آف شور چھپی دولت کا شور

1890ء کے عشرے میں امریکہ میں گھوڑے اور چڑیا کانظریہ منظرعام پر آیا ۔ اِس "معاشی” نظریئے کو پیش کرنے والے نام نہاد ماہرین کا خیال تھا کہ غریب چڑیوں کی فلاح وبہبود کیلئے گھوڑوں کو کافی مقدار میں دلیہ کھلانا چاہیئے ۔ اس طرح ان کے بچے کھچے دلیئے کے دانے سڑکوں پر گریں گے جنھیں چُگ کر چڑیاں بھی اپنا پیٹ بھر سکیں گی۔ گمان غالب ہے کہ 1930ء کی دہائی کی عالمی معاشی کساد بازاری کے دوران امراء کے پاس دولت کے انباردیکھ کر امریکی کاؤ بوائے اور مزاح نگار ولیم پین راجرز نے کچھ ایسی ہی ذہنی کیفیت میں فقرہ کساہو گا: "دولت ساری کی ساری اوپر والے طبقے کے پاس شاید اس امید کے ساتھ جمع کر دی گئی ہے کہ یہ نیچے رِس رِس کر ضرورت مندوں تک پہنچ ہی جائے گی۔” امراء کی دولت کے رِس رِس کر غرباء تک پہنچنے(Trickle Down) کی اصطلاح کو 1980ء کی دہائی میں امریکی صدر ریگن کے سیاسی ناقدین نے خوب استعمال کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ریگن حکومت کی معاشی پالیسیاں صرف دولتمند طبقے کے معاشی مفادات کا تحفّظ کرنے پر مرکوز تھیں۔ 2011ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران اپنے خطابات میں نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی کے ڈیمئن اوکارنر نے تولگی لپٹی رکھے بغیر Trickle Down کے معاشی نظریئے کو امیروں کا غریب طبقے پر پیشاب کرنے جیسا قرار دے دیا۔

جولائی 2012ء میں برطانوی روزنامے دی گارڈین میں خاتون سیاسی مدیرہ ہیتھر سٹیورٹ کا مضمون بعنوان "دولت کبھی نیچے نہیں رِستی، یہ سات سمندر پار بھاگ جاتی ہے” شائع ہوا ۔ ہیتھر سٹیورٹ نے ٹیکس جسٹس نیٹ ورک نامی غیر منافع بخش یورپی ریسرچ گروپ کیلئے کام کرنے والے معیشت دان جیمز ہنری کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے بینک آف انٹر نیشنل سیٹلمنٹ (BIS) اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ڈیٹا کی مدد سے دنیا کے دولتمند افراد کے کم وبیش 21 کھرب ڈالر (یا13کھرب پاؤنڈز) کے سمندر پار اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جس کے مطابق ان امیر افراد نے مختلف ممالک کی حکومتوں کو تقریباََ 280 ارب ڈالر کا ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کیلئے اپنی دولت دنیا کے ایسے ممالک یا علاقوں میں چھپا رکھی تھی جہاں ٹیکسوں کی انتہائی معمولی یا صفر شرح لاگو ہے جس کی وجہ سے ان ممالک یا علاقوں کو Tax Haven کہا جاتا ہے۔

جیمز ہنری کے مطابق دنیا بھر کے تقریباََ ایک کروڑ افراد غیر ممالک میں خفیہ اکاؤنٹس کے مالک ہیں تاہم 21 کھرب ڈالر کی خفیہ دولت میں سے کم وبیش 9.8کھرب ڈالر زصرف 92ہزار لوگوں کی ملکیت ہیں اور اس دولت میں غیر مالیاتی اثاثے مثلاََ رہائش گاہیں وغیرہ شامل نہیں ہیں۔ ہنری کے خیال میں اگر حکومتیں سمندر پار خفیہ اکاؤنٹس کے مالک اپنے سنہری راج ہنسوں سے ٹیکس وصول کرنے یا کم از کم انھیں اپنے ملکوں میں سرمایہ واپس لے جانے پر مجبور کرسکیں تو معیشت کا یہ بڑا سیکٹر ٹیکس سسٹم میں عدل وانصاف قائم کرنے کے علاوہ موسموں کی تبدیلی جیسے مہنگے ترین عالمی مسئلوں کو حل کرنے ، غریب افریقی ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور یورو کرنسی کے بحران کو حل کرنے میں کامیابی دلا سکتا ہے۔ ہیتھر سٹیورٹ کا خیال ہے کہ سمندر پار خفیہ اثاثوں کی مالیت ان ممالک کے بین الاقوامی قرضوں سے کہیں بڑھ کر ہے جہاں سے یہ رقومات غیر ممالک کو منتقل کی گئی ہوں گی۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ اگر افریقہ کے غریب ترین ممالک اپنے امراء کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ کسی کے مقروض ہوتے نہ ہی انھیں عالمی مالیاتی اداروں سے اپنے قرضے معاف کروانے کا احسان اٹھانا پڑتا۔تاہم دولت کے بیرونِ ملک اڑان بھرنے اور امراء کے دیانتداری کے ساتھ ٹیکس نہ دینے پر تیل سے مالا مال نائیجیریا کو 1970ء سے 2012ء تک 300ارب ڈالر اور آئیوری کوسٹ کو 141ارب ڈالر کانقصان پہنچ چکا تھا۔ مثال دے کر اسے کچھ یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ اگر 21کھرب ڈالر کے غیر ملکی خفیہ اثاثوں پر یہ امراء محض 3فیصد سالانہ کی آمدنی بھی حاصل کررہے ہوں تو آمدنی کی یہ رقم 63ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس 63ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی پر اگر 30فیصد ٹیکس عائد کیا جائے تو 18ارب 90کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سالانہ حاصل ہوگی جو اس سے کہیں زیادہ ہے جو امیر ممالک باقی دنیا کو بطور امداد سالانہ مہیّا کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دولت کی غیر مساوی تقسیم کا حساب لگانے کے معیارات اور پیمانے امیر اور غریب کے درمیان پائی جانے والی مالیاتی خلیج کی صحیح تصویر نہیں دکھا رہے۔ سٹیورٹ لینسلے اپنی کتاب ” عدم مساوات کی قیمت” میں لکھتے ہیں: ” اس میں ہر گز کوئی شک نہیں کہ اونچے طبقے کی آمدنی اور دولت کے اعدادوشمار (غیر مساوی تقسیمِ دولت کے)مسئلے کو (جان بوجھ کر) کم کر کے دکھاتے ہیں۔” ہیتھر سٹیورٹ کے مطابق کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ Tax Heavens میں چھپائے گئے اثاثوں کی مالیت اتنی زیادہ ہے کہ ان کے ذریعے مختلف ممالک کے درمیان مالیاتی طاقت کا توازن یکسرتبدیل کیا جاسکتا ہے۔ فرانسیسی معیشت دان اور غیر مساوی تقسیمِ دولت کے ماہر تھامس پکٹی بھی اس تاثر کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ Tax Heavens میں چھپائی گئی دولت پورے یورپ کو باقی ماندہ دنیا کیلئے ایک بہت بڑے قرض دہندہ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ 2013ء میں رومن کیتھولک چرچ کے 266ویں اور موجودہ پوپ فرانسس نے عیسائیوں سے اپنے سالانہ مذہبی خطاب میں امراء کی دولت کے رِس رِس کر غرباء تک پہنچنے کے نظریئے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ حقائق کی بنیاد پر کسی طور بھی درست ثابت نہیں ہوا ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی 2015ء کی رپورٹ بعنوان ” آمدنی کی عدم مساوات کی وجوہات اور نتائج ” میں بھی قرار دیا گیا کہ دولت کا امراء سے غرباء کی طرف رِسنا سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوتا ، الٹا امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے (اور غریب غریب تر)۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق:” اگر اوپر والے 20فیصد امراء کی آمدنی کے حصے میں اضافہ ہوتا ہے تو خام ملکی پیداوار میں درمیانی عرصے کے دوران فی الحقیقت کمی واقع ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دولت رِس کر نیچے والے طبقات کی طرف نہیں جاتی ۔ اس کے متضاد اگر 20فیصد نچلے غریب طبقے کی آمدنی کے حصے میں اضافہ ہوتا ہے تو خام ملکی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔”

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی 2012ء کی رپورٹ ہو یا 2016ء کا پانامہ گیٹ، سچ یہی ہے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ جیسی پالیسیوں سے اگر صرف دولتمند طبقے کو ہی فائدہ پہنچایا جائے گا تو بجائے اِس کے کہ ان کی دولت کا کچھ حصہ رِس رِس کر دنیا کے نچلے غریب طبقے تک آپہنچے، یہ دولت امراء ہی کے مابین گردش کرتی رہے گی اور بہت بڑھ جانے کی صورت میں ٹیکس وصول کرنے والی حکومتوں کے ساحل سے ہٹ کر سات سمندر پار کیکسی Tax Heaven میں منتقل ہوجائے گی اور غرباء فقط منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ اسی لئے تو ساڑھے چودہ سو برس پہلے، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہی نصیحت جاری فرمائی تھی: دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ دولت تمھارے امراء ہی کے مابین گردش کرتی رہ جائے (الحشر:7)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔