آسام کا اسمبلی انتخاب اور مسلمان

اس وقت مغربی بنگال ،آسام ، کرالہ ، تمل ناڈو اورپانڈوچیری کااسمبلی انتخاب ہورہا ہے اب آسام میں انتخابی عمل پورے ہو چکے ہیں جس طرح سے آسام کے رجہانات سامنے آئے ہیں اسکے مدنظر کانگریس اور بھاجپا اتحاد کیلئے مشکلیں بڑھنا لازمی ہے تاہم 2001 سے کا نگریس آسام کا الیکشن مسلسل جیت رہی ہے اور اس وجہ کر کانگریس کا حوصلہ بلندضرور تھا لیکن بھاجپا،اسم گن پریشد اور بوڈو فرنٹ کے درمیان اتحاد اور آل انڈیا یونائیٹیڈ فرنٹ AIUDF کی سیاسی طاقت مضبوط ہونے کی وجہ کر انہیں پریشان ہونا لازمی ہے اسکے ساتھ ہی سیکولر لوگوں کو اس بات کا بھی ڈر ستاا رہا ہے کہ کہیں آسام میں بھی کشمیر کی طرز پہ بھاجپا کی حکومت نہ بن جائے جبکہ یہاں کے لوگوں کا صد فیصد ماننا ہے کہ بھا جپا اتحاد کی حکومت آسام میں کسی بھی حال میں نہیں بن سکتی ہے ایک طرف یہ انتخاب کانگریس کیلئے اپنی حکومت بچانے کی ہے تو بھاجپا کیلئے کانگریس مکت آسام بنانے کی جبکہ AIUDFکیلئے آسام میں مسلمانوں اوردلتوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کو قائم رکھنے کی جنگ ہے ۔
قابل ذکر یہ ہے کہ آسام میں 2005 کے ہندسہ میں تشکیل دی جانے والی آل انڈیا یونائیٹیڈ فرنٹ AIUDFکے سبب کانگریس کو کافی پر یشانیوں کا سامنا ہے جبکہ 1952 کے انتخاب سے ہی کانگریس مسلمانوں کو اپنے ووٹراور ووٹ بینک کے نام پر استعمال کرتی رہی ہے اسکے ساتھ ہی اس نے بنگلہ دیشی کی غیر قانونی گھس پیٹھیوں کی آواز اٹھا کر اسم گن پریشد و بوڈو تحریک کو جنم دینے کا کام کیا ہے تاکہ وہ مسلما نوں کو ڈرا کر ووٹ حاصل کرتی رہی ہے اسی لئے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ کہیں کانگریس اور بھاجپا محاذ،AIUDF کو سکشت دینے کیلئے ان کے خلاف متحدنہ ہوجائے ویسے بھی دونوں جماعتیں میں انکے مقامی رہنماؤں کے اپنے اختلافات کو لیکر کھلبلی مچی ہوئی ہے مسلمانوں کی آبا دی اور انکی حکمت عملی کو لیکر کرالہ ، مغربی بنگا ل اورآسام کا الیکشن ہندوستان کی سیاست میں کافی اہمیت کا حامل ہے بلکہ تینوں ہی انتخاب ملک کے سیکولرلوگوں کے ساتھ ساتھ بھاجپا کیلئے بھی بڑی آزمائش کا مقام رکھتا ہے اس انتخاب کو لیکر جہاں ایک جانب ملک کا سیکولر قوت یہ سوچتا ہے کہ انکا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہواور بٹنے نہ پائے وہیں بھاجپا اس بات کیلئے فکر مند ہے کہ ان صوبوں میں انکی حالت دہلی اور بہار سے بہتر ہوجائے غور طلب ہے کہ کرالہ ، مغربی بنگال اور آسام میں مسلمانوں کی تعد ادسرکاری سروے کے مطابق بالترتیب 25%،26%اور 30% غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق27%، 28% اور33%ہے مغر بی بنگال کے 42پارلیامانی حلقہ میں 32 اور 294 اسمبلی میں 167 حلقہ ایسے ہیں جہاں انکا اثر و رسو خ ہے ان میں کم از کم 118 اسمبلی ایسے ہیں جہاں مسلمان اپنے من پسنداور زیادہ سے زیادہ مسلم ممبران اسمبلی میں بھیج سکتے ہیں جس سے انکی پسندیدہ حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے
آسام کے اسمبلی انتخاب میں جہاں بھاجپا اسم گن پریشد اور بوڈو پوپلز فرنٹ کے ساتھ محاذ آراہے تو کانگریس آل بوڈو اسٹوڈینٹس یونین اور یونائٹیڈ پوپلز پارٹی کے ساتھ،جبکہ ترنمول کانگریس اورآل انڈیا یونائیٹیڈ فرنٹAIUDF بھی زور آزمائی میں لگی ہے گزشتہ2011 میں 18 اسمبلی اور 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے آل انڈیا یونائیٹیڈ فرنٹ نے ہندوستانی سیاست میں ایک بھونچال لا دیا ہے آسام کے مسلمانوں کے مسائل اس ملک کے مسلمانوں سے مختلف ہیں انہیں اکثر غیر ملکی اور بنگلہ دیشی کا نام دیا جاتا رہا ہے اسی وجہ کر انہیں اس ملک کے دیگر باسندوں کی طرح دوسری بنیادی سہولیات سے محروم کیا جاتا رہا ہے جبکہ وہ اس ریاست کے 14 میں سے کم از کم 8 لوک سبھا اور 126میں سے 62اسمبلی کے نتائج کو متاثر کرتے ہیں اور اب تک وہ بھا جپا کے مقابلے سیکولر امیدواروں کی حمایت کرتے ہیں گز شتہ اسمبلی الیکشن میں مسلما نوں نے آل انڈیا یونائیٹیڈ فرنٹ اور کانگریس کا ساتھ دیا تھالیکن آج بھی انکے مسا ئل جوں کے تو ں ہیں گگوئی حکومت بھی مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو حل کرانے میں ناکام ہے جسکے وجہ کروہاں کے مسلما ن بے زار ہیں گزشتہ لوک سبھاانتخاب کا جا ئز ہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب میں AIUDFکویہاں صرف 3ہی سیٹ ملی تھی اور ایک سیٹ پر ایک آزاد امیدوار کی حمایت دیکر کامیابی حاصل کی تھی اس طرح AIUDF نے یہاں کی 4 سیٹوں پر اپنی کامیابی درج کردی تھی لیکن اس نے دو سیٹ پر دوسر او پانچ سیٹوں پر تیسرا مقا م پر رہ کر اپنی شناخت کرا چکی ہے اسلئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ AIUDF آسام میں کچھ نہیں کر سکتی ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اگر مسلمانوں ، پسما ندہ ذات اور سیکولر ووٹروں نے تھوڑی بھی توجہ دی تو آسامکا نقشہ کچھ اور ہی ہوگا اور اس طرح AIUDF وہاں اپنی حکومت بنانے میں کا میا ب ہوسکتی ہے ۔
گزشتہ 2011ؑ ؑ کے اسمبلی انتخاب کا جائزہ لیں تو اس میں کل 28مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والوں میں 25 امیدوار مسلم تھے یعنی 53مسلمان اسمبلی انتخاب کے ریس میں تھے جن میں کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جو چند سو ووٹوں سے ہی ناکام ر ہے تھے اگر مسلم ووٹراور قائدین کوئی حکمت کی راہ اختیار کر یں توانہیں ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا اور اس طرح کم از کم 10اور مسلموں کو ممبر اسمبلی بنا سکتے تھے یعنی اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد 38 تک جاسکتی تھی آسام کے 14میں سے شاید ہی کو ئی ایسا لوک سبھا ہو جہاں مسلمان الیکشن کو متاثر نہ کرتے ہوں ان میں اس انتخاب میں یہاں کے تقریبا 50%پر سہ رخی مقابلہ ہے اور باقی سیٹوں پر کانگریس و بھاجپا محاذ کے درمیان سیدھے طور سے ٹکر ہے آسام کا سب سے مضبوط ایریا اوپر آسام ہے یہیں سے اکثر آسام کے وزیراعلی منتخب ہو کر آتے ہیں یہاں آسام کے 14 میں سے 8 سیٹیں ہیں ان میں دبرو گڑھ، لکھیم پور ،تیج پور، گھولا گھاٹکلیا بور،نوگاؤں، جور ہاٹ ،منگل دوئی اورگوہاٹی ہیں ان میں AIUDF دبرو گڑھ میں 4، لکھیم پور سے 2 ،تیج پور سے ایک ، گھولا گھاٹکلیا بور سے 2،نوگاؤں سے 4، جور ہاٹ سے ایک ،منگل دوئی سے 2 اورگوہاٹی سے 2 یعنی کل 18سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے آسام کا دوسرا علاقہ لوور آسام ہے جہاں لوک سبھا کی دھوبری ،بربیٹا اور کوکرا جھار تین سیٹیں آتی ہیں ان تینوں سیٹوں پر AIUDF کا قبضہ ہے دھوبری اور بر بیٹا میں کل 20 اسمبلی ہیں جن میں 14 پرانکا قبضہ ہے دھوبری سے بدرالدین اجمل ،بربیٹا سے سراج الدین اجمل ممبر پارلیامنٹ ہے تو کوکرا جھار سے انکے حمایتی ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوچکے ہیں اس لئے مانا جارہا ہے کہ AIUDFدھوبری کے 10 میں سے 9 ،بربیٹا کے 10 میں سے 6 اور کوکرا جھار کی 10 میں سے 5 پر یعنی 21 سیٹوں پرکامیابی حاصل کر سکتی ہے اسی طرح تیسرا علاقہ براک ویلی کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں لوک سبھا کی کریم گنج ،سلچر اور این شی ہفلونگ کل تین سیٹیں ہیں کریم گنج AIUDF کے پاس ہے کریم گنج اور سلچر میں کل 15اسمبلی سیٹیں ہیں جس میںAIUDF کریم گنج میں 4،سلچر میں 3 اور ہفلونگ کی ایک سے یعنی یہاس کی8 سیٹ پر اسے کامیابی ملنا طے ہے اس طرح AIUDFکو آسام میں 37 سے 47سیٹوں پر کامیابی مل سکتی ہے ۔
2014 کے عام انتخاب میں اپنی پسند کا امیدوار نہیں چن سکے ترنمول کانگریس پارٹی ہویا کانگریس دونوں پارٹیاں مسلمانوں کا ہمدرد اور خود کو انکے ووٹوں کا سب سے زیادہ حقدار اور انکا محافظ مانتی ہیں جس کے وجہ کر مسلم ووٹوں کا بٹوارہ ہوتا رہا ہے اسی وجہ ہے کہ پارلیا منٹ اور اسمبلی میں انکی نمائندگی کی کمی رہی ہے جب کہ اسکا فائدبھاجپاکو ملتا رہا ہے آسام جہاں مسلمانوں کی آبادی % 80سے 35% ہے اسکے باوجود وہ پسماندگی کے شکار ہیں ان کے مسا ئل آج بھی اسی طرح ہیں جیسے قبل میں ہوا کرتے تھے اور حکومت انکے مسائل کے حل کرنے میں ناکام رہی کیو نکہ انتخاب سے قبل انہوں نے کوئی متحدہ لائحہ عمل تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لی تھی اور نہ ہی ووٹروں کی رہنمائی کرنے کی طرف کوئی توجہ کی تھی اسکے علاوہ ان رہنماؤں کی حمایت کرنے بھی صرف یہ نہ سوچیں کہ کسی کو جیتانا کافی اور لازمی ہے بلکہ یہ سوچیں کہ ملت کی جیت کس لائحہ عمل میں ہے اسکے ساتھ ہی ملک کے باقی صوبہ کے لوگوں کو بھی آسام کو اپنے حال پر چھوڑدینا ملک کیلئے بہتر نہیں ہوگا اسی سے مثبت فرق پڑنے کی امید ہے جس طرح دہلی اور بہارکے مسلمانوں نے متحد ہوکر بھاجپا کے خلاف زیادہ سے زیادہ ووٹ دیکر سیکولر پارٹیوں کو کامیاب بنایا تھا اسی طرح کی مثالل آسام کے لوگوں کو بھی قائم کرنی چاہئے بلکہ اس بار کے انتخاب میں جو رجحانات دیکھے گئے ہیں اس کے بعد یہ کہنا آسان ہے کہ کشمیر کی طرح آسام میں حکومت تشکیل دینے کی چابھی نہ صرف بدرالدین اجمل صحب کے پاس ہوگی بلکہ اس بار وہ آسام کی حکومت بنانے کی بھی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔