اتحادِ ملّت کانفرنس: چند معروضات

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اتحاد ملت کانفرنس (دہلی) کو ختم ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے ہی گزرے ہیں کہ اس کے خلاف بعض نوجوانوں کے بہت تیز و تند تبصرے سامنے آئے ہیں۔ یہ تبصرے موجودہ مسلم قیادت سے ان کی مایوسی کے مظہر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم قیادت سے نوجوانوں کو ملک کے موجودہ پیچیدہ، ناگفتہ بہ اور مسلم دشمنی کے مظہر حالات میں جس رہ نمائی کی امید تھی وہ پوری نہیں ہوئی، چنانچہ نوجوانوں نے اپنے طور پر بعض اقدامات کیے۔ اس پر حکومت کی طرف سے ان کی داروگیر ہوئی تو بھی مسلم قیادت ان کی حمایت اور مدد میں اس طرح آگے نہیں آئی جس طرح نوجوانوں نے اس سے توقع کی تھی۔ بعض نوجوانوں کو شکایت ہے کہ دینی جماعتوں کے سربراہوں کا اب تک کا رویّہ اتحاد کا نہیں، بلکہ اختلاف کو ہوا دینے کا رہا ہے، اس لیے اب بھی ان سے کسی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ان نوجوانوں سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ صورتِ حال چاہے جتنی مایوس کن ہو، لیکن ہمیں رجائیت پسند بننا چاہیے اور خیر کی توقّع رکھنی چاہیے۔ ہماری جارحانہ تنقیدیں اصلاح میں کچھ معاون نہیں بن سکتیں، البتہ خیر خواہی کے جذبہ سے کہی ہوئی سنجیدہ باتیں اپنا اثر دکھا سکتی ہیں۔

اس کانفرنس میں چوں کہ میں بھی شریک تھا، اس لیے اپنی براہ راست معلومات کی بنا پر بعض ان اندیشوں کی وضاحت کرسکتا ہوں جو اس کانفرنس کے بارے میں ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

کانفرنس کے محرّک اگرچہ ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب تھے، جو ملّی کونسل کے سکریٹری جنرل ہیں، لیکن انھوں نے اس کانفرنس کے انعقاد کی کوشش ذاتی حیثیت میں کی تھی۔ ان کی تحریک پر مولانا عبد الحمید نعمانی اور مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی وغیرہ نے پورے ملک کا دورہ کیا تھا اور تمام دینی جماعتوں اور تنظیموں کے ذمے داروں اور تمام مکاتبِ فکر کے سربراہوں سے ملاقات کرکے اس کانفرنس میں شریک ہونے پر آمادہ کیا تھا۔ اس کے داعیان میں تمام بڑی جماعتوں کے سربراہوں کے نام شامل کیے گئے تھے۔ اس کانفرنس کا انعقاد کسی نئی تنظیم کے قیام کے مقصد سے نہیں کیا تھا، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مختلف جماعتوں، مسلکوں اور گروہوں کے سرکردہ لوگوں کے درمیان جو دوریاں پائی جاتی ہیں اور یہ دوریاں نیچے کی سطح پر بھی منتقل ہوتی ہیں، انھیں کم کرنے، بلکہ ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ تعاونِ باہمی اور اشتراکِ باہمی کے معاملے میں ماضی میں ان سربراہوں کا رویّہ بہت مایوس کن رہا ہے، لیکن ایک اور کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے؟ یہی جذبہ اس کانفرنس کے انعقاد کا محرّک تھا۔ اس میں کسی قدر کام یابی ملی۔ بیش تر تنظیموں کے ذمے دار بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔ جو حاضر نہ ہوسکے انھوں نے آن لائن شرکت کرکے اپنی تائید و حمایت کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس میں ایک عہد نامہ پیش کیا گیا، جس میں مسلکی اختلافات اور دیگر گروہ بندیوں سے اوپر اٹھ کر اور مل جل کر ملت کی ترقی اور اس کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرنے کی بات کہی گئی۔ تمام شرکاء سے اس عہد نامہ پر دستخط کروائے گئے اور بتایا گیا کہ اسے عام کیا جائے گا، تاکہ باہم تعاون و اشتراک کا پیغام نیچے تک جائے اور عوام میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو۔ آخر میں اسی طرح تعاونِ باہمی پر ابھارنے والی کچھ قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ مختلف حلقوں کی نمائندگی کرنے والے چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یہ کمیٹی کسی نئی تنظیم قائم کرنے کی تیاریوں کے لیے نہیں بنائی گئی ہے، بلکہ اس کو واحد ایجنڈا یہ دیا گیا ہے کہ وہ مختلف مسالک و مشارب کی نمائندگی کرنے والے دیگر سربراہوں سے ملاقات کرے اور انہیں بھی تعاون باہمی اور اشتراکِ عمل پر آمادہ کرے اور اس طرح کے مشترکہ اجلاس آئندہ بھی منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔

پُر جوش اور دینی حمیّت سے سرشار نوجوانوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ تھوڑا صبر کریں اور اپنے سابقہ مشاہدات کی بنا پر اس کانفرنس کے حوالے سے قیادت سے بدگمان نہ ہوں اور مایوسی کا اظہار نہ کریں، بلکہ مشاہدہ اور انتظار (Watch and Wait) کی پالیسی اختیار کریں۔ آئندہ کے حالات اور قائدین کے رویّے خود بتادیں گے کہ یہ حضرات اپنی باتوں میں مخلص تھے یا نہیں۔

اس کانفرنس کے ایک اجلاس میں مجھے بھی اظہارِ خیال کرنے کا موقع دیا گیا۔ میں نے اپنی چھے منٹ کی گفتگو میں سابقہ مایوسیوں کا تذکرہ کیا اور زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ظاہر کی۔ اجلاس کی نظامت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرما رہے تھے۔ انھوں نے بعد میں کہا کہ کچھ دوائیں میٹھی ہوتی ہیں اور کچھ کڑوی۔ اس گفتگو کو کڑوی، لیکن فائدہ مند دوا سمجھنا چاہیے۔ بعض احباب کو تجسّس ہے کہ آخر میں نے ایسی کون سی بات کہہ دی تھی جس کی کڑواہٹ محسوس کی گئی۔ ان کا تجسّس دور کرنے کے لیے ذیل میں اپنی گفتگو نقل کیے دیتا ہوں :

” اتحادِ ملت کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت میرے لیے باعث مسرت ہے۔ یہاں ملک کی دینی جماعتوں کے ذمہ داران، معروف علماء اور دانش وران، مسالک اور فرقوں کے نمائندے اور ترجمان جمع ہیں اور ملت کی فلاح و بہبود، ترقی اور مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ الحمد للہ مجھے اس کانفرنس میں شریک ہونے اور سربرہانِ قوم کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔

میں اس کانفرنس کے داعیان اور خاص طور پر ڈاکٹر محمد منظور عالم اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا دل کی گہرائیوں سے انتہائی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس میں شرکت کے لیے مدعو کیا اور اس کا حصہ بنایا۔

اس مجلس میں میرے بعض اساتذہ نے شرکت کی ہے، جن کے سامنے میں نے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ہے۔ [ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ]، بیش تر حضرات میرے اساتذہ کے درجے میں ہیں۔ کچھ میرے احباب ہیں۔ میں اس موقع پر جو کچھ عرض کروں گا اس میں سے اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو پیشگی معذرت خواہ ہوں :

(1) میری شعوری زندگی 45 برسوں پر محیط ہے۔ 1975 میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں میرا داخلہ ہوا تھا۔ اس وقت سے اتحاد امت/اتحاد ملت کی باتیں سن رہا ہوں۔ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے بہت سے خطابات سنے۔ دیگر بڑے بڑے علماء کی تقریریں سنیں۔ اتحاد امت پر لکھی جانے والی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اتحادِ امت کی بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد ہوتے ہوئے دیکھا۔ لیکن میں اپنے اس درد کا اظہار کیے بنا نہیں رہ سکتا کہ جن لوگوں نے اتحاد کی باتیں کیں، وہی بار بار انتشارِ امت کا باعث بنے۔ اس لیے میں اتحادِ امت کے نام پر منعقد ہونے والے کسی پروگرام میں کوئی جاذبیت محسوس نہیں کرتا۔ اِس کانفرنس کا دعوت نامہ موصول ہوا تو بھی میرا یہی احساس تھا۔ میں نے بعض آرگنائزرس کے سامنے اس احساس کا اظہار کیا تو انھوں نے مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ اس کانفرنس میں صرف اتحاد کی باتیں ہی نہیں ہوں گی، بلکہ عملاً اس کی منصوبہ بندی بھی کی جائے گی اور لائحۂ عمل تیار کیا جائے گا۔ اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔

(2) میں آپ حضرات کی خدمت میں درد مندانہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اتحاد کے لیے گفتگو بہت ہو چکی، تقریریں اور خطابات بہت ہو چکے، سمینار اور کانفرنسیں بہت ہو چکیں۔ اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

(3) کانفرنس کے اس اجلاس کا مرکزی عنوان ہے : ” اتحادِ ملت میں علماء کرام اور دانش وروں کا مطلوبہ رویہ”۔ اس عنوان پر لمبی چوڑی تقریروں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ علماء کرام کی طرف سے اتحاد کا عملی مظاہرہ مطلوب ہے۔

بزرگو اور دوستو ! یہ احساس عام ہورہا ہے کہ عوام میں اتحاد ہو سکتا ہے، نوجوان مل جل کر کوئی کام کر سکتے ہیں، مختلف گروپوں اور گروہوں کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی ہو سکتی ہے، لیکن مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر کے علماء کے درمیان اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ہمیں اپنے عمل سے اس احساس کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

(4) سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتحاد کی ضرورت کیوں ہے؟ میں عرض کرتا ہوں : اتحاد کی ضرورت ہے اسلام کے تعارف کے لیے، بندگانِ خدا تک اسلام کی تعلیمات پہنچانے کے لیے، ملت کی ترقی کے لیے، ملت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے۔ انفرادی کاموں کی بھی اہمیت ہے۔ جس سے جو کچھ ہو سکے، کرے۔ لیکن اگر کاموں میں تال میل پیدا کیا جائے، ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے کو سہارا دیا جائے اور باہم مفاہمت کے ساتھ جدوجہد کی جائے تو ملت اپنے نصب العین کی انجام دہی بہت اچھے طریقے پر کر سکتی ہے۔

(5) محترم بزرگو اور بھائیو ! اس وقت اتحاد کی ضرورت سابقہ زمانوں سے بڑھ کر ہے۔ ہمارے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ہمارا تشخص ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ہمارے دین و ایمان پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف متحد ہو کر اور منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ یہ ہماری موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم متحد نہیں ہوں گے تو مارے جائیں گے۔

(6) جماعت اسلامی ہند امت کے اندر اور خاص طور پر علمائے امت کے درمیان اتحاد و اتفاق کو فروغ دینے کے لیے برابر کوشاں ہے۔ امت کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کوئی بھی فورم تشکیل پائے، کوئی بھی کمیٹی بنے، کوئی بھی اجتماعیت وجود میں آئے، جماعت بغیر کسی تحفّظ کے اس کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔ جو بھی خدمت اس کے حوالے کی جائے گی وہ ملک کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے اپنے کیڈر کے ذریعے اسے انجام دینے کی کوشش کرے گی۔

(7) ہماری یہ کانفرنس اگر نشستن، گفتن، خوردن اور برخاستن تک محدود رہے تو بے فائدہ اور وقت کا ضیاع ہے۔ اگر کوئی عملی شکل اختیار کر لے تو یہ وقت کی ضرورت ہے۔ امید ہے، اتحادِ امت کا کوئی عملی خاکہ تیار کیا جائے گا اور آئندہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔