رمضان المبارک اور اس کے ایمانی تقاضے

حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
اللہ کا شکرہے کہ رمضان المبارک آگیا ،اللہ کی رحمتیں برسنا شروع ہو گئیں۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:رمضان ا لمبارک کے لئے جنت سال بھر سجائی جاتی ہے اور رمضان المبارک کی پہلی رات کو عرش کے نیچے سے مشیرہ(اشارہ کرنے والی) نامی پاکیزہ ہوا چلتی ہے جو جنت کے درختوں کے پتوں اور دروازوں کے حلقو ں سے لگے ہوئے گزرتی ہے ، جس سے ایک دلکش آواز پید ا ہوتی ہے کہ سننے والوں نے ایسی شیریں (میٹھی) آواز کبھی نہیں سنی ہے۔ یہ آواز سن کر جنت کی حوریں جنتی بالا خانوں ( Balcony) میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اس وقت یہ حوریں آواز دیتی ہیں کہ کون ہے جو اللہ سے ہماری درخواست کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا نکاح اس روزہ دار سے کرادے۔ پھر وہ رضوان الجنہ سے دریافت کرتی ہیں کہ یہ کون سی رات ہے؟وہ جواب دیتا ہے کہ یہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے کہ اس مہینہ میں امت محمدیہ کے روزہ داروں کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔(بیہقی، شعب الایمان، باب فی الصیام، فضائل شہر رمضان، الحدیث3633،جلد3، صفحہ 312۔313)
بے پناہ احسان وکرم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتٰکُمْ مِنْ کُلِّ مَاسَاَ لْتُمُوْہُ ط وَاِنْ تَعُدُّ وْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْ ہَا۔ترجمہ: اور تمہیں بہت کچھ منھ مانگا دیا اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے۔(القرآن سورہ ابراہیم ، آیت 33) یعنی کروڑوں نعمتیں تمہارے بغیر مانگے تمہیں بخشیں، ہماری عطاتمہارے مانگنے پر موقوف نہیں ہے ۔ مزید ارشاد ربانی ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْ ہَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْ الرَّحِیْم۔ ترجمہ:اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(القرآن،سورہ نحل، آیت 17)
بندوں کے کفروسرکشی کے باوجود اپنی نعمتیں بند نہیں فرماتا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ بندوں پر فرض ہے کہ تم اپنے منعم حقیقی کو پہچانو اور اس کی بندہ نوازیوں کا شکر ادا کرتے رہو اور عبادت میں لگے رہو ۔ اللہ نے بندوں کو ایسے ایسے نیک لمحات اور دن مہینہ عطا کئے جس میں وہ نیک اعمال کرکے دونوں جہان کی نعمتوں سے اپنے آپ کو مالا مال کر سکے۔ ان ہی نعمتوں میں سے ایک نعمتِ عظمیٰ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔
ایمان کی بنیاد پانچ باتوں پرہے
عَنْ اِبْنِ عُمَرْ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ بُنِیَ الْاِسْلَامِ عَلٰی خَمْسِ شَہَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدً رَسُوْلُ اللّٰہُ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجَّ وَصَوْمِ رَمْضَان ۔ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ (1) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں(2)نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ دینا(4) حج کرنا(5) اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری ،حدیث نمبر8)رمضان کے مبارک مہینے کو اللہ نے ہم سب کو عطا کیا ہے تاکہ بندے اس کی ہر ہر سکنڈ سے اپنے آپ کو فیضیاب کرے اور اس کی رحمتوں ،برکتوں اور نجات و مغفرت جیسے انعام الٰہی سے اپنے دامن کو بھر لے ۔ اس ماہ میں ہر نیک عمل کا بدلہ ایک سے ستّر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
انسانی ہمدردی اور مروت کامہینہ رمضان المبارک
تمام مومنوں پر دوگنی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ اس مہینہ میں نماز ،روزہ ،زکوٰۃ، صدقہ فطر اور دیگر عطیات کے ساتھ بطور خاص انسانی ہمدردی اور مروت کا خوب خوب مظاہرہ کریں اور جو بھی ہماری مروت و ہمدردی کے حقدار ہیں،ان سے صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طورپرمدد کرکے ہمدردی کا ثبوت دیں اورایمانی تقاضوں کو پوراکریں۔ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص خود تو شکم سیر ہو کر کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا رہے تو ایسا شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ اسی طرح کوئی روزہ دار خود تو سحری و افطار میں بہترین لذیذ چیزیں اور طرح طرح کے شربت پیئے لیکن اس کے پڑوسی کو معمولی غذا بھی پیٹ بھر نہ ملے تو کوئی بعید نہیں کہ ایسا شخص جہنم کا شکار ہوجائے ۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا اور لوگوں کو سلام کرنا ایمانی تقاضوں میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ ا بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:یا رسول اللہ ﷺ ! اسلام کا کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: غریبوں کو کھانا کھلانا اور جانے انجانے ہر کسی کو سلام کرنا(بخاری، حدیث نمبر12)۔مزید یہ حدیث پاک بھی یاد رکھنے کی ہے ۔جو ضرورت مندوں پر خرچ کرتاہے ،لوگوں کو سلام کرتا ہے ایمان سے ہے۔ حضرت عماد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :تین باتیں ایمان سے ہیں۔(1) ضرورت مندوں پر خرچ کرنا(2) ہر کسی کو سلام کرنا(3)اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا۔(مجمع الزوائد، ومنبع الفوائد، حدیث نمبر183)
ہمارا معاملہ بالکل الگ ہے ۔ہم اپنے برابر والوں کو تحفہ تحائف ،افطار وغیرہ بھیجتے ، لین دین کرتے ہیں۔ لیکن ایک غریب محتاج پڑوسی و رشتے دار سے لین دین نہیں کرتے جو نہ صحیح طرح سے سحری و افطار کا انتظام کرسکتا ہے۔ ہم بھولے سے بھی کبھی اس کو افطار یا سحری کا تحفہ نہیں بھیجتے۔ غرباء ومساکین کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے۔ ہمارا یہ عمل دینی و اخلاقی دونوں اعتبار سے افسوس ناک ہے۔ ذرا ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور دل و دماغ سے پوچھیں کہ ہم اس لسٹ میں تو نہیں کہ افطار کی محفلوں میں صرف مالدار وں کو بلاتے ، شامل کرتے ہیں اور غرباء و مساکین اور محتاجوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو ہمارا یہ عمل اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔شَرُّالطَّعَامُ الْوَلِیْمَۃِ یُدْ عَی لَہَا الْاَغْنِیَاءُ وَ یُتْرَ الْفُقَرَاء۔ترجمہ: سب سے برا کھانا اس ولیمے کا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے(صحیح بخاری، باب من ترک الدعوہ فقد عصی اللہ ورسولہ)۔ روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اسے صبر وتحمل سے کام لینے کا عادی بنایا جائے تاکہ اگر کوئی انسان کسی انسان کی بے عزتی کرے تو وہ صبر و تحمل سے کام لے اور اسے نظر انداز کر دے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:تم میں سے جب کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے بری بات نہ نکالے اور نہ شور ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اسے گالی گلوج کرے یا مرنے مارنے پرتیار ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں، گالی گلوج یا لڑائی کیسے کر سکتا ہوں۔(صحیح بخاری) دوسری حدیث پاک اس طرح سے ہے۔مَنْ لَمْ یَدَعَ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃُٗ فِی اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ۔ترجمہ: جو شخص روزے کی حالت میں بھی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم) روزوں کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو نیک اور متقی بنایاجائے ، اللہ سے ڈرنے والا بنایا جائے۔
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّ مِنْ اَیَّامٍ اُخَرْط ترجمہ:تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو اس کا روزہ رکھے اورجو بیمار یا سفر میں ہوتو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا اور تمہیں چاہئے کہ گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور اس امید پر اس کے شکر گزار ہوجاؤ(القرآن ،البقرہ، آیت 184)
اللہ رب العزت اپنے بندوں پرکتنا مہربان ہے کہ حالات کے اعتبار سے حکم دے رہا ہے۔ سفر ، بیماری میں بعد میں گنتی پوری کرنے کا حکم دے رہا ہے تاکہ اس کے بندوں پر سختی نہ ہو بلکہ آرام ہو۔ اللہ کے رسول فرماتے ہیں: دین آسان ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک دین آسان ہے جو بھی دین میں سختی کرے گا وہ مغلوب (ہارا ہوا) ہوجائے گا۔تم درست اور سیدھے رہو، مبالغہ آرائی سے بچواور لوگوں کو خوشخبری سناؤ۔(بخاری ،حدیث نمبر39)
رمضان المبارک کی قدر توبہ و استغفار کرکے کریں
توبہ کرناہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ان گناہوں سے جلد از جلد توبہ کر لے جو صرف اس کے اور اس کے رب کے مابین ہیں اور ان گناہوں سے بھی جلد از جلد توبہ کرلے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ رب کریم کا فرمان ہے: اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو تاکہ کامیابی حاصل کرو۔(القرآن سورہ النور، آیت 31)
اغر بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو، میں تو دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر4704)۔یوں تو رمضان کا ہر لمحہ قیمتی اور فائدہ مند ہے۔ چلتے پھرتے ، لیٹے بیٹھے توبہ کرتے رہیں۔ لیکن خاص کر سحر گریہ و زاری کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِا الْاَ سْحَارْ ۔ترجمہ:اور پچھلے پہر معافی مانگنے والے۔ بعض مفسرین کرام نے فرمایا کہ اس آیت سے نماز تہجد پڑھنے والے مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو صبح اٹھ کر استغفار پڑھیں ۔ چونکہ اس وقت دنیوی شور کم ہوتاہے ، دل کو سکون ہوتاہے، رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس وقت توبہ و استغفار ،دعا وغیرہ بہترہے۔سحر کے وقت توبہ و استغفار کرنا اللہ کے برگزیدہ بندوں کی عادت کریمہ رہی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا:اس مہینہ میں چار باتوں کی کثرت کرو۔ دو باتیں وہ ہیں جن سے تمہارا رب راضی ہو ۔ وہ کلمۂ شہادت اور استغفار ہیں۔ اور وہ دو جن کی تمہیں ضرورت ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور دوزخ سے اس کی پناہ چاہو۔ (فتاویٰ افریقہ، صفحہ 37، جامع الاحادیث جلد 2، حدیث نمبر1388)۔روزانہ کی مصروفیتوں کی وجہ سے ہمیں سحر کے وقت اٹھنے کاموقع نہیں ملتاکہ ہم اس وقت بارگاہِ رب کریم میں استغفار کریں۔ لیکن ماہ رمضان المبارک میں روزانہ سحری کے لئے ہم جاگتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ کم از کم دو رکعات نفل نماز ادا کرکے بارگاہِ مولائے رحیم و کریم میں سر بسجود ہو جائیں اور استغفار کرکے مغفرت مانگنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
رمضان المبارک میں دعا کا اہتمام
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاِذَاسَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبْ۔ترجمہ: اے محبوب(ﷺ) !جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں،دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں(البقرہ184)روایتوں میں آیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین دو مہینے پہلے رجب کا چاند دیکھتے تو دعا فرماتے: اَلّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبِ وَ شَعْبَانِ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانْ۔ یعنی اے اللہ رجب اور شعبان دونوں مہینوں کی برکات ہم کو نصیب فرما۔ اور ہمیں رمضان تک پہنچا دینا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے پرور دگار سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں رمضان آنے تک جسمانی اور دینی طور پر صحیح رکھے۔ اور یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ اپنی اطاعت و فرما برداری کے کاموں میں اس کی مدد فرمائے اور اس کے عمل کو قبول فرمائے۔(دعا کی اہمیت اور مسائل جاننے کے لئے حضرت مولانا احمد رضا خان کے والد گرامی حضرت مولانا نقی علیہ الرحمتہ کی کتاب لا حسن الویا فی آداب الدعا کا مطالعہ بہت فائدہ مند ہوگا)
اس عظیم ماہ مبارک میں ہر چیز نعمت الٰہی ہے۔(1) رمضان(2)قرآن(3)جمعہ(4) لیلۃ القدر(5) جہنم کے دروازوں کابند ہونا(6) جنت کے دروازوں کا کھلنا وغیرہ وغیرہ۔ فرمان الٰہی ہے: کہہ دیجئے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہونا چاہئے ۔ وہ اس سے بدر جہا بہتر ہے جس کووہ جمع کر رہے ہیں۔(القرآن ، سورہ یونس ،آیت 57)ہم کو ان نعمتوں پر خوب خوشیاں منانا چاہئے اور اس مبارک مہینہ کی قدر کریں اور خوب خوب عبادت کریں ۔ اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کریں۔ آمین !آمین!!
فرشتوں کی پکار
قدسیوں میں ہے مسرت کی لہر دوڑی ہوئی
شور ہے اوجِ فلک پر آمدِ رمضان کا
قید ہوتے ہیں شیاطین اس مبارک ماہ میں
گیت گاتے ہیں فرشتے عظمتِ سبحان کی

تبصرے بند ہیں۔