اتحاد بین المذاہب سے پہلے، اتحاد بین المسالک کی ضرورت

جاوید اختر بھارتی

(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

 یوں تو ہر شخص کی بالخصوص ہر مسلمان کی زبان پر ہے کہ اتحاد ہونا چاہیے یعنی کسی نہ کسی سطح پر مسلمانوں کا ایک پلیٹ فارم ایسا ہو جہاں یہ سر جوڑ کر بیٹھیں لیکن کون آواز اٹھائے کس بنیاد پر آواز اٹھائے کیسا لائحۂ عمل مرتب کرے اور اپنے ساتھ کس کس کو معاون بنائے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اس لیے کہ عوام کی طرف سے بہت جلد الزامات بھی عائد کردیئے جاتے ہیں جس سے گہری ٹھیس پہنچتی ہے۔

آج چاہے بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے یا قومی سطح پر مسلمان منتشر ہی نظر آتا ہے اور اس کی پہچان دینی، مسلکی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے مٹتی جارہی ہے اور یہ صد فیصد حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے اسلاف کو بھلا دے، اپنی تاریخ کو بھلا دے تو وہ قوم حاشیے پر پہنچ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کا نام و نشان گم ہو جاتا ہے وہ قوم احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر معجزات کا انتظار کرتی ہے آج مسلمانوں کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے یہ دین سے دور ہوگئے احکام خداوندی اور فرمان نبی سے دور ہو گئے مسلمان جب تک احکام خداوندی اور فرمان رسول پر عمل پیرا تھے تو کامیابیاں بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کیا کرتی تھیں سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو آدھی دنیا پر عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت تھی اور یہودیوں کو یہاں تک تشویش ہونے لگی تھی کہ لگتا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا تو یہودیوں نے کہہ دیا کہ عمر دس سال اور زندہ رہ گئے ہوتے تو یقیناً پوری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت ہوجاتی وہ لوگ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر سیاست اور حکومت کرتے تھے آج وہی قوم دین سے دور ہوگئی سیاست سے بھی دور ہو گئی یعنی حکمراں قوم آج سیاسی اور سماجی میدان میں اپنی پہچان کھو بیٹھی احتجاج کی صلاحیت و طاقت بھی کھو بیٹھی اپنے اسلاف کی تاریخ کو بھی بھلا بیٹھی قرآن نے کہا کہ وعتصمو بحبل اللہ جمیعا الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو ولا تفرقو اور فرقوں میں نہ بنٹو لیکن آج امت مسلمہ مکتب فکر کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا خانوں اور فرقوں میں تقسیم ہو گئی۔

کل تک یہ قوم کلمہ حق کی بنیاد پر متحد تھی آج مسلک کی بنیاد پر منتشر ہوگئ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی پہچان بنانا بہت آسان ہے، تقریر و تحریر، دعوت و تبلیغ، مدارس و مساجد کی تعمیر سب کچھ کی اجازت ہے ایسے ملک میں بھی یہ قوم آج ہر سہولیات سے محروم ہونے لگی خود کامیابی حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کو ہرانے جتانے میں لگ گئی ڈر اور دہشت کا شکار ہو گئی چاپلوسی اور چمچہ گیری کا راستہ اختیار کرلیا مسلکی شدت کو فروغ دیا خاندانوں اور رشتہ داریوں میں دراڑیں پڑ گئیں اس کا فائدہ دوسری قوموں نے اٹھانا شروع کر دیا پھر بھی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے باہر کرنے سے باز نہیں آیا مذہبی اختلافات کو منظر عام پر لانے سے باز نہیں آیا مدارس تو قائم کیا لیکن دین کو فروغ دینے کے بجائے مسلک اور فرقوں کو فروغ دیا ہر طرح سے اپنے آپ کو کمزور کیا کچھ لوگوں نے رات میں نذرانے والا اور دن میں ٹھگنے والا کام کیا ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک جب جب بھی اپنی شناخت قائم کرنے کا موقع آیا تو کچھ نام نہاد قسم کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے کبھی آر ایس ایس سے ڈرایا کبھی ہندو مہا سبھا سے ڈرایا اور خودخفیہ طریقے سے کبھی کانگریس کا دامن تھامے رہے تو کبھی کسی اور کا دامن تھامے رہے لیکن قوم کے روشن مستقبل کے لئے نیک نیتی کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد قائم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا مسلمانوں کے تئیں اختلاف شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا مسجد کے نام پر جھگڑا، مدرسے کے نام پر جھگڑا، خانقاہ کے نام پر جھگڑا، جلسہ و جلوس کے نام پر جھگڑا، دیوبندیت اور بریلیت کے نام پر جھگڑا، تقلید و غیر تقلید کے نام پر جھگڑا، عبادت کے طور طریقے کے نام پر جھگڑا۔

یعنی وہ قوم جو شیشہ پلائی دیوار کی طرح تھی وہ مٹی کے ڈھیلے کی طرح پھوٹ گئی وہ قوم جو موتی کے دانوں کی طرح پروئی ہوئی تھی وہ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کی طرح بکھر گئی ذات برادری کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر، اونچ نیچ، بھید بھاؤ کا جھگڑا مسلمانوں کے اندر جبکہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ان سب چیزوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ مذہب اسلام کے اندر کسی کو فوقیت و برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر لیکن افسوس کہ آج بھی بہت سے لوگ اونچ نیچ کو اپنے سرکا تاج سمجھتے ہیں اور مسلمانوں میں کثیر تعداد ہے مومن انصار برادری کی اور یہ برادری پوری طرح سیاسی شعور سے محروم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی برادری کے اندر سب سے زیادہ مسلکی شدت پسندی ہے حالانکہ یہ برادری مسلکی قیادت سے بھی محروم ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ قوم مسلم سیکڑوں سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی قیادت سے محروم ہوگئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی بی ایس پی نے مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈراکر ووٹ لیا تو کبھی ایس پی نے مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈراکر ووٹ لیا۔

ایک پارٹی کامیابی کے بعد اکثر بی جے پی کے قریب ہوتی رہی اور دوسری پارٹی کامیابی کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں میں جھنجھنا تھماتی رہی طلاق ثلاثہ بل کا معاملہ آیا تو نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں نے واک آؤٹ کرکے منافقانہ کردار ادا کیا اور ہمارے کچھ مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی بی جے پی سے مسلمانوں کو خوب ڈرایا اور ذاتی مفاد میں قوم کو سکوں کے طور پر خوب بھنایا اور حال ہی میں تو چاپلوسی کی ساری حدیں پار کر گئے کبھی بیان دینے لگے کہ مسلمانوں کو مندروں میں جاکر سناتن دھرم سیکھنا چاہیے تو کبھی کہنے لگے کہ بادشاہ اورنگ زیب سے بہتر تو چھتر پتی شیواجی حکمراں تھے جبکہ اس طرح کی بات بی جے پی میں رہتے ہوئے آج تک شہنواز حسین اور مختار عباس نقوی نے بھی نہیں کہی ہے حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ پارلیمنٹ میں رہنے کے بعد اب باہر رہکر کرسی کے لیے بیتاب ہیں اور سیاسی بیمار ہو گئے ہیں تو دوسری جانب ایک بڑی ہی قدآور شخصیت آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے چلی گئی اب کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ اس ملاقات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے آخر ملاقات ہی تو کی ہے تو اس ملاقات کو منظر عام پر کیوں لایا گیا اور اب لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ملاقات میں کیا ہوا دین کی دعوت دی گئی یا کوئی سیاسی معاہدہ کیا گیا اگر سیاسی گفتگو کرنی تھی تو طلاق ثلاثہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے ہی ملاقات کیوں نہیں کیگئی تو جواب کچھ نہیں دیا جارہا ہے اور نہیں تو بچاؤ میں کہا جارہا ہے کہ بین المذاہب اتحاد کی ضرورت ہے۔

ارے پہلے بین المسالک اتحاد تو قائم کرو اس کے بعد بین المذاہب اتحاد کی بات کرنا یہاں تو خود ہی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنی ہوئی اور احناف، اہلحدیث، اہلسنت جیسی عبارتوں سے سجائی گئ ہے اپنا سارا اختلاف برقرار رکھتے ہوئے بین المذاہب اتحاد کا خواب مضحکہ خیز ہے اور اس اقدام سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک جس طرح اندھیروں میں سیاسی پارٹیوں کی حمایت ہوتی رہی اسی کو تقویت پہچانے کیلئے موہن بھاگوت سے ملاقات کی گئی نہیں تو پھر ضرورت تو اس بات کی تھی کہ بلا تفریق مکتب فکر کی بنیاد پر اتحاد قائم کیا جاتا جب سارے لوگ متفق و متحد ہو کر ایک اسٹج پر آتے تو اس کے بعد آر ایس ایس سربراہ کو بلاتے ان کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے تو آج یہ رسوائی نہیں ہوتی الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا سوشل میڈیا پر اتنی کھینچائی نہیں ہوتی –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔