"چپ رہو” اُس نے کہا اور لب مقفّل ہو گئے

افتخار راغبؔ

"چپ رہو” اُس نے کہا اور لب مقفّل ہو گئے

لفظ کچھ اِترا رہے تھے سب مقفّل ہو گئے

۔

 مستقل تھا خوف جن بے باک جذبوں کا تمھیں

سرد خانہ میں وہ دل کے اب مقفّل ہو گئے

۔

 کتنی وحشت ناک نکلی خامشی اُس شوخ کی

لفظ کچھ نکلے مگر مطلب مقفّل ہو گئے

۔

تیری چشمِ شوق کے در وا ہوئے تھے یاد ہے

کب ہوا میں قید اور وہ کب مقفّل ہو گئے

۔

 دردِ دل انسانیت کا درس تھا جن کا شعار

ایسا لگتا ہے کہ وہ مکتب مقفّل ہو گئے

۔

گھومنا صد شوق آنکھوں میں بہت پُر کیف تھا

یاد آیے قفل راغبؔ جب مقفّل ہو گئے

تبصرے بند ہیں۔