رپورٹ: ایک شام افتخار راغبؔ کے نام

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام  مشاعرہ

                قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ 1959ئ؁) نے ۲۶ مئی ۲۰۱۶ء بروز جمعرات کو دوحہ کے معروف ہوٹل ’لایتوال ہوٹل‘ کے عالی شان ہال میں تخلیقِ کارِ کلامِ دل پذیر، علمبردارِ توازنِ لفظ و معنی ، بدرِ آسمانِ شعر و سخنِ قطر اور افتخارِ بزمِ اردو قطر جناب افتخار راغبؔ کے نام ایک پروقار شام کا اہتمام کیا۔  پروگرام کی صدارت معروف شاعر اور بزمِ اردو قطر کے صدر جناب شادؔ آکولوی نے فرمائی۔ جب کہ انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی ، کاروانِ اردو قطر کے بانی صدر جناب عتیق انظرؔ، مجلس فروغِ اردو ادب قطر کے صدر جناب فرتاشؔ سید ، بزمِ اردو قطر کے نائب صدر جناب فیروز خان اور بزم کے نئے رکن جناب ارشاد احمد مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر جلوہ افروز ہوئے۔بزم کے نائب صدر اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر جناب مقصود انور مقصودؔ نے جناب افتخار راغبؔ کے عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ بڑے اعتماد و وقار کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دیئے۔

                پروگرام کا باضابطہ آغاز حافظ سیف اللہ محمدی صاحب کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ بزمِ اردو قطر کے خازن جناب غلام مصطفیٰ انجم نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ آپ نے بزم کے مختصر تعا رف کے ساتھ ساتھ جناب افتخار راغبؔ کا بھی مختصر تعارف پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم  بزمِ اردو قطر ،اب تک تیرہ عالمی سیمینار  اورسینکڑوں  مشاعرے کا اہتمام کر چکی ہے۔  بزم کے زیرِ اہتمام قطر کے تین بڑے شعراے کرام ، شاعرِ خلیج، فخر المتغزلین جناب جلیلؔ نظامی، جدید لب و لہجہ کے معروف و معتبر شاعر جناب عتیق انظرؔ اور تعمیری و اسلامی فکر کے ترجمان شاعرِ شیریں کلام و ادیبِ خوش بیان  جناب شادؔ آکولوی، کے نام  یاد گار شامیں منعقد ہو چکی ہیں۔  چوتھی شام دبستان قطر کے ایک گوہرِنایاب، سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کے آسمان کے روشن آفتاب،  بزمِ اردو قطر کی شان،  سادگی و پرکاری کے ترجمان جناب افتخار راغبؔ  کے نام منعقد ہو رہی ہے۔ مارچ  ۱۹۹۹ میں  قطر میں آمد کے کچھ ہی دنوں بعد آپ  بزمِ اردوقطر سے وابستہ ہو گئے اور گزشتہ  ۶ برس سے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے اب تک تین شعری مجموعہ ہائے کلام  ’لفظوں میں احساس‘،  ’خیال چہرہ‘  اور  ’ غزل درخت‘  منظرِعام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ آخر میں جناب غلام مصطفیٰ انجم نے تمام مہمانان و سامعین کا پر خلوص استقبال کیا۔

                 ناظمِ شام جناب مقصود انور مقصودؔ نے قطر میں محمد رفیع کی آواز کی یاد تازہ کراتے رہنے والے خوش گلو جناب عبد الملک قاضی کو صاحب شام کی ایک مناجات پیش کرنے کی دعوت دی۔ جناب افتخار راغبؔ کے ابتدائی دور کی اس مناجات کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

ہو مشعلِ ہدایت قرآن زندگی بھر

قائم رہے خدایا ایمان زندگی بھر

تیرے کرم سے کشتی جب ہے رواں ہماری

یارب رہے معاون طوفان زندگی بھر

راغبؔ کو بخش دے تُو صبر و سکوں کی دولت

روشن رہے لبوں پر مُسکان زندگی بھر

                بزمِ اردو قطر کے نائب سکریٹری فیاض بخاری کمالؔ نے اپنے والد ماجد جناب سید محمود بخاری کا مضمون پیش کیا جسے سامعین نے خوب پسند فرمایا۔ مضمون میں فرمایاگیا ہے کہ راغبؔ غزل کے شاعر ہیں اور غزل کی روایت بڑی ظالم ہے۔کوئی غزل گو اس سے دامن بچا کر نہیں گزرسکتا۔ اگر وہ روایتوں کو اپنالے تو انہیں خیالات کو بار بار دہرانے لگے گا جو اس سے بہتر طریقہ سے قدیم کلاسیکی شعراء کہہ گزرے ہیں۔ اس کے برعکس وہ شعراء جو روایت کا شعور حاصل کرکے اپنی زندگی کے واردات و تجربات کو شعر کی صورت میں ڈھال دیتے ہیں ان کے کلام کی خوبی اور رنگینی کیف آشنا اور مسرور کرتی ہے۔ راغبؔ  کا تعلق اسی قبیل کے شعراء سے ہے۔ آگے یہ بھی فرمایا ہے کہ راغبؔ کی شاعری کے موضوعات وہی ہیں جو کسی بھی جواں سال، سلجھے ہوئے شاعر کے ہوسکتے ہیں۔ راغبؔ کی شاعری میں تازگی و توانائی اور آہنگ کا نیاپن ہر شعر سے ظاہر ہے۔ ان کی شاعری کا ایک منفرد رنگ و آہنگ ہے جو ان کی انفرادی فکر کا غماز ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں انفرادیت کے خد و خال نمایاں ہیں۔

                ناظمِ تقریب جناب مقصود انور مقصودؔ نے قطر کے معروف غزل سنگر جناب ابوالخیر کو افتخار راغبؔ کی غزل پیش کرنے کی دعوت دی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائے:

درونِ چشم ہے روشن کوئی جھلک اُس کی

کہ محوِ رقص نگاہوں میں ہے چمک اُس کی

جو درد تیری محبّت کا دل میں اٹھتا ہے

میں چاہتا ہوں کہ ہردم رہے کسک اُس کی

مِرے خلاف جو سازش رچی ہے اپنوں نے

خدا کرے نہ لگے غیر کو بھنک اُس کی

ذرا سی بات ہو جب باعثِ حسد راغبؔؔ

سنائوں کس کو میں باتیں لہک لہک اُس کی

                جناب ابوالخیر کے سحر انگیر ترنم میں جناب افتخار راغبؔ کی دلکش غزل کے بعد راقم الحروف (فیاض بخاری کمالؔ) نے صاحبِ شام کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا جس کی حاضرین نے خوب پذیرائی کی۔ چند اشعار آپ کی خدمت میں:

بزمِ اردو کی شان ہیں راغبؔ

پاسبانِ زبان ہیں راغبؔ

شاعری میں مگن ہیں صبح و شام

چھٹی کس دن کی اور کیا آرام

وہ مہندس ہیں اپنے پیشے سے

ہیں اجالے ہر ایک گوشے سے

اپنے فعل و ہنر میں رخشندہ

بزمِ شعر و سخن میں تابندہ

                بزمِ اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحئی جو قطر میں ۱۹۵۹ء  سے مقیم ہیں،  نے جناب افتخار راغبؔ پر لکھے اپنے  ایک مضمون سے اقتباسات پیش کیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے حسبِ استطاعت اس کتاب (غزل درخت)  کا مطالعہ کیا اور تمام اچھے اشعار پر نشان لگا دیے لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ کاش میں ایسے اشعار پر نشان لگاتا جو کم پسند آئے۔ اس طرح نشانات کی بھرمار سے کتاب بچ جاتی۔

                ناظمِ اجلاس جناب مقصود انور مقصود ؔنے جناب ڈاکٹر وصی الحق وصیؔ کو منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آواز دی۔ آپ نے فرمایا کہ:

لائقِ احترام ہے راغبؔ

فن کا ماہِ تمام ہے راغبؔ

اس کے اشعار سن کے دیکھو تو

شاعرِ خوش کلام ہے راغبؔ

                بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ جو اپنے منفرد ترنم کی وجہ سے قطر میں اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں، نے بھی صاحب شام کی ایک غزل پیش کی اور خوب داد لوٹی:

ترکِ تعلقات نہیں چاہتا تھا میں

غم سے تِرے نجات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا تم سے نہ جیتوں کبھی مگر

کھا جاؤں خود سے مات نہیں چاہتا تھا میں

میں چاہتا تھا راہ میں کچھ مشکلیں مگر

ہر ہر قدم پہ گھات نہیں چاہتا تھا میں

راغبؔؔ وہ میری فکر میں خود کو بھی بھول جائیں

ایسی تو کوئی بات نہیں چاہتا تھا میں

                بزمِ اردو قطر کی جانب سے افتخار راغبؔ کو سپاس نامہ پیش کیا گیا جسے صدرِ اجلاس و صدر بزم جناب شادؔ آکولوی اور مہمانانِ خصوصی جناب جلیلؔ نظامی، جناب عتیق انظرؔ، جناب فرتاشؔ سید، جناب فیروز جان، جناب ارشاد احمد اور ناظم جناب مقصود انور مقصودؔ کی موجودگی میں اور ان کے تعاون کے ساتھ بزم کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحئی صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد جناب افتخار راغبؔ کو سنجیدہ کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ آپ نے اپنی کئی  تازہ غزلوں سے سامعین کو محظوظ کیا۔ چند منتخب اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

مٹا رہی ہے نہ کندن بنا رہی ہے مجھے

عجیب آگ میں الفت جلا رہی ہے مجھے

خدا کرے وہ مِری قوم کو نظر آجائیں

مِری نظر جو مناظر دکھا رہی ہے مجھے

میں اس کا طرزِ عمل دیکھ کر ہوں الجھن میں

ڈری ہوئی ہے کہ دنیا ڈرا رہی ہے مجھے

مِرے نقوش منور ہیں ہر طرف راغبؔ

سو اہتمام سے دنیا مٹا رہی ہے مجھے

روشن ہوئے چراغ اندھیرے ہوا ہوئے

اے عشق تیری بزم میں ہم کیا سے کیا ہوئے

اب اور کتنے سانحے درکار ہیں تجھے

اب بھی نہ تیرے دیدۂ ادراک وا ہوئے

اِک ایک کر کے ہم سے خفا ہو رہے تھے سب

اِک روز اپنے آپ سے ہم بھی خفا ہوئے

جسم سے جاں کی ہے منظور جدائی مجھ کو

گردشِ وقت نہ دے اور صفائی مجھ کو

ہاتھ ہرگز نہ ہلانا دمِ رخصت مری جاں

ہلنے دے گا نہ ترا دستِ حنائی مجھ کو

یک لخت قصر قلب پہ برقِ نہاں گری

اِک زلزلہ سا آگیا دیوارِ جاں گری

تم نے تو مسکرا دیا راغبؔ کو دیکھ کر

کیا جانو تم کہ برقِ تبسم کہاں گری

جناب ابواخیر ایک بار پھر جناب افتخار راغبؔ کی مندرجہ ذیل غزل کے ساتھ تشریف لائے اور اپنی آواز کا خوب جادو جگایا:

تجھے کیا پتا تجھے کیا خبر مِرے بے خبر

تجھے چاہتا ہوں میں کس قدر مِرے بے خبر

مِرے دل کی دیکھنا تشنگی مِری زندگی

کبھی آ ملو کسی موڑ پر مِرے بے خبر

تجھے چاہنا مِری بھول ہے یہ قبول ہے

نہیں مانتا دلِ فتنہ گر مِرے بے خبر

                بزمِ اردو قطر کے چیئرمین اور گزرگاہِ خیال فورم کے بانی و صدر جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے افتخار راغبؔ کی شاعری پر لکھے اپنے مضمون سے اقتباسات پیش کیے اور سامعین کی خوب پذیرائی وصول کی۔ آپ نے فرمایا کہ

’’مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

شہر میں کھولی ہے حالیؔؔ نے دکاں سب سے الگ

تخلیق کارِ کلام ِدل پذیر، علمبردارِ توازنِ لفظ و معنی ، بدرِ آسمانِ شعر و سخنِ قطر، افتخار راغبؔ کی شاعری خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے مندرجہ بالا شعر کی تفسیر ہے۔  قافیہ پیمائی کے اس دور میں جہاں اردو شاعری کا حال دگرگوں ہے، قطر میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے شاعر افتخار راغبؔ نے ہزار محنت سے کئی منزلیں کاٹ کر مالِ نایاب کی ایک الگ دکانِ سخن کھولی ہے۔ لطفِ زبان، سادگی و سلاست، معنویت، عمدہ تخیّل، مضامین کی نزاکت اور ان کا حسن، نیا پن، صحت مندانہ رویہ، حسنِ بیان، اعتدال، حقیقت پسندی اور عمدہ فلسفہ راغبؔ کے کلام کی چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے راغبؔ کو اپنے بہت سے معاصرین پر فوقیت حاصل ہے‘‘۔

                ناظمِ شام جناب مقصود انور مقصود ؔ نے اپنی دلکش نظامت کا جوہر دکھاتے ہوئے صاحبِ شام کے منتخب اشعار کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ایک بار پھر جناب قاضی عبد الملک کو راغبؔ صاحب کی غزل پیش کرنے کی دعوت دی۔ غزل کے چند اشعار یوں ہیں:

دیکھی ہے اتنی راہ تِری ہر پڑاو پر

اے دوست لگ گئی مِری منزل بھی داو پر

اِک ایسا معجزہ ہو کہ آجائے لوٹ کے

وہ عمر جو سوار تھی کاغذ کی ناو پر

جب آپ کو خدا پہ مکمّل یقین ہے

حیرت زدہ ہوں آپ کے ذہنی تناو پر

                جناب شادؔ آکولوی نے افتخار راغبؔ پر لکھے گئے  مرحوم کلیم عاجزؔ ، جناب پروفیسر احمد سجاد، جناب ڈاکٹر مولا بخش،  جناب پروفیسر علیم اللہ حالیؔ، جناب اسلم کولسری اور جناب فیض الامین فیضؔ کے مضامین سے اقتباسات پیش کیے۔ اس کے بعد جناب ابولخیر پھر تشریف لائے اور جناب افتخار راغبؔ کی تازہ غزلوں میں سے ایک غزل پیش کی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

دن میں آنے لگے ہیں خواب مجھے

اُس نے بھیجا ہے اِک گلاب مجھے

زعم تھا بے حساب چاہت ہے

اُس نے سمجھا دیا حساب مجھے

پڑھتا رہتا ہوں آپ کا چہرہ

اچھی لگتی ہے یہ کتاب مجھے

لیجیے اور امتحان مرا

اور ہونا ہے کامیاب مجھے

کوئی ایسی خطا کروں راغبؔ

جس کا ملتا رہے ثواب مجھے

                صاحبِ شام جناب افتخار راغبؔ کو ناظمِ شام نے مزاحیہ کلام کی دعوت دی۔ آپ کے کلام سے پوری محفل زعفران زار ہو گئی۔ چند اشعار آپ کی مسکراہٹوں کی نذر:

بیوی سے جب ہوا تو مجھے ماننا پڑا

’’ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا ‘‘

بے وزن شعر کہتا ہوں ستّر برس سے میں

’’تریاکیِ قدیم ہوں دودِ چراغ کا‘‘

چلو واعظ سے چل کر پوچھتے ہیں

’’ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا‘‘

دکھائے گا نیا فیشن یہ آخر

’’کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا‘‘

بڑھاپے میں کسی بڑھیا پہ راغبؔ

’’نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا‘‘

دولت کی آرزو ہے نہ خواہش ہے مال کی

کھیتی گھنی اُگا دے مرے سر پہ بال کی

ٹوپی پہن کے جاتا ہوں سسرال کیا کروں

رہ جائے کچھ تو آبرو گنتی کے بال کی

ملتا ہوں تم سے رات میں چشمہ اتار کے

تعریف کیا کروں میں تمھارے جمال کی

’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘

میرا چشمہ مجھے دیا جائے

ڈائٹنگ کر رہا ہے جب سے وہ

سارا کھانا اکیلے کھا جائے

ایک بھی شاعرہ نہیں آئی

کون سننے مشاعرہ جائے

زور سے اپنے سر کو ٹکرا کر

ان کی دیوار کا مزہ لیجئے

کھائیے اس پہ رکھ کے بریانی

تازہ اخبار کا مزہ لیجئے

موٹی عورت سے کیجیے شادی

ایک میں چار کا مزہ لیجئے

                اس کے بعد ناظمِ تقریب نے مہمانانِ خصوصی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ جناب ارشاد احمد نے افتخار راغبؔ کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے تابناک مستقبل کے لیے دعا کی۔ جناب فیروز خان جو جناب افتخار راغبؔ کے بچپن کے دوست ہیں، نے راغبؔ کے ابتدائی دور  یعنی اسکول اور کالج کے زمانے کے غیر مطبوعہ سنجیدہ اور مزاحیہ اشعار اپنی یاداشت سے پیش کیے۔ایک شعر آپ کی نذر:

اِس طرح اپنا سفینہ نہ بھٹکتا راغبؔ

اُس کی آنکھوں کے سمندر میں جو ساحل ہوتا

                مجلس فروغ اردو ادب قطر کے صدر جناب فرتاشؔ سید نے فرمایا کہ آج کا دن یقیناً بڑا اہم ہے کیوں کہ بزمِ اردو قطر کی جانب سے دوحہ کے چوتھے  اہم شاعر کی شام منائی جا رہی ہے۔میں مجلس فروغِ اردو ادب کی جانب سے بزمِ اردو قطر اور جناب افتخار راغبؔ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔راغبؔ شروع کے دنوں سے ہی سامعین کو اپنے اشعار کی طرف راغب کرتے رہے ہیں اور مختلف تنظیموں میں بھی آپ نے بڑے خلوص کے ساتھ اپنی خدمات انجام دی ہیں۔

                کاروانِ اردو قطر کے بانی صدر جناب عتیق انظرؔ نے فرمایا کہ میں افتخار راغبؔ کو جب سے سن رہا ہوں تب سے شاعری کے تئیں اِن کا خلوص اِن کی محنت دیکھی ہے۔ بہت آسان الفاظ استعمال کر کے بہت سادہ اور سلیس انداز میں شعر کہتے ہیں لیکن اِس سادگی میں پُرکاری ہے،  مختلف ڈائمنشنس ہیں اور تہہ داری ہے۔ آپ بنیادی طور پر محبت کی شاعری، غزل کی شاعری کے شاعر ہیں۔ انظرؔ صاحب نے معنوی تہہ داری سے لبریز افتخار راغبؔ کے چند اشعار پیش کرکے ان پر مختصر گفتگو بھی کی جن میں مندرجہ ذیل اشعار شامل تھے:

مرے دل کو بچپن میں لُو لگ گئی

سو گھر کر گیا دل میں ڈر دھوپ کا

کھل کھلا کر ہنس رہے ہیں ہم پہ یہ گملے کے پھول

کس سے پوچھیں کیا بتائیں گھر ہمارا ہے کہاں

چین اک پل نہیں مجھے راغبؔ

ہو گیا ہے نہ جانے کیا مجھ کو

کس درجہ سرور بخش تھا وہ

اُس کوچے میں جھوٹ موٹ جانا

                انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی نے فرمایا کہ ۱۹۹۹ء میں میں نے پہلی بار افتخار راغبؔ کو اِ ک نشست میں سناتھا ۔ اُس وقت جو تاثر قائم ہوا تھا وہ تا حال باقی ہے۔میں دوحہ میں جن لوگوں کو شاعر مانتا ہوں اُن میں افتخار راغبؔ بھی شامل ہیں۔ راغبؔ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ چوبیس گھنٹے کے شاعر ہیں ۔یہ شاعری اسی انداز سے کرتے ہیں جو شاعری کا تقاضا ہے۔ میں ان کی کاوشوں کا پہلے بھی قدر دان تھا اور آج بھی ہوں۔اگر ان کی شاعری کے متعلق کچھ کہوں تو بہ زبانِ حالیؔ یوں کہوں گا:

ایسی غزلیں سنی نہ تھیں حالیؔ

یہ نکالی کہاں سے تم نے بیاض

 راغب صاحب ہر اعتبار سے اِس کے مستحق تھے کہ اِن کا جشن منایا جاتا  چاہے بحیثیت شاعر ہوں یاتنظیموں کے ناظم ۔

صاحبِ شام جناب افتخار راغبؔ نے بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران اور مضامین و منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے والے احباب اور مترنمین و مہمانانِ خصوصی اور تمام سامعین کا شکریہ ادا کیا جنھوں اپنے خلوص کا ثبوت دیتے ہوئے پروگرام کو کامیاب بنانے میں تعاون کیا۔ آپ نے قطر کے عظیم شعراے کرام کے ساتھ اسٹیج پر شریک ہو نے پر  خوشی کا اظہار کیا۔

                بزمِ اردو قطر کے صدر اور صدرِ اجلاس جناب شادؔ آکولوی نے صدارتی گفتگو میں فرمایا کہ افتخار راغبؔ بہت سوچ سمجھ کر شاعری کرتے ہیں اور تنظیموں میں بڑے اخلاص کے ساتھ خدمات انجام دیتے ہیں۔ میں نے ہر محفل میں دیکھا ہے کہ باہر سے آنے والے شعراء بھی ان کے کلام کی طرف کافی متوجہ ہوئے ہیں۔

                آخر میں بزمِ اردو قطر کے سکریٹری نشر و اشاعت جناب روئیسؔ ممتاز نے تمام تنظیموں کے ذمہ داران ، شعراے کرام و معزز سامعین کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے بعد گروپ فوٹو کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا اور تمام سامعین شروع سے آخر تک پوری یکسوئی ساتھ افتخار راغبؔ کی شاعری اور ان کے متعلق کی جانے والی گفتگو سے محظوظ ہوتے رہے ۔

(رپورٹ: سید فیاض بخاری کمالؔ، نائب سیکریٹری،  بزمِ اردو قطر)

تبصرے بند ہیں۔