ابابیل کی ہجرت

صالحہ صدیقی

 زیر نظر کتاب ’’ابابیل کی ہجرت ‘‘ ڈاکٹرشاہد جمیل کے افسانوں کا مجموعہ ہیں۔ اس کتاب میں کل پندرہ کہانیاں بہ عنوان جالے میں پھنسی مکڑی، گردش ایام، مردم گزیدہ، دست و بازو، مہاجر، اپنے پرائے، نجات، ایک جنگ اور، تہی دست، تحفہ، تھو تھو، داغ، محبت کا صلہ، صحرا میں بھٹکی چڑیا، ابانیل کی ہجرت شامل ہیں۔ ڈاکٹر شاہدکی کہانیوں کایہ ایک ایسا مجموعہ ہیں جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے انھوں نے اس مجموعے میں انھوں نے اپنے اب تک کے ادبی سفر، اپنے تجربات و مشاہدات کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل ان کی ہر کہانی اپنی کہانی خود بیاں کرتی ہیں۔ اس مجموعہ میں شامل ہر کہانی میں عورت کی ایک نئی کہانی، ایک نیا چہرہ اور اس کے درد کی ایک نئی ترجمانی پیش کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ایک لڑکی اور اس کے ذہن میں شادی اور اس کے بعد کی زندگی کی الجھنوں کو بڑی خوبصورتی سے رقم کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر شاہد جمیل کی کہانیوں کی دنیا ہمارے آس پاس کی دنیا ہے، وہ آئے دن کی چھوٹی بڑی الجھنوں کو اون کے دھاگے کے مانند سلائیوں پر چڑھا کر بڑی مہارت سے بنتے چلے جاتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل پہلی کہانی جالے میں پھنسی مکڑی ماہنامہ’’ ایوان اردو ‘‘میں ۲۰۰۶ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کہانی ہر اس لڑکی کی ہے جن کے والدین پر شادی کا بوجھ ہوتا ہے اور یہ بوجھ تب اور بھاری لگتا ہے جب غریبی کی چادر اور یتیمی دونوں کا کالا سایہ دامنگیر ہو۔ اس کہانی میں ایک عورت کی زندگی کو موضوع بنا کرآج کے سماج کے بدلتے رشتوں اور بدلتے تقاضوں کے ساتھ انسانی جزبات و احساسات سے دوری پر ایک طنز آمیز ضرب لگائی ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالے تو ہمیں معلوم ہوتا ہیں کہ ہندوستانی معاشرے میں عورت کے ساتھ ذیادتی اور انھیں کمتر درجے کی شئے ماننے کی یہ کہانی ہزاروں سال پرانی ہیں۔ کہنے کو آج ہم ترقی کی طرف گامزن ہے۔ ٹکنالوجی کے اس زمانے میں جہاں عورتوں کی ترقی کی بات ہوتی ہیں جہاں ایک طرف جیسا کہ ہم سب جانتے ہے کہ ہمارا ہندوستان شہری اور دیہی نظام دو حصوں میں تقسیم ہیں شہری نظام میں جہاں عورتیں ایک طرف آسمان کی بلندیوں تک پہنچ چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے استحصال صورت ایک الگ روپ میں ان کا پیچھا کر رہی ہے جب کہ دیہی نظام میں عورتوں کے حالات میں آج تک کوئی خاص بدلاؤ نہیں آیا ان کی صورت حال آج بھی وہی ہے جو آج سے سو دو سو سال پہلے تھی۔ آج بھی متوسط طبقے میں عورت کی زندگی گھر کی چہار دیواری تک محدود ہے جہاں سے باہر قدم رکھنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے  بے شرمی اور بے حیائی کی نشانی مانی جاتی ہے۔ یہ حالات خصوصا مسلم گھرانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے جہاں عورت کی زندگی اس کی ہر ایک سانس مرد کے مرہون منت چلتی ہیں۔ ایک عورت کی زندگی اور اس کی تلخ حقیقتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شاہد جمیل لکھتے ہیں کہ :

’’ عورت کا اپنا گھر نہیں ہوتا، میکہ اور سسرال ہوتا ہے یا پھر بیٹے اور داماد کا گھر، اس کی ذاتی زندگی بھی نہیں ہوتی۔ وہ فقط شریک خاندان، شریک کار ہوتی ہے۔ روزی کما کر اور نام پیدا کر کے بھی وہ اپنی شناخت نہیں بنا پاتی۔ وہ حوالوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کی حیثیت اضافی اور الحاقی ہے۔ پتنگ میں لگی پونچھ کی طرح۔ سیتاجی نے بن باس میں شری رام کے ساتھ دیا اور کشٹ سہا تھا۔ پھر بھی انھیں ہی اگنی پریکچھا دینی پڑی۔ لوک لاج سے مردوں کا واسطہ نہیں۔ مریاداؤں کا پالن عورتوں کو کرنا ہے۔ یہ کیسا سماجی انصاف ہے؟ خدا یا! میعاد پوری نہیں ہوئی گندم خوری کی سزا کی ؟‘‘

 بچہ گیلی مٹی کے مانند ہوتا ہے اسے آکار، صورت سماج دیتا ہیں۔ بچی کی پیدائش کے بعد اس کے ساتھ ہونے والے سوتیلے رویے زندگی بھر اسے سوالوں کے کٹھ گھرے میں لاکر کھڑا کرتے ہیں میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہیں ؟ میں کیوں آزاد نہیں ؟ میں کیوں لڑکوں سے الگ ہوں ؟میں کیوں گھر کے باہر وہ کام نہیں کر سکتی جو ایک لڑکا کر سکتا ہیں ؟ اس طرح کے نہ جانے کتنے سوال ذہن و دل میں گردش کرتے ہیں۔ تقریباً ہر دور میں عورت مظلوم اور حق و انصاف کی طلب گار رہی صدیوں سے اس پر مردوں کا جابرانہ تسلط قائم رہا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ لیکن ان سب کے علاوہ دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ ہے محبت کا جذبہ ڈاکٹر شاہد جمیل نے اپنے افسانہ’’ داغ ‘‘میں ایک نیا پہلو دکھایا ہے انھوں نے ایک مرد کے دل میں عورت کی محبت، ان کی بے چینیوں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’جو عورت مرد کی کمزوری بن جاتی ہے، اس کا خصم، اس کے بغیر جل بن مچھلی کی طرح تڑپتا ہے۔ تڑپ اور کشش بنائے رکھنا، اڑتی پتنگ کو قابو میں رکھ کر اڑانے جیسا کٹھن ہے …..میٹھے بول، سمرپن، وفاداری اور من پسند پکوان، مکڑی کے جالے جیسے کار گر ہتھیار ہیں۔ سدھایا خصم اسیر جن سا حکم مانتاہے اور جاب لگے بیل کی طرح ادھر ادھر منہ نہیں مارتا۔ ‘‘

ڈاکٹر شاہد احمد نے اپنے افسانے میں منظر کشی میں بھی عورت کے حسن و جمال کے پیرائے میں اس طرح پیش کیا کہ ایک جادوئی کیفیت پورے ماحول میں محسوس ہونے لگتی ہے ان کے افسانے ’’محبت کا صلہ ‘‘ میں اس طرح نقشہ کھینچا ہے ملاحظہ فرمائیں :

’’سفید حویلی دور سے نظر آتی ہے۔ دن میں لگتا کہ حسین دو شیزہ  پائینچا پکڑے باغ میں کھڑی ہے۔ چاندنی رات میں گمان گزرتا کہ وہ شانے پر زلفیں بکھرائے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ موسلا دھار بارش میں وہ باغ میں نہاتی نو خیز دو شیزہ لگتی اور ہلکے کہرے میں وہ پرستان کا نظارہ پیش کرتی۔ ‘‘

ڈاکٹر شاہد جمیل کے اس مجموعہ میں شامل تمام کہانیاں ہی آج کے سماج کی عکاس ہیں ان کی تمام کہانیوں کے مطالعے کے وقت ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے ان کی یہ تمام کہانیاں آج کے سماج کا آئینہ ہے۔ ان کی تمام کہانیاں کسی ایک خاص مسئلے کو موضوع بنا کر اس میں احساس و جذبات کی چاشنی گھول کر لکھی گئی ہیں۔ کسی بھی کہانی میں یکسانیت نہیں ہر کہانی اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ کہانی میں بہترین الفاظوں کا انتخاب اور ان کی ترتیب کے باعث تسلسل اور روانی بر قرار رہتی ہیں قاری کی طبیعت کہیں بھی بوجھل نہیں ہوتی اور وہ بنا رکے پڑھتا چلا جاتا ہیں۔ ا ن کے افسانے سماج کا آئینہ ہے جو ہمیں خبر دیتے ہے کہ بدلاؤ جو خاموش قدموں سے آہستہ آہستہ اپنے پیر ہمارے درمیان ہی رہ کر کب مضبوط بنا  لیتے ہیں، لیکن ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، قاری وادیب جوایک حساس اور دردمند دل رکھتے ہے ان کو نہ صرف محسوس کر تے ہے بلکہ اس کی جیتی جاگتی تصویر بھی پیش کر دیتے ہیں، اس مختصر تبصرے میں ایک ایک کہانی پر گفتگو کرنا ممکن نہیں اس لیے مجموعی طور پر گفتگو کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یقینا ان کا یہ مجموعہ ادب کے سرمایہ میں ایک نیا اضافہ ہے، امید ہے ادبی حلقوں میں اس مجموعہ کو وہ مقام دیا جائیگا جس کی یہ مستحق ہے۔

تبصرے بند ہیں۔