آشیانہ

سیدہ شیما نظیر

آج وہ سہ پہر کی چائے لے کر آنگن میں بیٹھی مرتضٰی صاحب کا انتظار کر رہی تھیں

ویسے تو وہ بھی عمر کا ایک بڑا حصہ گذار چکی تھی اور مرتضٰی صاحب ان کے شوہر ریٹائرڈ ہونے کے بعد خود کو مصروف رکھنے ایک پرائیویٹ فرم میں  بحیثیت سوپروائزر کام کررپے تھے

اور ناظمین کو اپنے انگن میں پیڑ پودے لگانے کا بہت شوق تھا

ابھوں نے دیکھا کچھ دن پیلے ایک گھونسلہ ان کے یوکلپٹس کے درخت پر بنایا گیا تھا

آج وہ چائے کی چسکی لیتے لیتے اس گھونسلے کو دیکھا آج وہاں سے بہت اوازیں ارہی تھین

ناطمین نے سوچا شائد ان انڈوں سے بچے نکل گئے

 جنھیں کچھ دنوں سے وہ چڑا چڑیا سینک رہے تھے

اور وہ دستک کی آواز پر اٹھ کر اندر چلی گئیں

شام کے کھانے کے بعد انگن میں ٹہلتے ہوئے شوہر سے یوں گویا ہوئین

آپکو معلوم ہے ہمارے یوکلپٹس کے درخت پر جو گھونسلہ تھا اس میں چڑیا کے بچے نکل آئے

مرتضٰی کچھ سوچتے ہوئے بولے…..

ہوں

بہت اچھے چلو تمھاری تنہائی کچھ تو دور  ہوگی میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہی کرسکتا تمھارے لئے

پھر اسی طرح ایک دوسرے کی دلجوئی کی باتیں کرتے کرتے ان کی شام ہوگئی

دوسرے روز وہ کام والی کے جانے کے بعد اپنا ایک غلاف جسپر وہ کڑھائی کا کام کر رہی تھیں لے آئی آنگن میں نیم کے درخت کے نیچے بیٹھ گئیں

اور بغور دیکھنے لگیں گھونسلے کو چڑا منہ میں کچھ لایا اور وہ گھونسلے کے پاس ہی رک گیا اور چڑیا پ‍ٰھر سے اڑ گئی

وہ انکو دیکھتے دیکھتے…..وہ ماضی کی یادوں میں چلی گئی

بہت زور سے افتخار کے رونے کی آواز پر وہ کچن سے بھاگی بھاگی آئیں

اور دیکھا کہ امتیاز نے کھیلتے کھیلتے افتخار کو دھکیل دیا اور اسکا گھٹنا چھلا گیا تو

وہ پریشان ہوکر اندر لے کر بھاگی اور جلدی جلدی مرہم پٹی کرنے لگیں

پھر کچھ دیر بعد اسے ہلدی والا دودھ پلایا پھر امتیاز کو ڈانٹا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھا کرے………

اچانک فون کی گھنٹی بجنے سے وہ چونک گئیں

فون افتخار کا  تھا ہیلو… ہیلو… مما

مردنی سی آواز سے کہا سلام علیکم بیٹا

وعلیکم سلام مما کیسی ہیں

کہا ….ٹھیک ہوں بیٹا …

آواز سے تو لگ رہا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ـ

نہی کچھ نقاہت ہے بس

اس نے غصہ والے لہجہ میں کہا ….مما آپ سے کتنے بار کہا کہ اپنا خیال رکھا کریں ہم دور ہیں آپکو بر وقت پیسے مل جاتے ہیں  اچھی غذائیں کھائیں اپنی صحت کا خیال رکھا کریں اور پاپا

کیسے ہیں؟

ٹھیک ہیں بیٹا ارجنمد اور بچے کیسے ہیں امتیاز سے بات ہو تو سلام کہنا زرینہ  بھابی کو بھی ہمارا سلام کہنا تم لوگ خوش رہو بس اسی میں ہماری خوشی ہے ………

اور بھی جانے افتخار کیا کہہ رہا تھا

اپنے بے اختیار چھلک انے والے آنسوؤں کو چھپانے ناظمین نے فون کاٹ دیا

پھر سب سمیٹ کر اندر چلی آئیں

بڑی مستعدی سے دوپہر کے پکوان میں لگ گئی میاں آئیں تو دونوں ساتھ ہی کھاتے تھے

شام میں پھر شوہر سے دن کی ساری داستان سنانے بیٹھ جاتین وہ بھی جانتے تھے بچوں کیلئے بےچین ماں کے دل کے رکھنے کو تسلی بھری باتیں کرتے……..

پھر کچھ دن بعد ایک روز وہ آنگن میں بیٹھی تھیں انھوں نے چڑیا کے گھونسلے میں عجیب کھیل دیکھا

پہلے تو چڑیا اور چڑا دونوں قریب کی ڈالیوں پر اڑ اڑ کر بتانے لگے اپنے بچوں کو

پھر اچانک چڑا چند مخصوص ڈالیوں پر اڑ اڑ کر انکو بتانے لگا

وہ بغور دیکھ تہی تھیں

اچانک چڑیا نے گھونسلے سے ایک ننھے بچے کو دھکیلا اور وہ قریب کی ڈال پر گرا گرتے ہی چڑا اسے پھر اسی ترتیب سے اڑ کر دکھانے لگا

پھر وہ ننھا بچہ بھی چڑے کے نقشِ قدم پر اڑا اور گھر کے باہر کی منڈھیر پر جا بیٹھا

اسی طرح چڑیا نے سارے بچوں کو پھر پھر اڑادیا اور سب باہر کی منڈھیر سے بھی اڑگئے

اور چڑا چڑیا بھی دوسری سمت میں اڑ گئے

وہ بے تحاشہ با آوازِ بلند رونے لگیں اندر آکر بھی بہت روئیں

شام میں مرتضٰی صاحب نے دیکھا انکھیں سوجی ہوئی ہیں

پوچھا خیر تو ہے

آج بارش تو نہی ہوئی وہ جب انھیں ہنسانا چاہتے تو ان کے رونے کو یہی کہتے……

بس پھر کیا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر دوبارہ رونے لگیں

بہت وقت لگ گیا انھیں بیگم کو سمجھانے میں

پھر وجہ پوچھی تو کہنے لگیں

صاحب اللہ نے کاش ہمیں بھی پرندہ ہی بنادیا ہوتا کہ اپنے بچوں کے چلے جانے کا غم تو نہ ہوتا

بہت محبت سے شوہر نے سمجھایا ناظمین بیگم

کیا تم چاہتی ہو کہ ہم اللہ کے نافرمان بندوں میں شریک ہوجائیں

روتے ہوئے کہا کہ نہی

پھر اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ نے اولاد جیسی نعمت دی اور ابتک تو بچے ہمارے پاس ہی رہتے تھے اب ان کے مستقبل کیلئےتم نے ہی تو اجازت دی جانے کی پھر کیوں روگ دل کو لگاتی ہو

میں ہوں نا تمھارا اپنا تمھارے ساتھ کیا یہ  کافی نہی….

نہی کیسی باتین کرتے ہیں اپ اللہ اپکو سلامت رکھے لیکن دل کچھ عجیب سا بیٹھا جارہا ہے ان کی ہر بات ہر ادا ہر واقعہ غرض ان کے ساتھ گذارا ہر لمحہ  یاد آرہا ہے

بڑی مشکل سے انھیں سنبھال کر سلادیا ـ

پھر آنگن میں بہت دیر تک آرام کرسی کی پشت سے ٹیک لگائےسوچنے لگے

کہ اس روز وہ کتنا خوش تھے جب امتیاز پیدا ہوا تھا

دونوں بچوں کو پاکر انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور انھیں لگا کہ آج ان کی زندگی مکمل ہوگئی والدین ‘ اطاعت گذار بیوی’ اور پیارے سے ننھے بچے

اس کے بعد ہی انھوں نے اپنے گھر کا نام” آشیانہ” رکھا تھا

شروع سے بہت اچھی تربیت کی

ناظمین کو بیٹی نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ رہتا اور یہ محبت سے انھیں سمجھاتے کہ دو بیٹے اللہ نے دیئے اس کے لیئے شکرگذار نہ بنوگی

فریدہ آپا کو دیکھو اولاد سے محروم ہین کیا گزرتی ہوگی ان پر

ناظمین نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی کہ ہم مختصر میں زندگی گزارلیں گے مگر سب ایک ساتھ رہیں گے

بچے بھی ماں سے بہت محبت کرتے تھے

پھر آہستہ آہستہ حالات بدلتے چلے گئے بچے بڑے ہوگئے میکانیکل انجینئرنگ اور ایم بی اے کرکے دونوں نے جاب کی تلاش شروع کردی ادھر

ناظمین نے لڑکیوں کی تلاش شروع کردی جلد دونوں کی اچھے قابل اور شریف گھرانے کی لڑکیوں سے شادی بھی ہوگئی

سب خوش تھے پھر اچانک دوستوں نے کہا بھئی یہان کوئی فیوچر نہی ہم گلف کنٹریس میں ٹرائی کرتے ہیں اتفاق سے دونوں کو جاب مل گئی

اور یک کے بعد دیگرے دونوں چلے گئے اس روز ناظمیں بلک بلک کر روئی تھیں انھیں تو سمجھا لیا لیکن خود مرتضٰی کا جو دل رورہا تھا کس سے کہتے چپ چاپ خون کے گھونٹ پی لیئے ـ

کیا اولاد کا فرض یہی ھیکہ وہ چند روپیئے والدین کو بھیجدے اور بس

بہت کچھ سوچا وہ بچوں کے ساتھ گھنٹوں آفس سے آکر کھیلنا

انھیں باہر گھومانے لیجانا

ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلنا ان کے لیئے گھوڑا بن جانا

سب سب

آنکھین بھیگ گئیں ایک لمبی سانس لی اور آنکھین پوچھ کر سونے کیلئے چلے گئے

پھر کچھ دن ایسے ہی کرب وتکلیف میں گذرگئے اور ایک روز فون آیا کہ دونوں بچے فیملیز کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آرہے ہیں

ان دونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی

لیکن جب بچے آئے تو ان کے رویہے میں انھوں نے واضح تبدیلی محسوس کی

وہ پہلے جیسے خوشی کا اظہار نہی کر رہے تھے بس کھانا پینا اور اپنی فیملیز کو لے کر گھومنا بس یہی انکا کام تھا والدین کو ذرا بھی نہ پوچھا کہ کیسے ہیں

ان کی تنہائی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی…….

پھر جانے سے چند دن پہلے دونوں نے کہا مما پاپا اپ لوگوں سے ضروری بات کرنی ہے آپکے کمرے میں چلیں

والدین دونوں بچے  کمرے میں آگئے تو امتیاز نے کہنا شروع کیا کہ

مما پاپا ہم جو بات کہنا چاہ رہے ہیں ہوسکتا ہے اسے سن کر آپکو اچھا نہ لگے لیکن یہی سہی ہے

پھر ایک لمحہ توقف کے بعد کہا

کہ اب آپ لوگ یہاں تنہا ہیں ہم لوگ دور ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اپ اسمین ہمارا حصہ کردیں کل کو خدانخواستہ آپکو کچھ ہوجائے تو مسئلہ بھی بن سکتا ہے

تڑاخ………..

ایک زوردار تھپڑ کی آواز کمرے میں گونجی اور ناظمین کی آواز میں کسی قدر تڑپ اور غصہ محسوس کیا گیا

نکل جاؤ باہر ابھی اسی وقت

دونوں بیٹے دنگ رہ گئے ماں کا یہ روپ دیکھ کر

اور مرتضٰی انھیں تو جیسے سانپ سونگھ گیا

میں تمھاری ایک بھی نہی سننا چاہتی چلے جاؤ باہر کسی قدر چیختے ہوئے کہنے پر دونوں باہر نکل گئے

رات کیسے گزری بس وہی جانتےتھے

دوسرے دن انھوں نے ایک فیصلہ کیا اور دونوں کو بلا کر بات کی

شروع سے آخر تک ےمام باتیں بتائیں مان کا تڑپنا باپ کا آہیں بھرنا اولاد کی قربت کیلئے دعائٰیں کرنا

یہ سن کر دونوں بہت شرمندہ ہوئے

بولے ہمییں معاف کردیجئے یماری آنکھوں پر پٹی پڑی تھی مما پلیز پاپا اور یہ یہ تو ماں ناپ تھے ان کے لیئے جان دے سکتے تھے تو معاف کیسے نہ کرتے

پھر

رات میں سوتے وقت مرتضٰی کہا کہ بیگم دیکھا تم نے تمھارے بچے سب ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے

بیگم ….

جی……کہیئے تم نے اس چڑیا کے گھونسلے کو دیکھ کر کہا تھا نا کہ کاش ہم بھی پرندہ ہوتے

بیگم اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات کو خود پہ انحصار کرنے والا بنایا ہے

لیکن ہمارے لیئے جب ہر کام کو عبادت قرار دیا تو وہیں

بچوں کو  ابتدائ میں والدین پر منحصر رکھا اس میں والدین کیلئے اجروثواب رکھا ان کی صحیح پرورش تعلیم و تربیت کے عوض

پھر بڑھاپے میں والدین کو اولاد پر منحصر کردیا کہ دیکھیں یہ ان کی کتنی خدمت کتنی دلجوئی کرتی ہے اس کے عوض ان کے لیئے بھی اجر وثواب رکھ دیا

یہ سب اس کے بنائے ضابطے ہیں بیگم

جی ہاں بالکل صحیح فرمایا صاحب آپ نے

بہرحسل آج ہم بہت خوش ہین کہ ہمارے بچے بہکنے سے اور گنہگارہونے سے بچ گئے

تبھی دادی …..دادا….

پکارتے ہوئے ننھا انظار بھاگتا ہوا آگیا تو دونوں اس سے کھیلنے میں لگ گئے……ـ

تبصرے بند ہیں۔