آنگ سان سوچی نے آنکیھیں بند کر لیں!

محمد خان مصباح الدین

میانمار میں مسلمان کا تہہ و تیغ کرنے کیلئے جس طرح سے ظلم و تشدد، مار پیٹ، قتل و غارت اور نسل کشی کی جارہی ہے وہ تاریخ انسانیت میں ایک سیاہ کن باب ہے۔اقوام متحدہ جہاں صرف بیان بازی میں مصروف ہے وہیں سلامتی کونسل نے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے تئیں اپنی آنکھیں موند کر رکھی ہیں ۔ روہنگیائی مسلمان برما کے پشتینی باشندے ہیں اور ان کی اس طریقے سے جاری جلاء وطنی ایک افسوسنا ک اور تشویشناک امر ہے,آج میانمار میں جو حیوانیت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اسکا اثر صرف میانمار تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ بحران پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور پوری دنیائے انسانیت کو شرمسار کر رہا ہے مگر میانمار حکومت حقائق کو سامنے لانے کے بجائے,اور اپنا نام واضح کرنے کے بجائے سامنے آنے والے سچ اور ظلم وبربریت کی داستان کو غلط اور جھوٹا قرار دے رہی ہے اور اس سے دامن بچانے کی کوشش کر رہی ہے,اور اسیطرح میانمار کی ظالم رہنما اور  عالمی شہرت یافتہ آنگ سان سوچی نےطویل خاموشی کے بعد اپنا منہ کھولا مگر برما میں درپیش مسائل کی مذمت اور تفتیش کےبجائےحقائق سے انکار کرتے ہوئے اس نے بیان دیا کہ ظلم بربریت کی ساری تصویریں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں اور یہ میانمار کی کے خلاف شوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہیں ہیں اور جھوٹی معلومات کی بنا پر لوگ غلط تصویر پیش کر رہے ہیں مختلف کمیونیٹیز میں مسائل پیدا کرنے کیلیئے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اور اسطرح کی افواہیں اور جھوٹی خبروں کو پھیلا کر دہشت گردوں کے مفاد کو تقویت پہونچانے کا مقصد کارفرما ہے ظالم آنگ سان سوچی نے مزید کہا کہ دہشت گردی میانمار کیلئے نئی ہے مگر حکومت اسبات کی مکمل کوشش کریگی کہ اسمیں اضافہ نہ ہو اور یہ پوری قوم اور ملک میں نہ پھیلے_

قارئین کرام!

اگر آنگ سان سوچی کی بات درست ہے تو سچ سامنے کیسے آئیگا اور حقائق سے پردہ فاش کیسے ہوگا جبکہ عالمی میڈیا کو راخین کے حدود میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے! ظاہر ہے جب تک میڈیا پسماندہ علاقوں میں نہیں جائیگا تو سچ سامنے کیسے آئیگا,لیکن اب تک کا جو بھی سچ ہمارے سامنے آیا ہے وہ انتہائی دردناک رہاہے ہر وہ انسان جس کے اندر ذرہ برابر انسانیت باقی ہے اس نے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی تصویروں کو دیکھ کر اسکی مذمت کی ہے اور افسوس سے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی ہے مگر وہ لوگ جو اس حیوانیت کی داستان لکھنے بیٹھے ہیں وہ لوگ دنیا اور انسانیت سے پرے ہٹ کر اپنا کام بڑی آسانی سے کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو درد و کرب میں مبتلا کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے سر پر میانمار کی ظالم حکومت اور اسکی رہنما آنگ سان سوچی کا مکمل ہاتھ ہے, آنگ سان سوچی جسے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا جو ایسا انعام ہے کہ جسے امن اور سلامتی کے قیام اور اسکی بقاء کی بنا پر دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ یہ انعام ایسی ظالم عورت کو دیا گیا جس نے پوری دنیائے انسانیت کو شرمندہ کر دیا اور اپنا بھیانک چہرہ پورے عالم کے سامنے اس نے ظاہر کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ عورت جو ممتا اور پیار کی مکمل تصویر ہوتی ہے وہ ڈاین بھی ہو سکتی ہے اگر نوبل انعام ظالموں کیلیئے ہی ہے تو ایک نوبل انعام بش کو بھی دینا چاہیئے تھا,ایک نوبل انعام صدام حسین کو بھی دینا چاہیئے تھا_ پوری دنیا کو اسبات کا علم ہیکہ برما میں جو کچھ بھی آج ہو رہا ہے اسی ظالم عورت کی دین ہے اسی کے اشارے پر مسلمانوں کے لاکھو مکانات کو خاکستر کیا گیا ہے,لاکھو لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا، جن میں خواتین، بزرگ یہاں تک کہ شیر خوار بچے بھی شامل ہیں ۔

قارئین کرام!

اگر آنگ سان سوچی کو لگتا ہے کہ برما میں آج جو گچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے,افواہیں ہیں تو کیوں نہیں عالمی میڈیا اور اسکے نمائندوں کو اسبات کی اجازت اور آزادی دیتی کہ آو دیکھو اور جو سچ ہو اسکو دنیا کو بتاو اور یہاں کے حالات اور کیفیت کو کیمرے اور تصویروں میں قید کر کے شوشل میڈیا پردکھائیں اور پوری دنیا کو آگاہ کریں کہ  سچائی کیا ہے, لیکن وہیں دوسری طرف جو لوگ برما سے بنگلہ دیش پہونچ رہے ہیں انکی حالت کچھ اور ہے اور وہ کچھ اور ہی بیاں کر رہے ہیں مگر میانمار کے حکمراں کچھ بھی ماننے کو تیار نہیں , برما کے ظالم حکمرانوں اور انکی ظالم فوجوں کا وحشیانہ انداز اور انکی حیوانیت دیکھ کر دنیا کے وہ لوگ جو آنگ سان سوچی کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور  انہوں نے اسکی رہائی کے لیے مہم چلائی تھی اور اسکی آزادی کے لیے احتجاج کیئے تھے  اور نوبل انعام ملنے پر خوشیاں منائی تھی آج وہ لوگ بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں اور اس کے اوپر سوالیہ نشان کھڑے کر رہے ہیں , اور اسبات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اس سے نوبل انعام واپس لیا جائے,حقیقت تو یہ ہیکہ میانمار کے حکام حقائق سے منھ چھپا رہے ہیں اور اپنی افواج کے مظالم سے نظریں چرا رہے ہیں , کیا برما کی فوجوں نے لاکھوں مسلمانوں کو نہیں مارا؟کیا انہوں نے معصوم بچوں کا قتل عام نہیں کیا؟ انکے گھر نہیں جلائے؟ انکو بے یارومددگار نہیں چھوڑا؟کیا سیٹ لائٹ سے لی گئی تصویریں غلط ہیں ؟کیا سی, این,این اور دوسری عالمی میڈیاغلط خبریں شائع کر رہے ہیں ؟کیا لاکھو لوگ بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور نہیں ہوئے اور وہاں نہیں گئے؟ کیا یہ سب معلومات غلط اور جھوٹ ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کی معلومات بھی غلط ہے.

وہیں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے میانمار حکومت کو یہ پیغام بھیجا ہیکہ کہ اگر روہنگیا تشدد روکا نا گیا تو پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائیگا, اور یہ بھی کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دی جائے یا فوری طور پر حکومت انہیں ایسے قوانین فراہم کرے جس سے وہ کم ازکم معمول کی زندگی گزار سکیں ؟ اقوام متحدہ کے ادرہ یو این ایف کے مطابق 28 ہزار روہنگیا بچے فوری مدد کے منتظر ہیں مگر میانمار حکومت انکے راستے میں رکاوٹ ہے,متاثرین تیزی سے سے بنگلہ دیش کا رخ کر رہے ہیں دو ہفتوں میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش سرحد عبور کر چکے ہیں اور ہر روز مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے بنگلہ دیش روہنگیامسلمان کو اپنے ملک میں آنے تو دے رہا مگر وہ چاہتا کہ عالمی رہنما میانمار حکومت پر  روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کا دباو ڈالیں ساتھ ہی بنگلہ دیش نے میانمار حکومت پر یہ الزام بھی لگایا ہیکہ جو روہنگیا مسلمان یہاں آ گئے ہیں میانمار حکومت نہیں چاہتی کہ وہ اب بنگلہ دیش چھوڑ کر یہاں واپس آئیں اسی لیئے میانمار حکومت نے اپنی سرحدوں پر بارود بچھا رکھا ہے جسکی زد میں آکر اب تک ہزاروں کی موت ہوچکی ہے_

قارئین کرام!

 مسلمانوں پر بڑھتے ظلم و تشدد کے بعد  جہاں مسلمان حکمرانوں کی عقل ہوش ٹھکانے لگے  وہیں دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا اور دنیا کے کونے کونے میں جلسے جلوس کی شکل میں عالمی رہنماوں تک اپنا پیغام پہونچایا کہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم اور تشدد کا سلسلہ بند کیا جائے اسیطرح اسلامی ممالک میں جہاں سعودی عربیہ اور ترکی نے روہنگیا مسلمانوں کے لیےپہلےبھی بہت سےعملی خدمات انجام دیئے وہیں دوبارہ سعودیہ,ترکی,انڈونیشیا,کی حکومتوں نے مہاجرین کا بوجھ کم کرنے کے لیےبنگلہ دیش کو امداد کی پیشکش کر چکی ہیں وہیں بھارت کے وزیر اعظم مودی جو اسوقت میانمار دورے پر ہیں انہوں ظالم حکومت اور اسکی فوج کے ظلم کی مذمت کے بجائے آنگ سان سوچی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اور اسکے تشدد کی تائید کرتے ہوئےکہا کہ اگر میانمار کو مدد کی ضروت ہوگی تو ہم ہر طرح کی مدد کے لیے تیار ہیں افسوس ہے ایسے حکمرانوں پر جو ظلم کی حمایت کررے ہیں .

عرب ٹی, وی الجزیرہ کے اعداد وشمار کے مطابق 10 لاکھ روہنگیا مسلمان میانمار میں رہ رہے ہیں اور 5 لاکھ بنگلہ دیش میں ,تقریبا5 لاکھ سعودیہ عربیہ میں اور اور تقریبا ساڑھے تین لاکھ پاکستان  اور کچھ ہندوستان میں مگر سعودیہ عربیہ کے علاوہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں مصائب اور مشکلات نے انکا دامن نہیں چھوڑا کیوں کہ وہ اب تک جہاں کہیں بھی ہیں نہ انکا شناختی کارڈ ہے اور نہ شہریت جسکی وجہ سے نہ تو انکے بچوں کو تعلیمی سہولت مل پاتی ہے اور نہ ملازمت زندگی کا درد, بھوک پیاس کی شدت مصائب کا سایہ اگراس حقیقت سے دنیا میں کوئی قوم حقیقی معنوں میں واقف ہے اور اسکا مکمل احساس کسی کو ہے تو میں سمجھتا ہوں روہنگیا مسلمانوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہوگا_

اے اللہ تونے ہر دور میں ظالموں کو دنیا کے لیے عبرت بنایا ہے اور مسلمانوں کو سر بلندی عطا کی ہے,اللہ تو ظالموں کو ذلت و پستی میں ڈال دے اے اللہ تو اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے اور کافروں اور مشرکوں کو ذلت دے. آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔