آنکھوں میں کیوں ہے یوں چمک شاید اُنھیں خبر نہیں

افتخار راغبؔ

 آنکھوں میں کیوں ہے یوں چمک شاید اُنھیں خبر نہیں

کیسی  تھی اُن کی اک جھلک شاید اُنھیں خبر نہیں

کیوں کھِل اُٹھی ہے زندگی، کب سے ہے یہ شگفتگی

کیوں روح تک گئی مہک شاید اُنھیں خبر نہیں

حیراں ہیں وہ کہ کیا ہوا، اب زخم کیوں ہیں بے مزہ

کیا کام کر گیا نمک شاید اُنھیں خبر نہیں

ہونٹوں پہ مسکراہٹیں، سینے میں اُن کی آہٹیں

اٹھتی ہے دل میں جو  کسک شاید اُنھیں خبر نہیں

کتنے درختِ دوستی زینت ہیں باغِ زیست کی

کس کی جڑیں ہیں روح تک شاید اُنھیں خبر نہیں

اب ہو سکوں کہ اضطراب آنکھوں میں اشک ہو کہ خواب

دونوں طرف ہیں مشترک شاید اُنھیں خبر نہیں

لہجے میں ایک سی دمک، ملتے ہیں سب سے بے دھڑک

راغبؔ ہی سے ہے کیوں جھجک شاید اُنھیں خبر نہیں

تبصرے بند ہیں۔