آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار

مولاناسید آصف ملی ندوی

وطن عزیز بھارت میں اس وقت موجودہ زعفرانی حکومت اور اس کا زرخرید آلۂ کار میڈیا ہمہ وقت اس پروپیگنڈے میں مصروف کار ہیں کہ مسلمان عورت اپنے ہی مردوں کے ہاتھوں صدیوں سے ظلم و ناانصافی کا شکار ہے، زمانہ کی بے انتہا ترقی کے باوجود وہ اب تک گھر کی چہاردیواری میں محصور ہے،  اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کو انصاف دلاکر ایک نئی پُررونق زندگی سے متعارف کرایا جائے۔ چنانچہ اس عزم کی تکمیل کے لئے ایک ہی مجلس میں دی گئیں تین طلاق کے مسئلے کو بہانہ بناکرپوری شریعت مطہرہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے،  وہ لوگ جو خود اپنی ہی بیویوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے مجرم ہیں وہ مسلمان عورتوں کے حقوق کی دہائی دیتے نہیں تھکتے۔اس معاملہ میں ان کی قوت شامّہ اس قدر صحتمند اور تیز ہے کہ وہ مسلم عورتوں کی مظلومیت کی بُو کوخود متأثرہ عورت کے محسوس کرنے سے پہلے ہی سونگھ لیتے ہیں ۔ مسلمان عورتوں کی معاشرتی مظلومیت و محکومیت کو ختم کرنے کے نام پر حکومت اور سپریم کورٹ کے ذریعے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں سے ارباب حکومت کے دلوں میں پوشیدہ مکروہ عزائم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح شریعت مطہرہ میں مداخلت کرکے مسلمانوں کواپنے عائلی معاملات میں شریعت کے مطابق عمل کرنے کی آزادی کے دستوری حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی اس دردانگیز منافقانہ روش کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں تو بس صبح وشام مسلم عورتوں کو صحیح اسلامی سمت سے ہٹاکر جاہلیت کے خاردار راستہ پر گامزن کرنے کی فکردامن گیر رہتی ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنے گلے سے اسلام کی صحیح و سچی تعلیمات، پاکیزہ ہدایات اورامتیازی خصوصیات کے روشن و چمکدار زیور کو اتار کر پھینک دے اور اس کی جگہ وہ فحش کاری،بے شرمی، عریانی،عیاشی، شہوت رانی،بے حیائی، اوربداخلاقی کی لعنت کا طوق پہن لے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے یہ پروپیگنڈہ  پوری طاقت کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ مسلمان عورت مظلوم ہے،  اسلام نے ان کے حقوق کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا ہے، اس نے مردوں کو عورتوں پر پورا اختیار دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں بالکل آزاد ہیں ۔  جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

خالق کائنات نے ابتدائے آفرینش ہی میں سب سے پہلے آدم وحوا کی تخلیق کے ذریعے گویا اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ انسانی معاشرہ کے وجود کے لئے مرد و عورت دونوں ہی لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس نے دونوں کوایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا، اور انسانی رشتہ میں دونوں ہی کو نہ صرف مساوی و برابر رکھابلکہ عورت کے سراپا اور اس کے وجود میں مردوں کے لئے راحتِ جاں وتسکینِ خاطر کا نہایت ہی پُرکشش و دلکش سامان بھی ودیعت کر رکھا ہے،  اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی ہر اس چیز کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اہمیت دیتا ہے جس سے اس کو کسی بھی طرح کا سکون یا راحت نصیب ہوتا ہے۔ تاہم یہ ایک عجیب بات ہے کہ خالق کائنات کی قدرت کے اس شاہکار نمونے اور اس کی ایک بہت بڑی نشانی ’’صنف نازک‘‘ کے معاملہ میں انسانی معاشرہ ہمیشہ ہی بڑی افراط وتفریط اور بے اعتدالیوں کا شکار رہا ہے۔ ایک طرف تو اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے بغیرکسی خاندان اور معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف یہ حال ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے اس صنف نازک کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا، اور جس بے دردی کے ساتھ اس کے حقوق کو پامال کیا گیا، اور جس وحشیانہ طریقے سے اس کو زندہ درگور کیا گیا اس کی پوری تفصیل تاریخ انسانی کے سیاہ اوراق میں آج بھی موجود ہے۔

  اسلام سے قبل ایک طویل عرصے سے یہ جنس لطیف و صنف نازک مظلوم و مجبورِ محض چلی آرہی تھی، جس کی معاشرے میں نہ تو کوئی عزت تھی اور نہ ہی اس کے حقوق کا کچھ خیال کیا جاتا تھا۔ اس کی کچھ حیثیت تھی تو محض سامانِ لذت اور شبستانِ عیش و عشرت میں مردوں کی ہوس رانی اور وحشیانہ جنسی تسکین کے لئے ایک آلۂ کاریا مشین کی تھی، اس سے ہٹ کر اس کے ساتھ غلاموں سے بدتر اور جانوروں کے جیسا سلوک کیا جاتا تھا، اس کے وجود کو موجب ذلت وعار سمجھا جاتا تھا، پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔

ظہور اسلام کے و قت جتنے ادیان ومذاہب اس کرۂ ارض پر موجود تھے وہ سب ہی عورت کو صرف موجب ذلت وعار اور انسانی معاشرہ کے لئے نحوست و بربادی کا ذریعہ باور کراتے رہیں ۔  جین مذہب کی تعلیم یہ بتاتی ہے کہ عورت سرتا پا شر ہی شر ہے، اس میں خیر کا کوئی عنصر پایا ہی نہیں جاتا ہے، اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات قائم نہ کریں اور نہ ہی اس سے ہمکلام ہو۔ مسیحیت میں عورت کا تصور یہ ہے کہ ’’وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوعہ کی طرف لے جانے والی،خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تخلیق مرد کو غارت کرنے والی ہے‘‘۔ جزیرۃ العرب کے پڑوسی ملک فارس (موجودہ ایران) کا یہ حال تھا کہ اس معاشر ے میں باپ کا  اپنی بیٹی کے ساتھ اور بھائی کا اپنی حقیقی بہن کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک ہونا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا چنداں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پانچویں صدی عیسوی میں فارس کے بادشاہ یزدگرد ثانی نے اپنی ہی بیٹی سے نکاح کیا اور پھر بعد میں اس کو قتل کرڈالا۔

ویدک دھرم میں عورت کا کیا مقام تھا اور ہے اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ویدک دھرم یعنی ہندؤوں میں عورت کو کوئی اختیار اور حق نہیں ہے، یہاں تک کہ اگروہ بیوہ ہوجائے تو اسے دوسری شادی کرنے کا حق نہیں ہے، اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی،اس کی عبادت صرف خاوند کی خدمت کرنا ہے،اسے غلام بناکر رکھنا ہے، اس کی بات پر اعتماد نہیں کرنا، اور اسے صرف سامان تعیش کے طور پر استعمال کرنا ہے (ملخص از اسلام اور عورت)۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اپنی مایہ ناز تصینف تمدن ہند میں ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ ’’برہمنی زمانہ اور تہذیب میں عورت کا وہ درجہ نہیں رہا تھا جو ویدی زمانہ میں تھا، منو کے قانون میں (بقول ڈاکٹرلی بان) عورت ہمیشہ کمزور اور بے وفا سمجھی گئی ہے، اور اس کا ذکر ہمیشہ حقارت کے ساتھ آیا ہے‘‘۔  ’’ شوہر مرجاتا تو عورت گویا جیتے جی مرجاتی، اور زندہ درگور ہوجاتی، وہ کبھی دوسری شادی نہ کرسکتی، اس کی قسمت میں طعن وتشنیع اور ذلت وتحقیر کے سوا کچھ نہ ہوتا، بیوہ ہونے کے بعد اپنے متوفی شوہر کے گھر کی لونڈی اور دیوروں کی خادمہ بن کر رہنا پڑتا، اکثر بیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہوجاتیں ۔ ڈاکٹر لی بان لکھتا ہے : ’’بیواؤوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ جلانے کا ذکر منوشاستر میں نہیں ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہوچلی تھی کیونکہ یونانی مؤرخین نے اس کا تذکرہ کیا ہے‘‘۔ (تمدن ہند)۔

 اس کے برخلاف اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو نہایت ہی بلند ترین مقام عطا فرمایا ہے، اس نے عورتوں کے معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی، تعلیمی، قانونی غرض یہ کہ ہرطرح کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ عورت محض سامانِ لذت  یا بزمِ عیش کا کھلونا نہیں ہے،  اس نے عورتوں کے حقوق سے متعلق اس قدر ہدایات دی ہے کہ ان پر عمل کرنے سے صنف نازک کی عزت وعظمت اور جان ومال کو تحفظ مہیا ہوجاتا ہے۔ رسالت مآب  ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں عورتوں کودرجہ کے لحاظ سے مردوں کے ہمسر و برابر قرار دیا ہے۔ آپ  ﷺ فرماتے ہیں :  إنما النسا ء ُ شقائقُ الرجالِ۔ عورتیں مردوں کے برابر ہیں ۔  اگر اسلام نے مردوں کو ناگزیر حالات  ووجوہات کی بناء پر طلاق دینے کا اختیار دیا ہے تو وہیں عورتوں کو بھی شوہر کے ظالم یا ناکارہ ہونے یا دیگر معقول اسباب و اعذار پائے جانے پر قاضی وقت یا عدالت سے رجوع کرکے مرد سے خلع لینے کا مکمل اختیار دیا ہے۔ اسلام نے عورتوں کونہ صرف مردوں کے مساوی حقوق عطا کئے بلکہ اس نے عورت کو ماں کی صورت میں مردوں کے احترام وعظمت اور بیٹی و بہن کی صورت میں ان کے پیار وشفقت اور بیوی کی صورت میں محبت و الفت اور دل بستگی کا محور و حقدار قرار دیا۔ اگر وہ ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت بچھادی، اگر بیٹی یا بہن ہے تو اس کی بہترین نگہداشت اور صحیح تعلیم وتربیت پرمردوں کو جنت کی بشارت دے دی، اگر وہ بیوی ہے تووہ دنیا کا سب سے بہترین سرمایہ اور بڑا خزانہ ہے،  مردوں کو اس کے ساتھ حسن معاشرت اور بہترین سلوک کا حکم دیا گیا ہے، حتی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے شخص کو معاشرہ کا سب سے بہترین فرد قرار دیا چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی قدر ہے (خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہِ وَ اَنا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی)  تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہو اور حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہو، اور میں تم سب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھا ہوں ۔

  اسلام نے عورت کو جو مقام ومرتبہ دیا ہے اس کا استقصاء اس مختصر مضمون میں نا ممکن ہے، اس کے لئے تو ایک مستقل و ضخیم دفتر درکار ہے، میں نے نہایت ہی اختصار کے ساتھ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں عورتوں سے متعلق پائے جانے والے تصورات ونظریات اور اسلام میں بیان کردہ ان کے حقوق اور ان سے متعلق رسالت مآب  ﷺکے چند ارشادات مبارکہ کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سادہ لوح افراد حکومت و میڈیا کے ذریعے پیدا کئے گئے اس مسموم پروپیگنڈے کا شکار نہ ہونے پائیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو اُنہیں ملنا چاہیے تھا۔ انسان ہونے کے ناتے اُنہیں برابر کے حقوق میسر ہیں۔ عملی حوالے سے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے اور بعض انتظامی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے کچھ حقوق و فرائض میں اختلاف ہے لیکن اُس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو برابری سے محروم رکھا جائے۔ میراث اور گواہی میں عورت کو نصف شمار کیا جانا عورتوں کی سماجی حیثیت اور دیگر امور کو مدنظر رکھ کر کیے گئے وقتی انتظامی نوعیت کے فیصلے ہیں، جنہیں دائمی جاننا مشکل ہے۔ عورتوں کا مکمل احترام، اُن کی رائے کا احترام، اُنہیں میراث میں حصہ دینا، اُنہیں جنگ کے دوران بھی تحفظ دینا جیسی اسلامی تعلیمات دائمی ہیں۔ مسلمان فقہاء کی اکثریت مردوں پر مشتمل رہی ہے چنانچہ اُنھوں نے عورتوں کے حقوق و فرائض کے متعلق محدود معاملات کی حد تک ہی بات کی ہے۔ اُن کا بنیادی ہدف مردانہ برتری کا اثبات ہی رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ مرد اگر گھر کا سرپرست ہوتو بطور سربراہ اُسے بہت سے انتظامی اختیارات حاصل ہیں، لیکن اگر عورت گھر کی سربراہ ہوتو اُسے بھی یہ حقوق میسر ہوں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سکول اور کالج میں پرنسپل صاحبان کو انتظامی امور میں بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اِن میں عورت اور مرد کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ مسلمان فقہاء کی عائلی فقہ میں مردانہ غلبے کے آثار غالب ہیں، جیسے بیوی کا شوہر کے مکمل تابع ہونے کے انتظامی نوعیت کے معاملے کو خالص مذہبی فریضہ قرار دینا وغیرہ۔ اگر عورتیں بھی فقہ کی تدوین کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔ بطور انسان اور مسلمان، ہمیں عورتوں کے حقوق و فرائض سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اب عورت ماں ہو یا بہن، بیٹی ہو یا بیوی یا ہماری طرح معاشرے کا ایک فرد، انسان ہونے کے ناتے وہ مردوں کے برابر ہے۔ معاشرتی سطح پر طے ذمہ داریوں کے مختلف ہونے کی بنا پر بعض حقوق و فرائض میں اختلاف ہے جو انتظامی نوعیت کا معاملہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کم تر سمجھنے جیسی خرافات کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔