اتحاد امت عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت

ظفر دارک قاسمی
اسلام امت کو متحد متفق ہونے کا درس دیتا ہے قرآن و حدیث میں بیشتر مقامات پر امت کی رہنمائی کی گئی ہے کہ وہ اپنی مرکزیت جامعیت کو کمزور نہ ہونے دیں خود نبی اکرمؐ کا اسوہ بھی اس بات پر مکمل شاہد عدل ہے اور اسلامی تعلیمات کی اصل روح بھی یہی ہے۔ مگر اس کے باوجود امت کا شیرازہ منتشر ہے۔ارباب حل و عقد امت کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہیں مگر آج تک اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اتحاد امت کا قیام مذاکرات بین المسالک کی ذریعہ وجود میں آسکتا ہے ؟ بنا بریں مسالک و مذاہب کے تمام نمائندے سر جورڑ کر بیٹھیں اور اتحاد و امت کے پیغام کو عام کریں یہ ہماری سماجی ،ملی، قومی ،دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے چنانچہ زیر نظر مقالہ بین المذاہب مسالک مذاکرات کے حوالے سے مرکزے توجہ بنایا ہے۔ قبل اس کے کہ بین المسالک مذاکرت پر گفتگو کی جائے مناسب سمجھتا ہوں امت میں افتراق و انتشار کے اسباب و علل کا مختصر تجزیہ پیش کردیا جائے۔
تاریخ کاوسعت قلبی اور عمق کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی اس لحاظ سے زمانہ جاہلیت ہے کہ اس میں انسانی معاشرہ بے پناہ خرابیوں ،ظلمتوں اور تاریکیوں میں ڈوباہوا تھا۔اس معاشرے میں مذہبی،لسانی،قومیتی،جغرافیائی اور طبقاتی عصبیتیں رچی بسی ہوئی تھیں۔ہر فرد ،ہر قبیلہ،ہر حاکم اور ہرپیروکارِ مذہب فقط اپنی مستی احوال میں مگن نظر آتاتھا۔ان کو اس امر سے کوئی سروکار نہ تھا کہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر کیاحق ہے؟غریب،مزدور،ضعیف،ماں ،بہن، بیٹی،بیوی اور اپنے بھائیوں تک سے بھی محبت و الفت کا رشتہ استوار نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنی ذاتی استراحت و عیاشی کے لیے دوسر ے انسانوں کے حقوق پر شب خون مارتاتھا۔ تمام مذاہب کے رہبر و راہنما انفرادی طور پر عبادتوں کا روایتی التزام تو ملحوظِ خاطر رکھے ہوئے تھے مگر اجتماعیت کے لحاظ سے وہ بھی ان تنگ نظریوں سے پاک نہ تھے۔عیسائیت اور یہودیت کے محافظوں میں خلاف فطرت گروہ بندیاں موجود تھیں۔ہندوؤں میں برہمن ، ویش ، کھشتری اورشودرکے نام پر معاشرہ بٹاہواتھا۔سلطنت روم و فارس داخلی عصبیتوں کی محافظ تھیں اور اس امر قبیح پر وہ اظہار تفاخر کرتے تھے۔ الغرض ہر فرد پرتعیش انفرادی زندگی گذارنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے میں تامل نہ کرتاتھامگر اجتماعیت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں افراد ،معاشرہ اور ریاست کے مابین تعلقات تھے بھی تو وہ بھی انکے ذاتی مفادات و مصالح پر مبنی ہوتے تھے یعنی کہ جب مفاد مکمل ہوجاتا تو تعلقات اس طور پر منقطع کردیے جاتے تھے کہ گویا ان کے مابین کبھی کوئی علاقہ تھاہی نہیں۔
بعثت نبویؐ سے قبل چہار اطراف ظلمتیں، تاریکیاں، عصبیتیں، قومی تفاخر، لسانی و مذہبی تقسیمات عام تھیں امت افراق کی شکارتھی باہمی روادای بھائی چارگی انسان دوستی عنقا تھی۔مزدور کے حق کو غصب کیا جارہاتھا،ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی کے حقوق کی حق تلفیاں کی جاتی تھیں،حصول جاہ و منزلت کے لیے اپنے والدین سمیت خونی رشتوں کا بھی قتل عام کیا جاتاتھا۔ایسے میں اللہ تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کی بیخ کنی شروع فرمائی، اس امر کا واضح یہ مطلب تھا کہ اللہ تعالی انسان کے ذاتی عابد و بزرگوار بننے سے بے پرواہے جب کہ اللہ کے ہاں اجتماعیت ،بہترین اخلاق ،انسان دوستی،صلح رحمی،رنگ و نسل کی تقسیمات سے دوری،مساوات اور عدل مطلوب و مقصود ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے نبی آخر کی بعثت فرماکر ان پر وحی کے ذریعے انسانی زندگی کے کامل ضابطے کے نازل فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔اسلام نے انسانیت کو مجموعی نظام زندگی سے متعلق مکمل راہنمائی بیان فرمادی ہے۔اسی پسِ منظر میں قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد مقامات پر اتحاد و اتفاق یا اجتماعیت کے احکامات بیان فرمائے۔قومیت وعصبیت سے متعلق اللہ نے فرمایاکہ ’’یاایہاالناس انا خلقنٰکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا،ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم،ان اللہ عیلم خبیر(سورہ حجرات آیت ۱۳)‘‘ترجمہ :’’اے لوگو!ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور اس لیے کنبے اور قبیلے بنادئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو،اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والاہے‘‘ ایک اور مقام پروحدت امت کی نشانی بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ’’ ان ھذہ امتکم ام واحد ترجمہ:’’یقیناًتمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرتے رہو‘‘۔
اسلام گروہ بندی سے منع کرتا ہے اس سلسلہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا گیاہے کہ ’’واعتصموا بحبل للہ جمیعاًوالاتفرقواواذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداً فاالف بین قلوبکم فااصبحتم بنعمتہ اخوانا،وکنتم علیٰ شفا حفرؓ من النار فانقذکم منھا،کذلک یبین اللہ لکم اٰیٰتہ لعلکم تھتدون(سورہ آل عمران آیت ۱۰۳)‘‘ترجمہ:’’اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ،تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے،اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا۔اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔عصر حاضر کے معروف اسلامی سکالرحضرت سید سلمان ندوی فرماتے ہیں کہ’’ (حبل اللہ ) سے مراد اللہ کا دین ، اللہ کی شریعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و اسوہ حسنہ ہے،اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر فرد انفرادی طور پر حبل اللہ کو تھام لے بلکہ اللہ تعالی کو مسلمانوں کی اجتماعیت و اتحاد مطلوب ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’یداللہ علی الجما ع ‘‘اللہ کاہاتھ جماعت(اجتماعیت) پر ہے(مستدرک الحاکم ج ۳سند صحیح)۔ اللہ نے اسی اجتماعیت کو ’’انما المؤمنون اخو‘‘(سورہ الحجرات آیت)بیشک مؤمن آپس میں بھائی ہیں سے تعبیر کیا ہے‘‘۔ملت اسلامیہ کے باہم اتحاد و اتفاق سے متعلق آپؐ نے بہت سے فرمان صادر فرمائے مثلاًہجرت کے بعدمؤاخات کی مضبوط بنیادوں پرمدینہ میں ریاست اسلامیہ قائم ہوئی تومسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لیے شاس بن قیس یہودی نے قبیلہ اوس و خزرج کے مابین ماسبق دشمنی کا حوالہ دیکر ان کے زخموں کو کریدنا چاہا ،آپؐ کو جب یہ معلوم ہوا توآپؐ نے ان کی شریعت اسلامیہ کے مطابق راہنمائی فرمائی۔اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر و انصار کے درمیان بھائی بندی فرمائی۔صحابہ کرامؓ کی اخوت و بھائی چارگی کی داستانیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔یعنی اسلام کی آمد کی برکت سے عرب قبائل جو چھوٹی باتوں پر سالہا سال جنگ کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے تفاخر جاہ و حشمت پر حرف نہ آنے دیتاتھا ، آپس میں ایک دوسرے کے حامی مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہوگئے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو صورتحال انسانیت کو درپیش تھی یقیناًاس کا سبب یہ بھی تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ۵۷۰ب م تک کوئی نبی و رسول اس قوم میں نہیں بھیجا گیااور نہ ہی ان کے پاس کوئی واضح پیغام بر مبنی راہنماکتاب موجود تھی م میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔لیکن بعثت نبویؐ کے ساتھ ہی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں آپ کے بعد کوئی پیغمبر و رسول تاقیامت مبعوث نہیں ہوگا بلکہ قیامت کی صبح تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم رہے گی اور قرآن و حدیث کی شکل میں ملت اسلامیہ کے پاس رہنما دستور موجود ہیں۔ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ معاشرے سے زمانہ جاہلیت کی تمام قباحتیں مٹانے آئے تھے آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ان تمام خرابیوں میں لت پت ہوچکے ہیں۔ گویا کہ زمانہ جاہلیت کی وہ سب کی سب خرابیاں آج امت میں موجود ہیں۔لوٹ مار ، حق تلفی،زنا،حرام خوری،شراب نوشی،مزدوروں پر جور و ستم کے پہاڑ توڑنا ،ذاتی و قومی بالادستیوں سمیت تمام امراض آج بھی من و عن موجود ہیں۔بلکہ امت چند ہاتھ آگے بھی نکل چکی ہے قومی،لسانی،سیاسی و مذہبی ،رنگ و نسل،علاقائیت سمیت بے پناہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ کہیں سلفیت، دیوبندیت،بریلویت سمیت متعدد چھوٹے بڑے گروپوں میں مذہبی وحدت کا شیرازہ بکھر چکاہے۔عدم برداشت و رواداری کی فضا اس حد تک ناپید ہوچکی ہے کہ فروعی اختلاف کی بنیاد پر ناصرف دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے جاری کردیے جاتے ہیں بلکہ اپنے مخالف فریق کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے ان پر عرصِ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ہرگروہ اپنے آپ کو جنتی و کامیاب تصور کرتا ہے اور اپنے مخالف کو دوزخی اور ناکام و نامراد ٹھہراتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک وملت کا شیرازہ منتشر ہونے سے نہیں تھما۔
مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبے کو فروغ دینے کے سلسلے میں نماز باجماعت کی مصلحتوں پر برصغیر کے عظیم سیر ت نگار سید سلیمان ندوی رحم اللہ علیہ یوں رقم طراز ہیں کہ ’’جماعت کی نمازمسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے ،یہاں امیر وغریب ،کالے گورے،رومی و حبشی،عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔سب ایک ساتھ ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔یہاں شاہ وگدا اور شریف وذلیل کی تفریق نہیں ،سب ایک زمین پر ایک امام کے پیچھے ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا‘‘(سیرالنبی ،جلد ۵ہ ۵۷۲)اسی حقیقت کو علامہ اقبال ؔ نے یوں آشکارا کیا ہے کہ:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی   بندہ   رہا نہ    کوئی     بندہ      نواز
برصغیر کے عظیم خطیب و ادیب حضرت مولنا ابو الکلام آزاد رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’دنیا کے تمام رشتے ،عہد ،مودت، خون و نسل کے بندھے ہوئے پیمان وفاومحبت ٹوٹ سکتے ہیں مگرچین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانوں سے،ایک عرب کے بدو کو تاتار کر کے چرواہے سے اور ہندوستان کے ایک نومسلم کو مکہ مکرمہ کے صحیح النسب قریشی سے جو رشتہ پیوست و یک جان کرتاہے۔دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے اور اس زنجیر کو کاٹ سکے جس میں خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے جکڑ دیاہے‘‘(خطبات آزادصفحہ 81)
شاعر مشرق علامہ اقبال رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’جوکچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کاداعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتاہے جو اس کی قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے‘‘(حرف اقبال صفحہ نمبر ۲۲۲)علامہ کے نزدیک مقصد تخلیق انسان ،نظام اجتماعیت کے قیام اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتاہے۔خطبہ الٰہ آباد کے موقع پر علامہ ہندوستان میں مسلم قومیت کے بقاء کے لیے فرماتے ہیں’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتاہے اور وطن پرستی ،بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ہر چند کہ حب الوطن کو مذموم متصور نہیں کیا گیاکیوں کہ انسان کی تخلیق اسی مٹی سے کی گئی ہے جس سے پیار ایک فطری امر ہے لیکن جب یہ امر وحدت ملت کی راہ میں سدراہ ہوتو قطعاًقابل تسلیم نہیں ہے۔محمد رفیق افضل گفتار اقبال کے صفحہ ۱۷۸پرقول اقبال لکھتے ہیں ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقیناًمنتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی ،جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اورسرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کردے گا۔غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے‘‘.

تبصرے بند ہیں۔