آہ ! حضرت مولانا معین الدین قاسمی

مولانا سیّدآصِف ندوی

علاقہ مرہٹواڑہ کے بزرگ عالم دین، علمی و روحانی شخصیت، اکابر و اسلاف کی روایات کے آخری امین، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے خلیفہ مجاز، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈاور اس کی اصلاح معاشرہ کمیٹی برائے مرہٹواڑہ کے سرپرست، سابق رکن ریاستی حج کمیٹی مہاراشٹرا، اور شہر ناندیڑ میں علماء حق کے میر کارواں حضرت مولانا معین الدین صاحب قاسمی ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون، ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی و کل شیئ عندہ باجل مسمی۔

حضرت مولانا قدس سرہ کا شمار نہ صرف شہر ناندیڑ بلکہ علاقہ مرہٹواڑہ میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے قدیم ترین فارغین میں ہوتا تھا۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ شہر ناندیڑ میں دارالعلوم دیوبند کے پہلے فارغ تھے، آپ نے دارالعلوم میں اپنے دور طالبعلمی کے دوران جن اساتذہ کرام کا جلوۂ جہاں آرا دیکھا اور جن کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کیا ان میں سرفہرست جانشین حضرت نانوتوی حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب، حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی صاحب، حضرت مولانا فخر الحسن صاحب، حضرت مولانا حسین احمد بہاری صاحب، حضرت مولانا فخرالدین صاحب، حضرت مولانا معراج الحق صاحب اور خطیب الاسلام حضرت مولاناسالم صاحب قاسمی نور اللہ مراقدہم جیسے اساطین علم تھے۔ بالفاظ دیگر آپ اس علاقہ مرہٹواڑہ میں علوم و معارف نانوتوی کے بس دو ہی تین واسطوں سے نہ صرف امین تھے بلکہ آپ اپنی آخری سانس تک پوری دیانت داری کے ساتھ اس امانت سے پورے خطۂ مرہٹواڑہ کو مستفید فرماتے رہے۔

ابھی چند ہی دنوں پہلے یہ عاجز اپنے برادر خورد کی تقریب عقد مسنون کی مناسبت سے حضرت کو مدعو کرنے اور اس مسنون تقریب سے قبل وعظ فرمانے کی درخواست لے کر پہنچا تھا، باوجودیکہ آپ کی طبیعت ناساز چل رہی تھی، ضعف اور نقاہت کی وجہ سے غالباً آپ چھوٹی موٹی تقریبات میں شرکت سے احتراز بھی فرمارہے تھے، لیکن آپ نے اس عاجز کی دعوت اور درخواست کو انتہائی خوشدلی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہ صرف یہ کہ آپ تشریف لے آئے بلکہ آپ نے نکاح سے قبل اصلاح معاشرہ کے عنوان پر نہایت موثر تقریر بھی فرمائی اور خطبہ نکاح بھی پڑھا۔ آپ کا یہ حسن اخلاق و کردار، آپ کی بذلہ سنجی و ادبی ظرافت، آپ کا علمی وقار، نماز عیدین سے قبل شہر کی عیدگاہ پر وہ آپ کا انداز گفتار، یہ سب ایسی یادیں ہیں جو کبھی دل و دماغ سے محو نہیں ہو سکتیں۔

آپ ۴ اپریل ۶۴۹۱ کو شہر ناندیڑ کی معروف ادبی شخصیت مولوی زلف الدین صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم دکن کے قدیم ترین اور مرہٹواڑہ کی اولین دینی درسگاہ دارالعلوم ناندیڑ میں حاصل کی، اعلی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، وہاں بڑے بڑے اکابرین علما ء و مشائخ اور بزرگان دین سے شرف تلمذ حاصل کیا، اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب اور دیگر اکابرین کی خدمت اور جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہے 1962میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعد جب آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور آپ کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے تو سب سے پہلے فخر مہاراشٹرا مرحوم سعید خان صاحب بانی جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آباد کی نظر انتخاب آپ پر پڑی، مرحوم نے آپ کو اپنے نوخیز ادارے جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم میں بحیثیت صدر مدرس تدریسی خدمات قبول کرنے پر آمادہ کرلیا، جہاں آپ کئی سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس طرح آپ کا شمار جامعہ اسلامیہ کاشف العلوم اورنگ آبادکے نہ صرف قدیم اساتذہ بلکہ معماروں میں ہوتا ہے۔ تاہم آپ کو شہر ناندیڑ کی عمومی بے دینی کی فضا کو ختم کرنے کا جذبہ اور وطن پہنچ کر اصلاح معاشرہ اور معیاری دینی تعلیم کو فروغ دینے کا خیال ہمہ وقت مضطرب کرتا رہتا تھا۔ غالباً یہی وہ بے چینی تھی جس نے گویا آپ کو ارباب کاشف العلوم سے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ :

یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاک وطن ساقی
خدا حافظ چلا میں باندھ کر سر سے کفن ساقی
سلامت تو تیرا میخانہ تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رسن ساقی

چنانچہ آپ ناندیڑ تشریف لے آئے، اور اپنے جذبہ فروغ دینی تعلیم کی تسکین کے لئے دارالعلوم ناندیڑ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے، حسن اتفاق کہئے کہ آپ کو یہاں تدریس کے ساتھ ساتھ ناظم تعلیمات کا وہ اہم منصب پیش کیا گیا جس کے ذریعے آپ کو مدرسے کے نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور نصاب و طریقہ تدریس کو معیاری بنانے کا پورا اختیار حاصل ہوگیا۔ چنانچہ آپ کے عہد تدریس کے دوران دارالعلوم ناندیڑ سے ایسے ایسے قابل و ہونہار طلباء فارغ ہوتے رہیں جو آج نہ صرف ناندیڑ بلکہ پورے علاقہ مرہٹواڑہ کو اپنے علمی و روحانی فیض سے مستفید فرمارہے ہیں، جن میں حضرت مولانا مظہر الحق صاحب کامل قاسمی مدظلہ ( بانی و ناظم دارالعلوم محمدیہ حمایت نگر، ناندیڑ)، حضرت مولانا امیر اللہ خان صاحب مدظلہ ( محبوب نگر، تیلنگانہ)، حضرت مولانا مفتی معیز الدین قاسمی مدظلہ (امیر شریعت مرہٹواڑہ، اورنگ آباد)، مولانا عبدالرشید قاسمی (معتمد دارالعلوم کربلا، ناندیڑ) جیسی قابل ذکر بزرگ و قد آور شخصیات ہیں۔ آپ پورے استقلال کے ساتھ دارالعلوم ناندیڑ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے لیکن مشیت ایزدی یہ تھی کہ آپ کا فیض محدود نہ رہے، چنانچہ تقدیر آپ کو بیڑ لے گئی جہاں آپ دارالعلوم بیڑ میں صدر مدرس کے منصب پر فائز رہتے ہوئے درس و تدریس کی خدمات بھی انجام دیتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے خطبات و مواعظ کے ذریعے مسلمانان بیڑ کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ تقریباً سترہ سال تک خدمات انجام دینے کے بعد آپ اپنے وطن ناندیڑ لوٹ آئے، یہاں آکر آپ نے سنہ 1992 میں اقامتی درسگاہ ادارہ مرکز العلوم قائم فرمایا جہاں سے الحمدللہ ہر سال طلباء کی ایک معتد بہ تعداد زیور علم سے آراستہ ہوتی رہتی ہے۔

اللہ نے مولانا کو بلا کا حافظہ دیا تھا، آپ کی علمی استعداد بھی سدا بہار تھی، فن تدریس اور فن خطابت دونوں ہی میں آپ کو کمال کا درک حاصل تھا، آپ کی تقریروں اور مواعظ کو سن کر یقیناًسینکڑوں افراد گمراہ کن خیالات و نظریات اور رسومات و خرافات سے تائب ہوئے۔ اس دور قحط الرجال میں حضرت کی وفات یقیناً ایک عظیم سانحہ ہے جس نے پورے مرہٹواڑہ میں صف ماتم بچھادی ہے، آپ کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا بے حد مشکل ہے۔ یہ عاجز دعا کرتا ہے کہ اللہ حضرت کی دینی ملی اور سماجی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی سیئات سے درگذر فرماکر ان کی کامل مغفرت فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور پسماندگان اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہر ناندیڑ کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

تبصرے بند ہیں۔