آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: مبارک جدوجہد کے 45 سال(آخری قسط)

شاہ اجمل فاروق ندوی

دورِ رابع کی اہم خدمات

۲۰۰۴ میں آر ایس ایس کے اشارے پر کاچی کاما کوٹی پیٹھ کے شنکرآچاریہ نے بابری مسجد کا مسئلہ گفتگو کے ذریعے حل کرنے کے لیے صدرِ بورڈ سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کرنا چاہا۔ میڈیا میں دھوم مچادی گئی کہ شنکراچاریہ نے بابری مسجد کے مسئلے کا بہترین حل لکھ کر بورڈ کے صدر کو ارسال کردیا ہے۔ یہ دراصل آرایس ایس کا ایک حربہ تھا۔ موصوف شنکرآچاریہ کے آر ایس ایس سے روابط جگ ظاہر ہیں ۔ لکھنؤ میں بورڈ کی مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ میں شنکر آچاریہ کا خط کھولا گیا۔ اس میں موجودہ بے تکی تجاویز کو ماننے سے سختی کے ساتھ انکار کردیا گیا اور میڈیا کے سامنے ایک بار پھر دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا گیا کہ مسجد فرش سے عرش تک مسجد ہی رہتی ہے۔ اس سے  دست برداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس اقدام سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بہت پست ہوگئے۔

حکومت ہند عرصے سے نکاح کے لازمی رجسٹریشن کا قانون لانے کے فراق میں تھی۔ اس لیے بورڈ نے پہلے ہی ایک جامع ترین نکاح نامہ مرتب کرنے اور اسے عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۰۰۵ کے بھوپال اجلاس میں اس نکاح نامے کو منظوری دی گئی۔ میاں بیوی اگر اس نکاح نامے پر دستخط کردیں تو انھیں باہمی اختلافات نپٹانے کے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دارالقضا یا شرعی پنچایت کے ذریعے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ ایک بڑی حصول یابی تھی۔

اسی بھوپال اجلاس میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے بورڈ نے ’’تفہیم شریعت کمیٹی‘‘ تشکیل دی۔ تاکہ اس کمیٹی کے ذریعے عام مسلمانوں اور غیرمسلم قانون دانوں کو شریعت کے احکام اور ان کی حکمت سمجھائی جاسکیں ۔ یہ کمیٹی عوام میں بھی تفہیم شریعت کے پروگرام کرتی ہے اور وکلاء اور قانون دانوں کے درمیان بھی۔

۲۰۰۵ ہی میں بورڈ نے مسلمانوں کو اپنی سرگرمیوں سے واقف کرانے کے لیے ایک سہ ماہی خبرنامے کا اجراء کیا۔

۲۰۰۶ میں حکومت ہند نے دینی مدارس کے سامنے ’’مرکزی مدرسہ بورڈ‘‘ کی تجویز رکھی، تاکہ مدارس کو حکومت سے مربوط کیا جاسکے اور مدارس کو سرکاری اسکیموں سے فائدہ پہنچایا جاسکے۔ لیکن بورڈ نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور حکومت اس سے دست بردار ہوگئی۔

راجستھان کے ایک اسکول میں ایک طالب علم کو داڑھی رکھنے پر اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ لڑکے نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ ’’ہم طالبانی کلچر کو عام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو ’’دقیانوسیت‘‘ سے بچنے کی نصیحت بھی کرڈالی۔    اس سماعت کے خلاف بورڈنے صاف اعلان کیا کہ جسٹس صاحب کی بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ۔ مزید یہ کہ ان کے غلط تبصرے کے خلاف مراسلاتی مہم چلائی۔ اس کے نتیجے میں جسٹس صاحب کو اپنا تبصرہ واپس لینا پڑا۔

حکومت کے اشارے پر اچانک تین پرسنل لا بورڈ میدان میں آئے۔ شیعہ پرسنل لا بورڈ، بریلوی برسنل لا بورڈ اور خواتین پرسنل لا بورڈ۔ سب کو میڈیا نے خوب شہ  دی اور یہ باور کرایا جانے لگا کہ بورڈ تقسیم ہوگیا ہے۔ الحمدﷲ بوڈر کی حکیمانہ قیادت سے سب اپنی موت آپ مرگئے۔

ہندستان کی کئی ریاستوں نے ’’سوریہ نمسکار‘‘ اور ’’وندے ماترم‘‘ کو لازمی کرنے کی بات کہی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے سخت ایکشن لیا اور اسے قطعاً نامنظور کردیا۔ متعلقہ حکومتوں پر اس کے واضح اثرات محسوس کیے گئے۔

گود لینے کے مسئلے پر ایک مرتبہ پھر ایک مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا۔ جس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ منھ بولا بیٹا ہر مذہب کے پیروکار کے لیے سگے بیٹے جیسا ہونا چاہیے۔ بورڈ نے فوراً ردعمل ظاہر کیا۔ سپریم کورڈ میں فریق بن کر مقدمہ لڑا اور الحمداﷲ مقدمہ جیت لیا۔

آر ایس ایس کے اشارے پر ایک فرقہ پرست شخص نے سپریم کورٹ میں تمام دارالقضا اور دارالافتاء بند کرانے کا دعویٰ داخل کیا تھا۔ بورڈ اس معاملے میں بھی فریق بنا اور الحمداﷲ بورڈ کو کام یابی ملی۔

Right to Education (تعلیم کا حق) کے عنوان سے حکومت ہند نے ایک قانون بنایا تھا، جس کے تحت پرائمری تک تمام بچوں کو لازمی تعلیم کا حق ملنا تھا۔ بہ ظاہر یہ بہت اچھی خبر تھی۔ لیکن اس میں اسلامی مکاتب کے وجود کے لیے بڑا خطرہ پوشیدہ تھا۔ بورڈ کی قیادت نے خطرے کو بھانپ لیا۔ آئین حقوق بچائو مہم چھیڑ کر کام شروع کیا۔ الحمدﷲ حکومت ہند کو بورڈ کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔

ہم جنسی کی حمایت پر سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ بورڈ نے معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے خود فریق بن کر مقدمہ لڑا۔ الحمدﷲ اس مسئلے میں بھی فیصلہ بورڈ کی حمایت میں ہوا۔

ایک ’’لیگل سیل‘‘ تشکیل دیا گیا۔ یہ سیل مسلم پرسنل لاکے خلاف ہونے والے فیصلوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور بورڈ کے تحت لڑے جانے والے مقدمات میں قانونی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔

بابری مسجد کے مقدمے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جب اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا تو بورڈ نے اس فیصلے کے خلاف چھ اپیلیں فائل کرائیں ۔ اس فیصلے کے خلاف حکم التواء حاصل کیا اور اب سپریم کورٹ میں مسلمانوں کی طرف سے مقدمہ لڑ رہا ہے۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے دور میں مجموعۂ قوانین اسلامی کی اشاعت ہوچکی تھی۔ موجودہ صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے اپنے دور میں اس مجموعے کے ساتھ فقہ شافعی، فقہ اہل حدیث اور فقعہ جعفری کے ضمیمے لگانے کا بھی فیصلہ کیا۔ تاکہ یہ مجموعہ پوری امت کا متفقہ مجموعہ بن جائے۔ ساتھ ہی اس مجموعے کی دفعہ وار ترتیب پر نظر ثانی اور انگریزی ترجمے کا کام سابق جج جسٹس شاہ محمد قادری کے سپرد کیا گیا۔ الحمدﷲ یہ عظیم کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

وقف ایکٹ ۲۰۱۰ میں بعض دفعات نامناسب تھیں ۔ بورڈ کو ان پر اعتراض تھا۔ چناں چہ بورڈ نے ’’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘‘ کے خلاف آئینی حقوق بچائو مہم شروع کی تو اس ایکٹ کو بھی اپنے دائرہ عمل میں داخل کرلیا۔ چنانچہ حکومت کو اس بل میں ترمیم کرنی پڑی۔ حکومت نے وقف ترمیمی بل ۲۰۱۳ پیش کیا۔ یہ بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں پاس ہوا اور ایک قانون کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی کے تحت حکومت نے تاریخی اعلان کرتے ہوئے دہلی میں ۱۲۳؍ وقفیہ جائے دادوں کو غیرقانونی قبضے سے چھڑانے کا اعلان کیا۔

جون ۲۰۱۶ میں آر ایس ایس کے اشارے پر کام کرنے والی ایک نام نہاد مسلم خاتون تنظیم نے طلاق ثلاثہ کے خلاف میڈیا کے سامنے ہوّا کھڑا کیا اور اپنے ساتھ ہزاروں خواتین کے ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور میڈیا شور مچائے جارہا تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بوڈر نے ایکشن لیا۔ بورڈ کا شعبۂ خواتین پوری سرگرمی کے ساتھ کام میں لگ گیا۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بہت کام یاب پریس کانفرنسیں کی گئیں ۔ اسلام کا نظامِ طلاق بھی واضح کیا گیا اور موجودہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی بھی کھولی گئی۔ میڈیا کا اُن پریس کانفرنسوں کی طرف متوجہ ہونا تھا کہ بالکل سناٹا ہوگیا۔

اکتوبر ۲۰۱۶ میں موجودہ فرقہ پرست مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ و تعدد ازدواج کے خلاف حلف نامہ داخل کیا۔ بورڈ نے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا حلف نامہ بھی داخل کیا۔ اس درمیان لا کمیشن آف انڈیا نے حکومت کے اشارے پر ایک سوال نامہ بھی جاری کیا۔ تاکہ یکساں سول کوڈ کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ بورڈ نے دہلی کے پریس کلب میں تمام مسالک اور جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لاکمیشن کے سوال نامے کا بائیکاٹ کیا۔ یکساں سول کوڈ کے خلاف    مسلم پرسنل لا کی حمایت میں تحریک چھیڑنے کا اعلان کیا۔ صدر بورڈ نے اس سلسلے میں تحریری اپیل جاری کی۔ ملک بھر میں بے داری کی ایک لہر چل پڑی۔ گائوں دیہات سے لے کر شہروں تک دستخطی مہم چل پڑی۔ شاہ بانو کیس کے بعد مسلمانان ہند میں اس طرح کی بے داری پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی۔ مہم کے اختتام پر تقریباً پانچ کروڑ دستخط بورڈ کے مرکزی دفتر پہنچے، جن میں تین کروڑ خواتین اور دو کروڑ مردوں کے دستخط شامل تھے۔ ان تمام دستخطوں کو مرد عورت اور صوبوں کے لحاظ سے الگ الگ کیا گیا۔ پھر ماہرین کی نگرانی میں ان سب کو اسکین کرایا گیا اور صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، وزیر قانون، لاکمیشن اور دوسرے اہم سرکاری ذمے داران و اداروں کو میل کیا گیا۔ مزید یہ کہ ان تمام اسکین شدہ دستخطی کاغذوں کو ہارڈسک میں منتقل کرکے ایک وفد لا کمشنر کے پاس گیا اور انھیں وہ ہارڈسک سونپی۔ اس پوری مہم کے تین بڑے فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں شریعت کے متعلق بے داری پیدا ہوئی۔ دوسرے یہ کہ آئندہ اس طرح کے کسی بھی موقعے کے لیے بورڈ کے پاس پانچ کروڑ مسلمانوں کا یہ واضح اعلان محفوظ ہوگیا کہ وہ شریعت ہی کو اختیار کریں گے اور یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کریں گے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ لاکمیشن سخت دباؤ میں آگیا اور اس نے اس بحث کو ختم ہی کردیا۔

۱۴؍دسمبر ۲۰۱۷ سے سپریم کورٹ میں ایک مجلس کی تین طلاق کے مسئلے پر سماعت شروع ہوئی۔ اس مسئلے میں مرکزی حکومت نے کھلے عام مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ایک فریق بنایا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سمیت تین ججوں کی ایک بنچ نے مسلسل چھ دن تک معاملے کی سماعت کی۔ تین دن سرکاری وکیلوں نے اپنی بات پیش کی اور تین دن بورڈ کے وکیلوں نے۔بورڈ نے مسلم علماء کی ایک بڑی ٹیم کو دہلی میں بٹھا کر اپنے وکیلوں کی زبردست تیاری کرائی۔ ہزاروں صفحات کے ترجمے کرائے، وکیلوں کے ساتھ بحث و مباحثے کرائے، دستاویزات کی قرات کرائی، غرض یہ کہ قانونی لڑائی کے لیے جو کچھ ضروری تھا، وہ سب کچھ کرایا۔ اس درمیان حکومت کے اشارے پر پورے میڈیا نے اسلام کے نظام طلاق کے خلاف ماحول بنائے رکھا۔ ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۷ کو کورٹ کا فیصلہ آیا۔ یہ فیصلہ صاحبان فہم کی امید کے مطابق آیا تھا۔ یعنی سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو چھ ماہ کے لیے کالعدم بھی قرار دیا تھا اور مسلم پرسنل لا کو بنیادی حق بھی تسلیم کیا تھا۔ بورڈ نے اس فیصلے پر غور و فکر کے لیے بھوپال میں ایک میٹنگ طلب کی۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے وکلاء اور ماہرین قانون کی بحث کروائی کہ بورڈ کو نظر ثانی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے یا نہیں ؟ اکثر ماہرین قانون کا ماننا تھا کہ ایسا نہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ بورڈ نے ایسا ہی کیا اور بہت معروضی انداز اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا شکریہ بھی ادا کیا کہ اس نے پرسنل لا کو بنیادی حق تسلیم کیا۔ ساتھ ہی کورٹ کے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیے جانے پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا کہ اس سے پرسنل لا میں دخل اندازی کا دروازہ کھل جائے گا۔

طلاق ثلاثہ کے متعلق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت ہند سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ افراد و اداروں سے مشورہ کرکے کوئی قانون بھی بنا لے۔ اس پر حکومت ہند نے کہا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے دیا تو اب کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ۔ اسی درمیان گجرات میں صوبائی الیکشن آگئے۔ ہماری فرقہ پرست حکومت نے ماحول گرم کرنے اور متعصب ہندؤوں کو خوش کرنے کے لیے طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک انتہائی احمقانہ اور غیر منطقی بل تیار کرایا اور اسے بہت جلد بازی میں لوک سبھا میں پاس بھی کرا لیا۔ لوک سبھا میں سیکولر پارٹیاں بھی حکومت کے ساتھ تھیں ۔ اگلا مرحلہ راجیہ سبھا کا تھا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ فوراً متحرک ہوا اور اس درمیان سنیچر اور اتوار کی چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور راجیہ سبھا کے سیکولر ممبران سے طوفانی ملاقاتیں شروع کر دیں ۔ دو دن میں کی گئیں ان ملاقاتوں کا شان دار نتیجہ سامنے آیا۔ پیر کے دن جب یہ بل راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن نے اس کی سخت مخالفت کی اور پاس نہیں ہونے دیا۔ کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے کھل کر اس بل کی مخالفت شروع کر دی۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے بورڈ کے وفد سے ملاقات کے بعد اس بل کو کسی صورت میں اپنی ریاست میں لاگو نہ کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف بورڈ نے ایک دوسرا انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ملک بھر میں خواتین کی پر امن احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ الحمد للہ ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اب تک مختلف شہروں میں لاکھوں خواتین ان احتجاجات میں شرکت کر چکی ہیں ۔ اکثر بڑے شہروں میں یہ ریلیاں نکل رہی ہیں ، جن میں شریک خواتین اس کالے بل کے خلاف اپنا احتجاج کرتی ہیں اور سرکاری ذمے داران کو میمورنڈم بھی سپرد کرتی ہیں ۔ فرقہ پرست مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان ریلیوں سے حواس باختہ ہیں ۔ کیوں کہ اُن کا جھوٹا پروپیگنڈہ دنیا کے سامنے آچکا ہے۔

  بابری مسجد ملکیت مقدمہ اب آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوچکی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ہائی کورٹ کی طرح سپریم کورٹ میں بھی مسلمانوں کی طرف سے اہم ترین نمائندے کی حیثیت سے اپنا کردار نبھا رہا ہے۔ مقدمے کے آخری مراحل میں داخل ہوتے ہی ہندو فرقہ پرست مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کیس کو کم زور کرنے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں ۔ایک مشہور ہندو مذہبی رہنما شری شری روی شنکر کی دعوت پر بورڈ کی مجلس عاملہ ایک رکن کی قیادت میں بعض مسلم شخصیات جمع ہوئیں ۔ عجیب بات یہ تھی کہ دعوت دینے والے گرو جی کے پاس صلح کی کوئی تجویز نہیں تھی۔ اُن کی دعوت پر لبیک کہنے والی مسلم شخصیات نے کسی جگہ ایک یونی ورسٹی کے بدلے بابری مسجد کی زمین پر رام مندر بنانے کی غیر منطقی اور غیر شرعی تجویز رکھ دی۔ اس واقعے پر مسلمانوں میں سخت بے چینی کا پھیلنا فطری تھا۔ بورڈ نے اس موقعے پر بھی ملت کی مسیحائی کی۔ مسلمانوں کی بے چینی کو بھی دور کیا اور حکومت کے اشارے پر کام کرنے والی ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعے کیس کا رُخ موڑنے کی سازش بھی ناکام کی۔ ایک طرف اپنے رکن عاملہ کو رجوع کے تمام اخلاقی مواقع دینے کے باوجود رجوع نہ کرنے کی وجہ سے بورڈ سے خارج کر دیا تو دوسری طرف بابری مسجد کے متعلق اپنے پرانے اور شرعی و منطقی نقطۂ نظر کو پرزور انداز میں دہرایا۔

یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کا سرسری جائزہ ہے۔ الحمدﷲ گزشتہ ۴۵؍ برسوں میں اتحاد و اتفاق کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے بورڈ سے جو عظیم کام    لیے ہیں ، وہ قابل اطمینان بھی ہیں اور لائق شکر بھی۔ ان شاء اﷲ امت مسلمہ کا یہ متحدہ، متفقہ اور معتبر ترین ادارہ اسی طرح تحفظ شریعت کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ شریروں کی شرارتیں اور فتنہ پروروں کے فتنے اس کے تقدس کو پامال نہ کر سکیں گے۔ ہم معمولی ترمیم کے ساتھ بورڈ کی قیادت کے لیے اقبال کا یہ شعر پڑھ سکتے ہیں :

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کے نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جن کو خبردار

تبصرے بند ہیں۔