خوشگوار تعلقات: ہند و پاک کی ضرورت

عبدالعزیز

  یہ خبرانتہائی خوش آئند اورراحت بخش ہے کہ پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمرجاوید بجوانے پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالامیں ممبران کوخطاب کرتے ہوئے ہندوپاک تعلقات کی بہتری اورضرورت پرزوردیا۔ انہوں نے کہاکہ ’’حکومت اگرہندستان اورپاکستان کے تعلقات کی درستگی کی پہل کرتی ہے توفوج اس کی پرجوش حمایت کرے گی۔ دونوں ملکوں میں جومسائل یاپیچیدگیاں پائی جاتی ہیں وہ گفتگو اورمکالمات کے ذریعہ ہی حل ہوسکتی ہیں ۔‘‘ انہوں نے مزیدکہاکہ ’’بشمول انڈیاہم اپنے پڑوسی ممالک سے اچھے اور خوشگوار تعلقات کے خواہشمندہیں ۔‘‘ہندستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان مسٹررادیش کمارنے پاکستانی فوجی کے سربراہ کے بیان  پراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’’ہندستان پاکستان سے اچھے تعلقات کامتمنی ہے بشرطیکہ پاکستان دہشت گردگروپوں کے خلاف سخت سے سخت قدم اُٹھائے۔‘‘

 اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ملک میں مؤثرکرداراداکرتی ہے اوراس کاملک میں زبردست اثرورسوخ ہے یہی وہ چیزہے جوپاکستان کوایک جمہوری ملک بننے میں رکاوٹ ہے۔ دیکھایہ گیاہے کہ جب کوئی جمہوری حکومت خواہ نام ونہادہی کیوں نہ ہو ہندستان سے اچھے تعلقات کی پیش قدمی کرتی ہے فوج آڑے آجاتی ہے جس کی وجہ سے حالات بد سے بدترہوجاتے ہیں ۔کوئی فوجی سربراہ پاکستان میں حکمرانی کی کرسی پرفائزہوتاہے توتعلقات کی بہتری بڑھ جاتی ہے حالانکہ پاکستان کواس وقت سنگین حالات کا سامناکرناپڑتاہے۔ جنرل ضیاء الحق کے وقت دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری کی امیدپیداہوگئی تھی مگربات آئی گئی ہوکر رہ گئی، جنرل مشرف کے وقت آگرہ کانفرنس میں کشمیرکامسئلہ حل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کہاجاتاہے کہ اٹل بہاری باجپائی اورجنرل مشرف  کے درمیان بات طے ہوگئی تھی اورمسودہ بھی تیارکردیاگیادونوں دستخط کرنے والے تھے مگرآرایس ایس کی برہمن لابی آڑے آئی۔ مسٹرایڈوانی کے ذریعہ اس بڑھتے ہوئے قدم کوروک دیاگیااوردونوں ملکوں کی امیدیں برنہیں آئیں ۔اس وقت پاکستان کی حکومت ملک میں برائے نام ہی ہے۔ میان نوازشریف کی پارٹی کی حکومت ہے مگرپاکستانی عدالت نے پارلیمنٹ سے ان کی رکنیت ختم کردی ہے اوران پرمقدمہ چل رہاہے بدعنوانی کاان پرایساالزام ہے کہ ان کاپوراخاندان متاثرہوگیاہے کیونکہ ان کے بیٹے اوربیٹی بھی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں ۔

ہندستان کی حکومت جس پارٹی یاگروپ کے ہاتھ میں ہے اس کی پالیسی اورسیاست ہندوپاک کے خوشگوارتعلقات کے خلاف رہی ہے۔ یہ پارٹی مہاتما گاندھی جیسی شخصیت کوبھی اس لئے بخشنے کے لئے تیارنہیں ہوئی کہ وہ شخصیت ہندستان اورپاکستان کے اچھے اورخوشگوار تعلقات کی علمبردارتھی اورہندومسلمان کے تعلقات کو بھی بہتربنانے کی جدوجہدکررہی تھی۔ مذکورہ گروپ گاندھی جی کی کوشش پرنہ صرف پانی پھیردیابلکہ گاندھی جی کی جان کے دشمن ہوگیا اورگاندھی کواس راہ میں اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑا۔

  میاں نوازشریف نے چارسال پہلے اپنے الیکشن مہم کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری کی توقع ظاہرکی تھی اوراپنے انتخابی منشورمیں بھی اسے درج کیاتھاجوایک طرح سے بہت بڑی اوراہم بات تھی کیونکہ دونوں ملکوں کی کشمکش کے دوران ایسی بات کہناآسان نہیں ہوتاوہ بھی الیکشن کے دوران۔ نوازشریف کے برعکس نریندرمودی نے اپنے انتخابی مہم میں پاکستان اورمسلمان دشمنی کواجاگرکیاتھا اوراپنے فرقہ پرستانہ حلقہ کوخوش کیاتھاترقی کی بات ضرورکہی تھی مگروہ ان کی مہم کے لئے ضمنی چیزتھی۔مگرنریندرمودی جی جب وزیراعظم کے لئے منتخب ہوگئے تواپنے حلف وفاداری کی تقریب کے موقع پرپاکستانی وزیراعظم نوازشریف کودعوت شرکت دیگرسب کوحیرت میں ڈالدیااوراس وقت جب وہ بغیرکسی پیشگی پروگرام کے لاہورنوازشریف کے گھرپہنچ گئے تودونوں ملکوں میں بڑی امیدیں پیداہوگئیں کہ تعلقات بہترہوجائیں گے لیکن پاکستان کے دہشت گردوں کی پٹھان کورٹ کے فوجی اڈے پردہشت گردی زبردست رکاوٹ ثابت ہوئی۔ اس کے باوجودہندستانی حکومت نے تعلقات کوبہتربنانے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی لیکن پاکستان کاوہ گروپ جودہشت پھیلانے کاکام کررہاہے ایسالگتاہے کہ اس کی نکیل ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جوہندوپاک تعلقات کی خوشگواری کے دشمن ہیں۔

 ہندستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ تعلقات بہترہوسکتے ہیں اگرپاکستان ایسے گروپوں کوان کی غلط حرکتوں سے روک سکے جودہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ جہاں تک کشمیرکامسئلہ ہے اسے بات چیت سے ہی حل کیاجاسکتاہے جنگ یاجھڑپ نہ کبھی کسی مسئلہ کاحل ہواہے اورنہ ہوگا۔ہندوپاک کی آنکھوں نے دیکھ لیاہے، دل ودماغ نے سمجھ لیاہے کہ دونوں ملکوں کی جنگ وجدل سے کسی بھی ملک کافائدہ نہیں ہواہے۔اب دونوں ملک نیوکلئیر ہتھیاروں سے لیس ہیں ،اب اگرخدانخواستہ جنگ ہوتی ہے تودونوں ملک تباہ وبربادہوجائیں گے۔ پاکستان میں جوٹی وی چینلوں پربحث ومباحثہ ہوتاہے وہ ہندستان کے مقابلے میں لوگ کچھ زیادہ تعلقات کی بہتری پرزوردیتے ہیں۔

ہندستانی موجودہ حکومت اندرسے جوبھی چاہتی ہے مگراس کے تشددپسندعناصرتعلقات کی بہتری کے حق میں نہیں ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ایسا گروپ دونوں ملکوں میں ابھرے جوہرحال میں خوشگوارتعلقات پرزوردے کیونکہ پرامن اورخوشگوارتعلقات کے بغیرنہ دونوں ملکوں میں ترقی ہوسکتی ہے اورنہ ہی دونوں ممالک کے لوگ چین اورسکون کی زندگی گزارسکتے ہیں ۔ دیکھایہ جارہاہے کہ دنیامیں دیگرجگہوں میں جہاں ممالک کی تقسیم ہوگئی تھی وہاں دوریاں کم ہورہی ہیں بلکہ تقسیم شدہ ممالک ایک ہورہے ہیں مگرہندوستان اورپاکستان جوکبھی ایک ہی تھے ان میں دوریاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں اس میں جہاں اپنوں کاہاتھ ہے وہاں غیروں کابھی ہاتھ نظرآتاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔