طالبان: لرز رہے ہیں جگر جس سے کوہساروں کے

ڈاکٹر سلیم خان

  حکومت افغانستا ن اور طالبان کے درمیان لڑائی شدت اختیار کرچکی ہے۔ طالبان نے دو دن کے اندر  چار صوبائی مراکز پر قبضہ کر کے امریکی فوج  پر واضح کردیا کہ  صوبائی مراکز اور بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کی خاطر وہ مکمل انخلا کا انتظار   نہیں کریں گے۔ اس مہم کا آغاز ایران سے متصل جنوبی صوبہ نمروز کے مرکزی شہر زرنج پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضے سے ہوا۔ وہاں  سےسرکاری فوجی ایران بھاگ گئے۔ اسکے بعد  طالبان نے شمال میں افغان فیلڈ مارشل جنرل عبدالرشید دوستم کے وطن صوبہ جوزجان کے مرکز شبرغان پر قبضہ کیا۔شبرغان میں جنرل دوستم کے بیٹے  باتور دوستم طالبان سے لڑنے کے لیے میدان میں تو  آئے مگرشکست کھا کر ساتھیوں سمیت  فرار ہوگئے۔ طالبان نے صوبہ قندوز کے صوبائی مرکز پر بھی  فتح کا پرچم لہرا دیا۔ قندوز شمالی افغانستان کا قلب ہے اورطالبان نے یہیں سے  2010 میں اپنی قوت کا آغاز کیا تھا۔  اس کے بعد صوبہ تخار کا مرکزی شہر طالقان کو اپنے قبضے میں لیا یہاں تو  عروج کے دور میں  یعنی نوئے کی دہائی  میں بھی طالبان قابض نہیں ہو سکے تھے۔ شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود  کا آبائی وطن ضلع پنجتخار میں ہے۔ سر پل  بھی طالبان کےپا س ا ٓگیا ہے اور لشکر گاہ میں جنگ جاری ہے۔ اس کے بعد بلخ کا مرکزی شہر مزار شریف طالبان کا اگلا ہدف ہے۔ ایسے میں احسان دانش کا یہ شعر  یاد آتا ہے جو  انہوں  نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا تھا ؎

لرز رہے ہیں جگر جس سے کوہساروں کے

 اگر وہ لہر یہاں آ گئی تو کیا ہوگا

وہ لہر افغانستان کے طول و عرض میں آچکی ہے۔اس نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے ہندوستانی دورے  کے وقت وزیر خارجہ  ایس جے شنکر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ  اعتراف کہ ’افغانستان کے کئی صوبائی درالحکومتوں کو چیلنج کرتے ہوئے طالبان کی  ضلعی مراکز کی جانب پیش قدمی کرتے نظر آ رہے ہیں‘ کو سچ کردیا۔ انہوں نے  طالبان کے مظالم کی خبروں  پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ   پورے ملک کے لیے طالبان اچھے ارادے ظاہر نہیں کر رہےہیں اور   کابل حکومت کی حمایت کے لیے سفارت کاری کو بروئے کار لانے کی کوشش جاری ہے تاکہ فریقین مل کر بامقصد طریقے سے تنازع کاپرامن حل  نکال  سکیں۔ انہوں نے کہا ہندوستان نہیں چاہتا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ میدان جنگ میں ہو۔جے شنکر نےتسلیم کیا کہ 20 سال بعد افغانستان سے  امریکی  انخلا کے نتائج اچھے ہوں گے یا برے۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے بھی  مذاکرات کے ذریعہ قیامِ امن، سیاسی تصفیہ  اور تشدد کے خاتمہ پر زور دیا۔  وزیر خارجہ جے شنکر  کی یہ حقیقت پسندیطالبان کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد بن سکتی ہے۔

اس سے قبل یہ خبر اڑچکی ہے کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے طالبان سے ملاقات کی مگر وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے اس کی تردید  کرتے ہوئے کہاکہ ”ہم نے وزیر خارجہ کے طالبان کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے میڈیا میں بعض رپورٹیں دیکھی ہیں۔ لیکن میں واضح طور پر ان دعووں کی تردید کرتا ہوں کہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کسی طالبان رہنما سے ملاقات کی ہے۔ اس طرح کی خبریں جھوٹی اور شرانگیز ہیں۔‘‘ اس کے جھوٹا ہونے ہر اکتفاء کرلیا جاتا تو اچھا تھا لیکن شر انگیز کہنا کسی طور مناسب نہیں کیونکہ آج نہیں تو کل یہ ملاقات ہونی ہے الاّ یہ کہ جئے شنکر سے بھی مودی جی کا موہ بھنگ ہوجائے اور ان کو  وزارت سے خارج کرکے باہر کا راستہ دکھا دیاجائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا   یہ دھواں کسی ا ٓگ کے بغیر  اٹھا تھا؟

دراصل پچھلے مہینے  کینیا جاتے ہوئے وزیر خارجہ دوحہ میں اچانک رک گئے۔ کینیا کا سفر ایسا طویل  بھی نہیں ہے کہ درمیان میں رک کر آرام کرنا پڑے نیز عام مسافروں کی مانند سستے ٹکٹ  کے لیے بھی  وزیر خارجہ درمیان میں  نہیں رک سکتے۔ وہ تو مالِ مفت دلِ بے رحم کے حقدار ہیں اس لیے ان کے دوحہ رکنے سے طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی کہ  انہوں نے قطر کے قومی سلامتی مشیر سمیت کئی عہدیداروں سے ملاقات کی۔ ایسے میں دو سوالات جنم لیتے ہیں۔ اول تو  دوحہ میں قیام کی بابت  پہلے سے کوئی سرکاری اعلان کیوں  نہیں کیا گیا؟  دوسرے قطر کے قومی سلامتی کا مشیر ہمارے کس کام ہے؟ یہ بتایا گیا کہ وزیر خارجہ  نے اپنے مختصر قیام کے دوران افغانستان سے امریکی اور بین الاقوامی فوج  کی واپسی کے بعد افغانستان کی ممکنہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موضوع پر گفتگوکا اصلی حقدار تو طالبان ہے جس  کا وہاں دفتر موجود ہے۔ اس لیے  دوسروں سے اس پر بات کرنا چہ معنیٰ دارد؟  خیر سفارتکاری کے اپنے رموز ہوتے ہیں جس سے ہر کوئی آشنا نہیں ہوتا۔

ہند طالبان خفیہ رابطے یہ بلی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی جب قطر کے ایک سینئر سفارت کارنے بتایا کہ افغانستان میں مستقبل کے ایک اہم عنصر طالبان کے ساتھ بات چیت میں ہندوستان مصروف ہے۔ اس کے بعد ہندوستانی  وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہہ دیا کہ افغانستان میں تمام امن مساعی اور اس میں شامل مختلف فریقین کی ہندوستان  حمایت کرتا ہے۔ اب  نام نہاد دہشت گردوں کو فریق بناکر ان کی حمایت کردی گئی تھی۔ حکومت ہند کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کیونکہ برسوں قبل جب  امریکہ  نے ‘اچھے طالبان اور برے طالبان‘ کی اصطلاح پیش کرکے با ت چیت شروع کی تھی تواس وقت  ہندوستان  نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’اچھے طالبان‘ جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ ہزاروں سال پرانے  رام راجیہ کو قائم کرنے والی حکومت کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ افغانستان کو ماضی  میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسی موقف نے طالبان سے گفت و شنید کو بے سود بنا دیا ہے۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر قمرآغا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیتمیں کہا کہ  ”ہندوستان  کے اندر سفارت کاروں کا ایک بڑا گروپ طالبان کے ساتھ بات چیت کا حامی ہے۔ اور چونکہ خطے کے بعض ممالک نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے ایسے میں بھارت نہیں چاہے گا کہ وہ اکیلا رہ جائے۔‘‘سابق خارجہ سیکریٹری ششانک کے مطابق  طالبان سے بات چیت کرنے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں۔ اول  افغانستان میں میں کی گئی تقریبا ً تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاریکو محفوظ کرنا، تشدد کی وجہ سے ملک چھوڑنے والے افغان پناہ گزینوں کوہندوستان  آنے سے روکناحالانکہ سی اے اے کے مجوزہ قانون میں افغانی  غیر مسلمین کے لیے  بھی اس کی  گنجائش نکالی گئی ہے جبکہ کوئی افغانی  مسلم تو بھول کر بھی یہاں ہجومی تشدد کا شکار ہونے کے لیے نہیں آئے گا۔

وزارت خارجہ کے سابق  سیکریٹری وویک کاٹجو کے مطابق  افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلاء کی وجہ سے پیدا شدہ  صورت حال کے مدنظر طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے ماہر  سوشانت سرینبھی  طالبان کے ساتھ رابطہ پر زور دیتے ہیں۔ معروف صحافی کلول بھٹاچاریہ نےجموں میں فضائیہ کے اڈے پر ڈرون حملہ میںداعش  کے ملوث ہونے کے اندیشے پر  فکر مندی اظہار کیا ہے حالانکہ داعش کو اپنے یہاں کام کرنے کی اجازت  دینے سے طالبان انکار کرچکے ہیں۔افغانستان کی موجودہ  صورتحال پر ہندوستان کے علاوہ روس کو بھی  تشویش  اس لیے ایک ہفتہ قبل اس نے بھی شمالی افغانستان کے ضلع مزارِ شریف میں اپنا قونصل خانہ بند کرنے کا اعلان کردیا  نیز رواں ماہ کے اوائل میں چین نے بھی افغانستان سے اپنے 210 شہری واپس بلوا لیے۔

اس دوران ہندوستان کے اندر تعلیم حاصل کرنے والے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے دی ہندو اخبار  کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کمال صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے  کہا  کہ امریکہ اپنے افغان مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ یہ وہی حامد کرزئی ہیں جن کو امریکہ نے صدر بنایا تھا لیکن اس کے بعد چونکہ ہٹا بھی دیا اس لیے ان کی ناراضی قابلِ فہم ہے۔ حامد کرزئی نے یہ بھی  اعتراف کیا کہ افغانستان کے  اندر انفراسٹرکچر میں ہندوستان کی  بھاری سرمایہ کاری کی امریکی سپاہیوں اور جمہوری حکومت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار اور سابق فوجی افسر پروین سوہنیکے خیال میں  اگرطالبان دوبارہ اقتدارمیں آتے ہیں تو کشمیر پر اس کا یقینی طور پر اثر ہو گا۔ سوہنی کے بقول، ‘’’طالبان جنگجو ،مٹی کے فرزند ہیں۔ وہ پہلے ہی ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کا دعوی کر رہے ہیں۔ ایسے میں نیٹو کے انخلا کے بعد، مجھے کشمیر پر اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ہندوستانی  فوج کے سربراہ منوج مکند نے اس  ماہ کے آغاز میں عالمی انسداد دہشت گردی کونسل کے زیر اہتمام ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فائر بندی معاہدے کے بعد، کشمیرمیں  مسلح عسکریت پسندی کے حوالے سے نمایاں بہتری واقع ہوئی ہے۔

 ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد صورتحال میں تیزی سے تبدیلی آ سکتی ہے۔نئی دہلی میں سکیورٹی امور کی ماہر آکانکشا نارائن کوخدشہ ہے کہ  افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا سے کشمیر میں عسکریت پسندوں کو شہ مل سکتی ہے۔ اندیشوں اور خدشات کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ حقیقت نہ بن جائیں لیکن  یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ملک کی وزارت خارجہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان سے بلاوجہ تعلقات کشیدہ نہ کرتی تو آج حالات بہتر ہوتے اور پتی ، پتنی کے درمیان ’وہ‘ کے آجانے سے ایسی کشیدگی  رونما نہ ہوتی ۔ افغانستان کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد ہندوستان کا  راستہ آسان نہیں ہوگاکیونکہ طالبان اورہندوستان  ایک دوسرے کے مخالف  رہے ہیں۔ اٹل جی کے زمانے طالبان کے ساتھ حکومت  ہند کے تعلقات بہت خوشگوار تھے اسی لیے انہوں نے مولانا اظہر مسعود کو وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے ساتھ بھیجا تھا لیکن منموہن نے سارا کھیل  بگاڑ دیااوراب مودی کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہورہا ہے۔  یہ صورتحال کیسے قابو میں آئے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔