کلاہ سر پہ نہ مشہود سر ہے کاندھے پر
جمال کاکویؔ
کلاہ سر پہ نہ مشہود سر ہے کاندھے پر
ندی سراب ہے سوکھا شجر ہے کاندھے پر
…
شکستہ حال سہی سر سربریدہ نہیں
میری شناخت ابھی معتبر ہے کاندھے پر
…
تمام حال رقم ہو رہا ہے دفتر میں
سنبھل سنبھل کہ کوئی باخبر ہے کاندھے پر
…
اسے غرور کہ سب سے بلند ہم ہی ہیں
اسے بتاؤ وہ بے خبر ہے کاندھے پر
…
لڑائی میں جو سپاہی کے کام آتا ہے
وہ اسلحہ تو بڑا پر خطر ہے کاندھے پر
…
بنوگے بوجھ تو منزل کو کیسے پاؤگے
یہ کیا کہا کہ بڑا درد سر ہے کاندھے پر
…
یہاں نہیں تو وہاں ہم قیام کر لیں گے
خدا کا فضل ہے اپنا تو گھر ہے کاندھے پر
…
سڑک پہ وہ جو تھا سرکس کا کھیل دکھلاتا
تو ایک دن وہ دکھا بازی گر ہے کاندھے پر
…
قدم قدم کا اٹھانا پہار ہو جیسے
ضعیف باپ کا لخت جگر ہے کاندھے پر
…
یہاں وہاں بجی شہنائی ایک ہی دھن میں
یہاں وہاں کا تومنظر دگر ہے کاندھے پر
…
غلام سب کا ہے دنیا کے کام آتا ہے
یہ بوجھ سب کا لیئے جانورہے کاندھے پر
…
لٹک رہا ہے جو بچّے کے کاندھے سے بستہ
سفر ہے زیست کا رختے سفر ہے کاندھے پر
…
رکھے کون بھلا میرے زخم پر مرہم
جمال آج میرا چارا گر ہے کاندھے پر
تبصرے بند ہیں۔