیں ناسازگار حالات میں ہی کارنامے کرتی ہیں۔ ۔آج جب ملک آزادی کے کھوکھلے نعرے لگا رہا ہے۔ ۔اور ہماری محبتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

وقت ہے کہ جس طرح ہم نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کیا تھا اب اس کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کروایں۔

سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا 

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

تبصرے بند ہیں۔