اتحاد امت بنام سیکولرزم

 ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

پچھلے چند دنوںسے اردواخبارات میں مسلسل یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں کے چند سیاسی اور دینی رہنما موجودہ حالات سے بیزار ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں اور امت مسلمہ ہند کے مفاد میں ایک وسیع تر اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں جن رہنماﺅں کے نام پیش پیش ہیں ان میں اترپردیش کے سماج پارٹی کے رہنما اعظم خان، دہلی کے شاہی جامع کے شاہی امام سید احمد بخاری، مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کا نام سر فہر ست رہے بعد میں معروف بریلوی عالم دین مولانا توقیر رضانے بھی اس قسم کے متوقع کی اتحاد کی حمایت کا عندیہ ظاہر کیا۔ ان خبروں کے گشت کرنے کے بعد سوشل میڈیا میں بھی اس اتحاد کی تعریف و توصیف میں خبروں کی باڑھ آگئی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ عام مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ پہلے سے متحد ہے اور اپنے لیڈروں کے اتحاد کا متمنی ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امت کے چند لیڈر بھی موجودہ حالات میں اپنے مفادات سے بالا تر ہوکر اگر متحد ہوجائیں تو مسلمانوں کا ایک ایک فرد بلا کسی محنت کے اس اتحاد کے پیچھے کھڑا ہو جائے گا۔ جن رہنماﺅں کے نام اس سلسلے میں سامنے آئیں ہیں بظاہر وہ اجتماع ضدین محسوس ہو تے ہیں مثلاً اعظم خان اور احمد بخاری آپس میں ایک لمبے عرصے سے دست بگریباں ہیں، اسد الدین اویسی اور مولانا بخاری کی بھی کبھی بنتی دکھا ئی نہیں دی البتہ مولانا توقیر رضا پچھلے چند سالوں سے اتحاد امت کے لیے بر سر کار دکھائی دیئے ہیں۔ ابھی چند سال قبل بریلی فساد کے موقع پر جب مولانا توقیر رضا صاحب کو گرفتار کر لیاگیاتھا تو مسلم تنظیموں کے ایک وفد نے ان سے اظہار یکجہتی کے لیے بریلی جاکر گرفتار یاں پیش کی تھیں۔ اس وفد میں جماعت اسلامی، جمیعت اہل حدیث، مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لا ءبورڈ کے ذمہ داران شریک تھے۔ اپنے رہائی کے بعد مولانا توقیر رضا نے بھی مثبت پیش رفت کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے دفتر میں خود آکر اتحاد بین المسلمین کا اشارہ دیا۔  بعد میں بھی مختلف الخیال لیڈران سے وہ رابطہ میں رہے اور ابھی حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کا دورہ کرکے اس جانب کی ایک بڑی پیش قدمی کی جسے چند شدت پسند عناصرکے سوا پورے ملک نے سراہا، اسی لیے اس اجتماع ضدین کو دیکھتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں یہ خیال ضرور آتاہے کہ اگر خوانوادہ  احمد رضا کا چشم وچراغ اپنی خانقاہ سے نکل کر دیوبند کے مدرسے تک جا سکتا ہے تو پھر سیاست کے اس میدان میں آگ اورپانی کا ملن کیونکر ممکن نہیں ہے۔ کہتے ہیں سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔
ان خبروں کے ملنے کے بعد راقم الحروف نے مولانا احمد بخاری اور توقیر رضا صاحب سے الگ الگ فون پر گفتگو کی تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ خبر کسی اخبار نویس کی حسین خواہش کا اظہار ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہے۔ امت کے گذشتہ سو سالہ حالات نے تشکیک کو مزاج ثانی بنا دیا ہے۔ اب کوئی مثبت عمل بھی پہلے منفی رد عمل کہ مرحلے سے گذرتاہے۔ نام نہاد رہنماﺅں نے پیٹھ میں اتنے خنجر بھونکے ہیں کہ اب ان کے ہاتھوں میں لیے پھول بھی خنجر ہی محسوس ہونے لگے ہیں اوربہر حال سیاسی تجزیہ نگار اس قسم کے واقعات کو بنا تحقیق ہضم نہیں کرسکتے۔ لیکن حالات یہ بتاتے ہیں کہ ان لیڈروں کے اپنے دگر گوں سیاسی حالات نے بھی انہیں پرانی وفاداریاں ترک کرکے نئے ساتھیوں کا ہاتھ تھامنے میں ہی اپنی سیاسی عافیت محسوس کر نے پر مجبور کر دیا ہے۔ مثلاً اعظم خان سماج وادی پارٹی کے بانیان میں سے ایک ہیں۔ درمیان کے پانچ سال میں وہ سماج وادی پارٹی اور ملائم سنگھ یادوں سے ناراض ہوکر پارٹی سے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے ناراضگی کی وجہ پارٹی میں امر سنگھ کا بڑھا ہوا قد اور رامپور میں امر سنگھ کی ساتھی جیا پردہ کی نامزدگی تھی جو اعظم خان کو کسی صورت ہضم نہیں ہو ئی تھی۔ درحقیقت یہ امر سنگھ کا اعظم خان کے نام ایک کھلا پیغام تھا کہ پارٹی میں اعظم خان کی وقعت کتنی رہ گئی ہے۔ بعدازاں 2012 اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے قبل ملائم سنگھ یادوکو ضرورت محسوس ہوئی تو اعظم خاں کے گھر جاکر انہیں پھر سے منا لائے۔ اس وقت امر سنگھ کا کانٹا بھی نکل چکاتھا۔ لیکن 4 ہی سال میں حالات پھر بدل گئے اور اب وہی امر سنگھ اعظم خاں کی مرضی کے خلاف پھر پارٹی میں ہیں اور راجیہ سبھا میں بھیج دیئے گئے بالفاظ دیگر جیا پردہ بھی ایک بار پھر اعظم خاں کے سرپر مسلط ہونے کو تیار ہیں۔ علاوہ ازیں راجیہ سبھاکی ۱۱ سیٹوں میں سے اعظم خاں کے اصرار کے باوجود کسی مسلمان کوٹکٹ نہیں دیا گیا۔ نتیجہ میں خاں صاحب کے دل میں بے چینی پیدا ہوناایک فطری امر ہے۔ ایسے میں وہ پارٹی سے باہر آکر مسلمانوں کی سیاست شروع کردیں تو کوئی تعجب خیز امر نہیں ہوگا۔ لیکن اس سیاست کے لیے وہ دہلی کے شاہی امام کا دامن تھام لیں گے، یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح مولانا احمد بخاری بھی ملائم سنگھ یاد و سے ایک عرصے سے ناراض رہے ہیں اور اس مرتبہ ملائم سنگھ یادو کو سبق سکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ احمد بخاری صاحب اور اعظم خان ایک دوسرے کے ازلی مخالف ہیں نیز امام صاحب ہمیشہ تنہا ہی چلے ہیں۔ کسی دوسرے لیڈر کے ساتھ اشتراک عمل ان کا مزاج نہیں رہاہے اور اپنے مزاج کے برخلاف مفاد امت کے پیش نظر وہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملاکر قیادت کے شریک بن جائیں گے یہ سمجھنا ابھی قبل ازوقت ہوگا۔ اسدالدین اویسی ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کے سر براہ ہیں اور تلنگانہ کے مخصوص حلقہ میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔ ملک کی دوسری ریاستو ں میں ان کی کوشش کے باوجود کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر پائے ہیں لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا نے انہیں مسلمانوں کے شعلہ بیاں قائد کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی قیادت کو چھوڑ کر احمد بخار ی یااعظم خاں جیسی شخصیت کی قیادت کوقبول کرلیں یہ کہنا بھی مناسب نہیں لگتا اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حیدر آباد کے حلقوں سے مستقل یہ خبر پھیلائی جارہی ہے کہ اعظم خان سماجوادی پارٹی چھوڑ کر مجلس میں شریک ہونے والے ہیں۔ اس قسم کے خبریں شرارت پر مبنی تو ہوسکتی ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اورایسی ہی خبریں دراصل کسی بنتے ہوئے اتحاد کو قبل ازوقت توڑ دینے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برابر کا قد رکھنے والے لیڈران اگر کسی ایک قیادت پر متحد نہ ہو ں تو یہ اشتراک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بہرحال قیادت فرد واحد کی ہی قابل عمل ہوتی ہے۔
مذکورہ بالادونوں حضرات سے گفتگو کرنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ اتحاد کی خواہش تو موجود ہے لیکن اس کا عملی خاکہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ علاوہ ازیں سب کے پیش نظر اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات ہی ہیں۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ اتحاد خود کو ئی سیاسی جماعت بننے نہیں جا رہابلکہ سیاسی جماعتوں کا وفاق قائم کرکے اتر پردیش کی کسی پارٹی کو حمایت دینے کا ہی عندیہ رکھتاہے۔ اگر یہ اندازہ صحیح ہے تو اس کا کوئی خاص فائدہ مسلمانوں کو پہنچنے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند کوئی بھی سیاسی جماعت اس قسم کے وفاق سے چندسیٹوں کا سودا کرکے پورے امت کے ووٹ اپنے جھولی میں بٹور لے گی اور امت کے حصے میں بچیں گے وہی ڈھاک کے تین پات۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈران گذشتہ 63 سالہ بی جے پی کو ہرانے کے نشے سے ابھی باہر نہیں نکلے ہیں۔ اتنے نامساعد اور پر آشوب حالات میں بھی جبکہ ملک اور مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی ہے یہ لیڈران نئی سیاسی حکمت عملیوں کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ابھی تک نہیں کر پائے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ کو در کنار کرکے حاشیہ بردارکیاجاچکا ہے اورمسلمانوں کی ملک گیر سیاسی جماعت ہی اس مقابلہ کر سکتی ہے۔ امت ان حالات کو اچھے سے سمجھتی ہے اور کسی سیاسی پہل کے لیے اپنے تنظیمو ں اورذمہ داروں کا منہ تک رہی ہے اورذمہ دار ہیں کہ اتنی عظیم امت کا ساتھ ملنے کے باوجود اپنے قدموں میں کمزوری محسوس کر رہے ہیں۔ یہ ا ن کے ذاتی مفادات کا شاخسانہ ہے یا ان کے سابقہ تلخ تجربا ت کا نتیجہ ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ سیاسی حالات بدل چکے ہیں، سیکولر سیاسی جماعتو ں کا بھرم ٹوٹ چکا ہے اور مسلمان اپنے دم پر اپنی سیاسی وجود کی بقا کیلئے کمر بستہ دکھائی دیتاہے۔ یہ وہ موقع ہے جب ہمت کرکے ان رہنماﺅں کواکٹھا ہو جانا چاہیے۔ سیاسی قوت بڑھے گی تو مفادات بدست خود پورے کر لیے جائیں گے اور کسی دوسرے سے بھیک کی طرح راجیہ سبھا کی ایک سیٹ اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا ایم ایل سی کی ایک سیٹ مانگنے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ جلد ہی ان نام نہاد سیاسی جماعتو ں کے رہنما مسلمانوں کے دروازوں پر قطار در قطار کھڑے دکھائی دیں گے۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے انتخابی سیاست کی ایک حقیقت ہے۔ بد قسمتی سے پچھلے ستر سالوں میں اس حقیقت کا عملی تجربہ کرنے سے انہی سیکولر جماعتوں نے ہمیں روکا ہے۔ لیکن اب حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے۔ متحدہ مسلم قیادت کا سیل رواں اس خواب کو بہترین تعبیر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اترپردیش کے انتخاب میں ابھی دس ماہ کا وقت باقی ہے۔ مبنی بر مفادہی سہی یہ اتحاد اگر قائم ہوگیا تواتر پردیش اسمبلی کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایس پی، بی ایس پی، بی جے پی، اجیت سنگھ ۔کانگریس یا اس کا مہا گٹھ بندھن جیسی سیاسی طاقتوں کے ساتھ اگر مسلمانوں کی کوئی قوت کھڑی ہوتی ہے تو اتر پردیش کی ہر سیٹ پر کم سے کم چہار رخی مقابلہ ہوگا اور مسلمانو ں کی پارٹی قابل لحاظ تعداد میں ووٹوں کی اس تقسیم کا فائدہ اپنے حق میں اٹھا سکتی ہے۔ اوراس طرح ان لیڈران کے ذاتی مفادات بھی پورے ہوسکتے ہیں اور ایک سیاسی قوت کے حیثیت سے امت کی نمائندگی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ بعد میں اگر اسی اتحاد کو 2019کے لوک سبھاانتخابات میں آزمایا گیا تو اس قسم کی سیاسی جماعت کے کم ازکم 20ممبر پارلیمنٹ کا چنا جانا کوئی مشکل بات نہ ہوگی۔ بات صرف ہمت کرنے کی ہے اور وقتی طورپر اپنے مفادات کو اپنی ترجیحات سے ہٹاکر امت کو ترجیحات میں شامل کرنا پڑے گا۔ یہ وہ نسخہ کیمیا ہوسکتا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو وہ طاقت بھی عطا کر دے گا جو عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ہونے والی یورشوں اور شورشوں کے سد باب کیلئے بھی ایک جمہوری سیاسی قوت فراہم کرسکتا ہے۔ آخر میں مولانا توقیر رضا کا یہ جملہ حالات کو سمجھنے کے لئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتاہے کہ امت کے خلاف ایک سیلاب بپا ہے اور جب سیلاب آتاہے تومتاثرین کو اپنی جان کی بقا کے خاطر اپنے اختلاف کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سیسہ پلائی ہوئی دیواربن جانا چاہیے۔ سمجھ دار قوموں کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے اور اسی متن کوایک شاعر نے بھی اس طرح شعر کیاہے
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھر ے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔