وہ پتھر

نظر عرفان

وہ دن ہے یاد مجھکو گذرا ہوا زمانہ

وہ پرندے جو ہم پہ گاۓ پرنغمگی ترانہ
اور وہ  پتھر اپنی جگہ

اسے دیکھ کر

تم یاد آتی ہو

تری یادیں مجھے رلاتی ہیں

میں اب بھی

تری یاد میں یہاں آتا ہوں

پر تجھے نہیں پاتا ہوں

اپنے کو مناتا ہوں

یہ وہ پتھر، جہاں بیتے

مری زندگی کے

تری زندگی کے

 کچھ لمحے!

وہ دن وہ گھڑی میں بھول نہ پایا

 کہ تو نے کی تھیں باتیں

 زندگی ساتھ جینے کی، ساتھ چلنے کی

پر زندگی کں لہروں نے

تجھے کنارا کر دیا

پرمیں تمہیں یہاں پاتا ہوں

اور یہ پتھر

سناتا ہے داستان پارینہ

اور مجھے رلاتا ہے

یہ پتھر گواہ بے میری وفا کا

اور تری بے وفائی کا

اور وہ نشان اب نہیں رہے

پر اب بھی دکھ رہا مجھے

کہ تری آنکھوں سے ٹپک پڑے تھے جو اشک

اور مری آںکھوں سے بھی

اور بن پڑے تھے محبت کے نشان

اور یہ نشان کچھ دن رہے، پھر مٹ گۓ

پرجب میں یہاں آتا ہوں

مجھے یہ دکھ ہی جاتا ہے

آ ،  تو بھی آ ،   اکیلی آ،

میرے غائبانہ میں آ،

دیکھ لے

 یہ پتھر تری بیتی زندگی کی رکھتا ہے داستان

یہ پتھر سناۓ گا تجھے

بتائے گا تجھے

شاید تجھے بھی دکھ جاۓ وہ محبت کا نشان

جب تم یاد آتی ہو

میں یہاں آجاتا ہوں

بیٹھ جاتا ہوں

چند گھڑی، چند پل، چند لمحے

شاید تم بھی آؤ گی یہاں

شاید تجھے بھی وہ گذرے دن یاد آتے ہوں

پر تم کبھی نہ ملی

کاش! تم کبھی آتی یہاں

 کبھی مل جاتی یہاں

اوران پرندوں میں سے کوئی پرندہ ہو

جو ہمیں دیکھ کر

تمہیں دیکھ کر

پھر گاتا وہ ترانہ

مری زندگی کا

تری زندگی کا

یہ پتھر میں بھول نہ پاؤں گا

یہ پتھر گواہ ہے مری وفا کا

وہ دن ہے یاد مجھکو

گذرا ہو ا زمانہ

تبصرے بند ہیں۔