حلالہ اور تعدّد ازواج: غلط اندازِ فکر، منفی رویّے

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ہندوستان میں اسلامی نظامِ خاندان پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے _ چند ماہ قبل سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ پر ایک ایسا فیصلہ دیا تھا جس کی کیی شقیں اسلامی شریعت سے متصادم تھیں، اب پھر اس نے حلالہ اور تعدّد ازواج کے معاملات پر بھی فیصلہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے _ چیف جسٹس جناب دیپک مشرا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے ان معاملات میں دایر بعض درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے انھیں پانچ رکنی آئینی بنچ کو بھیج دیا ہے، جو اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کیا حلالہ اور تعدّد ازواج کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور لا کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے _

حلالہ کا معاملہ اسلامی شریعت میں بہت سادہ ہے_ کسی عورت کو اس کا شوہر تین بار طلاق دے دے تو وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے_ یہ حقیقت میں شوہر کو دی گئی سزا تھی کہ نکاح ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اگر تم نے اسے کھلواڑ بنایا اور بار بار طلاق دی تو تیسری بار طلاق دینے کے بعد تم اس عورت سے محروم ہوجاؤ گے _ اسلام میں طلاق عیب نہیں_  وہ مطلقہ عورت کو آزادی دیتا ہے کہ وہ بے نکاحی ہوکر گھر نہ بیٹھ رہے، بلکہ ازدواجی زندگی گزارے_ اسی طرح بیوہ ہونا اسلام میں عورت کی نحوست کی علامت نہیں _ اس لیے وہ کہتا ہے کہ اگر عورت کا دوسرے شوہر سے نباہ نہ ہوسکے، یا وہ بیوہ ہوجائے تو وہ پھر نکاح کر سکتی ہے _ اسے آزادی ہے کہ وہ چاہے کسی تیسرے مرد سے نکاح کرے اور چاہے تو پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلے _ اس معاملے میں اسلام نے عورت کی عزّت نفس کا خیال رکھا ہے _ پہلا شوہر اس سے زبردستی نکاح نہیں کرسکتا_ عورت کی مرضی ہو تبھی اسے نیے مہر کے ساتھ اپنے نکاح میں لے سکتا ہے_ اس سے معلوم ہوا کہ حلالہ عورت کی عزّت کی پامالی اور اس کے بنیادی انسانی حقوق کی نفی نہیں، بلکہ ان کی حفاظت ہے _

تعدّدِ ازواج بھی درحقیقت انسانوں کی فطری ضرورت کی تکمیل کی ایک شکل ہے_ اسلام میں ہر مرد کو حکم نہیں دیا گیا ہے کہ وہ لازماً ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرے، بلکہ ضرورت کے وقت اس کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنے والا تمام بیویوں کے درمیان مکمل مساوات برتے، کھانا، کپڑا، رہایش اور دیگر معاملات میں ان کے درمیان ذرا بھی فرق روا نہ رکھے _ اسلام نے نکاح کے بغیر جنسی تعلق کو حرام قرار دیا ہے اور خفیہ آشنائی کے خلاف سخت تنبیہ کی ہے اور اسے موجبِ سزا جرم قرار دیا ہے _

جس سماج میں طلاق کو عورت کے لیے عیب سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ نیک عورت وہ ہے جس کی ڈولی جس گھر میں جاتی ہے وہیں سے اس کی ارتھی اٹھتی ہے_ جس سماج میں بیوگی کو نحوست کی علامت سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ بیوہ عورتوں کو گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، وہ نام نہاد ‘پوتر’ علاقوں کے آشرموں اور مندروں میں پناہ لیتی ہیں اور دانے دانے کو محتاج ہوکر اپنی زندگی کاٹتی ہیں _ جس سماج میں ایک بیوی رکھتے ہوئے دسیوں بیسیوں عورتوں سے نکاح کے بغیر جنسی تعلق میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی، چنانچہ ایک طرف قانونی بیوی کے حقوق نہیں ادا کیے جاتے اور اس کے ساتھ خیانت کی جاتی تو دوسری طرف جن عورتوں سے ناجائز طور پر جنسی خواہش پوری کی جاتی ہے ان کی کویی ذمے داری نہیں اٹھائی جاتی _ اس سماج میں رہنے والے حلالہ اور تعدّد ازواج کی حکمتوں کو کیا سمجھ پائیں گے ؟؟!!

یہ بات تسلیم ہے کہ بعض مسلمان حلالہ اور تعدّد ازواج کے بارے میں صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے_ چنانچہ وہ غصے میں تین طلاق دے دیتے ہیں، پھر انھیں پچھتاوا ہوتا ہے تو کوئی ایسا آدمی تلاش کرتے ہیں جو ان کی بیوی سے ظاہری طور پر نکاح کرکے اسے طلاق دے دے، تاکہ اس سے دوبارہ نکاح ان کے لیے جایز ہوجائے_ یہ سراسر غیر اخلاقی اور گھناؤنی حرکت ہے_اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی سخت الفاظ میں مذمّت فرمائی ہے اور ایسا کرنے والے کو ‘کرایے کے سانڈ’ سے تشبیہ دی ہے_ اسی طرح مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کر لیتے ہیں، لیکن ان کو برابر کے حقوق نہیں دیتے، کسی ایک بیوی کی طرف مایل ہوجاتے ہیں اور دوسری کو لٹکتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا خیال نہیں رکھتے_ یہ دونوں طرح کے افراد صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے _ ان کو غلط روی سے روکنے کے لیے مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے بتایے ہویے دایرے کے اندر ہو _

قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ حلالہ پر پابندی درحقیقت عورت کے ساتھ زیادتی اور اس کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوگی_ اسی طرح تعدّد ازواج پر پابندی درحقیقت جایز جنسی تعلقات کی سرکوبی اور ناجائز جنسی تعلقات کو فروغ دینے کے مترادف ہوگا_

ایک عجیب بات یہ ہے کہ طلاق (جس کے بعد حلالہ کی نوبت آتی ہے) اور تعدّد ازواج کو مسلمانوں کا مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی سازی کی بات یہ سوچ کر کی جاتی ہے کہ اس کی زد مسلمانوں پر پڑے گی_ حالاں کہ مسلمانوں سے زیادہ یہ دوسروں کا مسئلہ ہے_ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ طلاق کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں ہے اور بغیر طلاق علیحدگی کے کیسز کا تو ہندو سماج میں کوئی شمار ہی نہیں_ اسی طرح تعدّد ازواج کا تناسب بھی مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں ہے _
ہندوستان میں ہر دس برس پر مردم شماری ہوتی ہے_ کچھ عرصہ قبل 2011 میں ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں تعدّدِ ازواج کے اعداد و شمار اخبارات میں شائع ہوئے تھے _ ان کے مطابق تعدّدِ ازواج کا تناسب ہندوؤں میں 5.8 فی صد، جب کہ مسلمانوں میں 5.7 فی صد ہے_ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج مسلمانوں میں ہندوؤں سے کم ہے _

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔