میری آخری محبت

عزیز اعظمی اصلاحی

یونیورسٹی کے گیٹ پرجیسے ہی پہلا قدم رکھا تو ہاتھ میں کتاب اٹھائے سامنے کھڑے مرزا غالب کے مجسمے سے ملاقات ہوگئی اندر گیا تو دیکھا گلستان غالب میں دورجدید کی ساری تہذیبوں کےرنگ و پھول توتھے لیکن انکے مجسمے سے چھو کر گزرنے والی ہواوں میں خوشبو اردو کی تھی انکے قدموں کے نیچے بیٹھ کر داخلہ فارم بھرتے ہوئے تعلیمی سال کا آغاز کیا اوردوسرے ہی  قدم پر عنیزہ  سے ملاقات ہوگئی، یونیورسٹی کی کھلی اور آزاد فضاؤں میں وہ دوسری لڑکیوں کی طرح بے پردہ مغربی لباس میں نیم عریا اورچست لباس تونہیں تھی بلکہ پردے کے طور پر ایک لمبی سی عنابی رنگ  کی ریشمی چادر تھی جسکو بڑے سلیقے سے اوڑھ  رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ دوسری  لڑکیوں کی بنسبت قدرمہذب اور شائسہ لگ رہی تھی، اس کی سادگی  و پردگی نے مجھے اس بات کی اجازت تو نہیں دی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکوں، لیکن بے خیالی میں اس کے ہاتھ سے گرتے ہوئے فارم کے لئے جب اسکو متوجہ کیا تواچانک میری نگاہ اس پر اٹھ گئی، ریشمی چادرمیں لپٹے ہوئے اس کے وجود سے اس کی سرمئی آنکھیں اور روشن چہرا ایسے جھلک رہا تھا جیسے کسی گھنے بادل کے پیچھے چھپا ہوا چودہویں کا چاند ہو، میرے ہاتھ سے فارم لیتے ہوئے اس نے اپنی زبان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن آنکھوں سے بہت کچھ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی اورجوکہنا باقی رہ گیا تھا وہ کچھ دور چل کر پھر مڑ کر دیکھتے ہوئے پوری کر گئی، پل بھر میں میری طرف آٹھتی اور جھکتی ہوئی ان ریشمی پلکوں نے اپنی جھیل سی آنکھوں میں مجھے اس طرح زیر آب کیا کہ اسکی محبت آنکھوں سے ہوتی ہوئی میرے دل میں اتر گئیں۔

اس وقت محبت آج کی طرح اتنی بے باک نہیں تھی کہ ملاقات ہوتے ہی واٹس اب پر پہنچے اور فیس بک ہوتے ہوئے نکل جائے، بلکہ اس وقت آنکھوں میں حیاء اور زبان پر لحاظ تھا، عنیزہ سے ملاقات تو ہر روز یونیورسٹی میں ہوتی لیکن  بات اتنی ہی ہوتی جتنی ہم آنکھوں سے کر پاتے زبان سے کچھ کہنے کی ہمت نہ تو مجھ میں تھی اور نہ ہی عنیزہ میں، اظہار کی ہمت اس وقت ہوئی جب عید کی چھٹیوں میں مَیں نے مبارکباد کا میسیج دیا اور دوسرے ہی دن وہ شیر خورمہ لیکر ملنے آئی ذائقے میں دہلی کے شیر خورمے کا تو کوئی جواب نہیں لیکن محبت کی آمیزش سے بنے اس شیر خورمے میں ایسی مٹھاس تھی جس کا ذائقہ میری زبان آج تک نہ بھول سکی، وقت گزرتا گیا محبت پروان چڑھتی گئی، ماں باپ کی نصیحت کو عبور کرتے ہوئے محبت کب اس نہج تک پہنچ گئی کہ رشتے کی  بات ہو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا۔

یونیورسٹی کے لئے جب گھر سے نکلا تو چوکھٹ پرتوشہ سفر دیتے ہوئے اماں نے یہ نصیحت کی تھی کہ ہماری تربیت کے آئینے میں ہماری نظروں سے دور آج سے تم اپنی  تمام تعلیمی سرگرمیوں اور یونیورسٹی کے سارے فیصلوں کے لئے آزاد ہو سوائے اس محبت کے جو تمہارے لئے شجر ممنوعہ ہے اس کے پاس سے بھی نہ پھٹکنا لیکن انسانی فطرت کہ اسے جس چیز سے روکا جاتا ہے وہ وہی کرتا ہے میں یونیورسٹی کے گیٹ پر ایک قدم بھی نہ چل سکا اور پہلی ہی نظر میں وہ پھل کھا بیٹھا جس سے روکا گیا تھا ماں کی نظریں اگر یونیورسٹی کے حدود تک مجھے دیکھ سکتیں تو میں بھی اسی وقت نظریں جھکائے اس جنت سے نکال دیا جاتا لیکن اللہ نے انسان کی بصارت کو وہ بینائی عطاء نہیں کی کہ وہ  پردے کی پیچھے بھی دیکھ سکے، اور میں اس غلطی اور اماں کی نصیحت کے باوجود یونیورسٹی کی کھلی ہواؤں، آزاد فضاؤں میں قدم پر قدم بڑھاتا  گیا۔

میں کبھی محبت  سے ملا تو نہیں لیکن دیکھا تھا، محبت کو آزمایا تو نہیں لیکن پڑھا تھا، محبت کے سب کے اپنے فلسفے اور اپنی دلیلیں ہیں بے شمار شاعروں، ادیبوں، ناول نگاروں اور فلاسفروں نے محبت کی تعریف موقع و محل کے اعتبار سے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کی ہے کہ محبت عبادت ہے، محبت جذبہ، محبت جنون ہے، محبت اندھی ہے لیکن محبت میری نظر میں ہَوس کے سوا کچھ  نہیں، نفس کی تسکین، خواہشات کی تکمیل اور نسوانیت سے لطف اندوز ہونا ہی محبت  ہے اب اسکے حصول کی خاطر وہ جو بھی فلسفہ اپنائے، چاہے وہ محبوب کے لئے آسمان سے تارے توڑ لائے، اسکے دامن کو چاند اور ستاروں سے بھر دے، پہاڑوں کا دامن چاک کرکے دودھ کی نہریں نکال دے، اس کو قائل کرنے، اس کا اعتماد جیتنے کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوجائے، دھوپ اور چھاؤں کی پرواہ کئے بغیر سڑک سے کیمپس تک اس کا انتظار کرے، اس کے لئے جینے اور مرنے کی قسمیں کھائے اور یہ ساری قربانیاں، وفاداریاں صرف اور صرف اسی نفس کی تسکین کی خاطر ہے جسے ہم محبت کہتے ہیں اورمیری محبت بھی مرد و زن کے اس جذبات سے الگ نہیں بلکہ انسانی فطرت کے مطابق اسی جذبات  و خواہشات کا حصہ تھی۔

محبت نہ تو پاک ہوتی ہے اور نہ ہی سچی ہاں اس کی پاکی اور سچائی کے بیچ ایک پردہ ضرورحائل ہوتا ہے جسے تربیت کہتے ہیں جو ہمیں ہر اس راستے اور طریقے پر لے جانے سے روکتی ہے جس سے ہماری اور ہمارے والدین کی عزت و آبرو پر آنچ آئے اور یہی وہ تربیت تھی جو ہماری محبت کو حدود سے نکل جانے سے روکتی تھی اور یہی وہ اخلاقی پردہ تھا جو ہمیں اپنے حدود میں رہنے کی تلقین کرتا، ہر بہکتے قدم کو یہ کہہ کر روک دیتا کہ تم جس خاندان سے تعلق رکھتے ہو، جس والدین اور مدرسے کی تربیت یافتہ ہو وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ محبت کے نام پر اپنے حدود سے نکل جاؤ، اور اگر یہ تعلیم و تربیت نہ ہوتی تو ہماری محبت بھی انھیں کی طرح ہوتی جو کیمپس سے شروع ہوکر بےحیاء پارک میں ماں باپ کی عزت و اعتماد کا خون کرتے ہوئے اپنی حدیں پار کر جاتی ہے، میں  اس قول پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہوں کہ پاک محبت پہلے نکاح کرتی ہے پھر محبت اور اس بات میں سچائی بھی ہے اور پاکیزگی بھی عنیزہ اپنی ہر ملاقات میں یہ کہتی کہ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اپنے والدین سے ہمارے رشتے کی بات کرنی ہوگی ورنہ اس محبت کی کوئی حیثیت نہیں، میں تم سے محبت کرتی ہوں  بے پناہ محبت کرتی ہوں، تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں، تمہاری مضبوط باہوں کی پناہ میں سکون اورسرور حاصل کرنا چاہتی ہوں، اپنی زندگی کی ہر سانس تمہارے قدموں پر رکھ دینا چاہتی ہوں، اپنے جذبات کی تکمیل اور اپنے خوابوں کی سچی تعبیرچاہتی ہوں لیکن یہ اسی وقت ممکن  ہے جب تم مجھ سے نکاح کروگے اس سے پہلے نہیں۔

عنیزہ مجھ سے محبت کرتی تھی لیکن اس کی محبت  اتنی سنجیدہ ہوگی کہ  فزکس و کیمسٹری کی ان کی چند ماہ کی کلاسوں اور ملاقاتوں میں پوری زندگی کا فیصلہ کر لے گی مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا میں تو یونیورسٹی میں رائج اس محبت کو  وقتی محبت سمجھتا تھا، اس کے ساتھ رہکر دوستوں میں یہ تاثر قائم کرنا جاہتا تھا کہ میرے پاس بھی گرل فرینڈ ہے میں گاؤں کا سیدھا سادہ، بھولا بھالا کسی میڈل اسکول کا طالب علم نہیں بلکہ دور حاضر میں دلی جیسے بڑے شہر کی ایک سینٹرل یونیورسٹی کا روشن خیال اسٹوڈینٹ ہوں جس کی روشن خیالی اور جدت گرل فرینڈ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔  میں اپنی محبت پر ایک مقصد کی حد تک سنجیدہ تھا اس قدر نہیں کہ شادی کا فیصلہ کر لوں میں محبت میں شادی کا قائل نہیں تھا میں جانتا تھا کہ  آج جس طرح میں عنیزہ کی ہر بات پر لبیک کہتا ہوں کل نہیں کہہ پاونگا، آج جس طرح اس کو وقت دیتا ہوں کل نہیں دے پاونگا، آج جس طرح اس کے ساتھ گھومتا ہوں کل نہیں گھوم پاونگا، آج جس طرح اس کے لئے آسمان سے تارے توڑ کر لاتا ہوں کل نہیں لا پاونگا کیونکہ تب میرا خیال اور رویہ اسکے بارے میں محبوب سے بدل کر بیوی کا ہوگا  پھر جب وہ کل کو آج سے موازنہ کرے گی تومیری محبت پر سوال کھڑا کرے گی اور اس کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ محبوبہ اور بیوی میں فرق ہوتا ہے، اس فرق کو مردانہ فطرت ایک وقت کے بعد سمجھتی ہے لیکن نسوانی ذہنیت اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

بیوی اور محبوبہ کے اس فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے عنیزہ سے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ شادی کا فیصلہ مَیں نہیں کر سکتا یہ بزرگوں کے فیصلے پر منحصر ہے کیونکہ شادی صرف ہم دونوں کی پسند کا نام نہیں بلکہ شادی دو خاندانوں کے ملاپ، ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت، تہذیب و تمدن، رسم و رواج، بود و باس کے امتزاج کا نام ہے، تم شہر کی رہنے والی اور میں جٹ دیہاتی میرے اور تمہارے کلچر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا مغرب و مشرق میں، میرے والدین میری اس پسند کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، عنیزہ میں انھیں دکھی نہیں کرنا چاہتا  جنھوں نے مجھے چلنا سکھایا، مجھ میں شعور پیدا کیا، مجھ میں اپنی امیدیں اور اپنا اعتماد بھر کر یہاں تک بھیجا یہ میری غلطی اور نافرمانی ہے کہ گھر سے نکلتے وقت ماں کی آخری نصیحت کہ محبت تمہارے لئے شجر ممنوعہ ہے اسکو بھی بھول بیٹھا میں انکے اعتماد کو ٹھیس  نہیں پہونچا سکتا مجھے معاف کردو اور میری محبت کو اپنے دل سےنکال دو۔

اتنا کہنا تھا کہ گلاب کی طرح کھلتا ہوا اس کا چہرہ مرجھا گیا ، میرے اس انکار نے اس کی خوشیوں کا خون کر دیا، اس کی سرمئی آنکھوں کو آنسووں سے بھردیا، برسات میں کچے مکان کی چھت کی طرح  اسکی آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسووں نے میرے دل میں اس طرح سوراخ کیا جیسے چھت سے ٹپکنے والا پانی کچی زمین میں کر جاتا ہے،  شکتہ دل، برستی آنکھیں، ٹوٹتے ہوئے لہجے میں اس نے کہا عزیز مجھے اپنی محبت سے یوں بے دخل مت کرو، میں تمہارے بغیر اب نہیں رہ سکتی، تمہاری محبت میرے رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے اگر اس کو اپنے دل سے نکال دوں تو یہ جسم بے جان ہو جائے گا، عزیز میں تمہاری ہر بات سمجھتی ہوں اسی سماج میں رہتی ہوں گھر میں ماں باپ، بھائی بہن اور بھابھیوں  کے بیچ  رہتی ہوں رشتے کی نزاکت، اپنی ذمہ داری سمجھتی ہوں میں گاؤں میں رہ لونگی، اپنے آپ کو بدل لونگی، تمہاری محبت کے سہارے ہر دکھ ہنس کے سہہ لونگی لیکن کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دونگی آخر تمہارے والدین بھی تو میرے والدین ہیں، تمہارے بھائی و بہن بھی میرے اپنے ہیں مجھے صرف ایک موقع دو میں اپنے حسن و سلوک سے ان کا دل جیت لونگی میں اسی طرح رہونگی جس طرح آپکا گھر، آپکا خاندان، آپکا کلچر مجھے اجازت دے گا – میں اس تہذیب اس تمدن  اس گھر کے اصول و ضوابط سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھونگی جس سے آپ کی آنا اور عزت پر حرف آئے۔

عنیزہ نے ایک بار پھر میری سوچ کو اپنے مرمری لہجے اور جذباتی باتوں میں اتار لیا اور اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ دوسری لڑکیوں سے مختلف ہے شہر میں رہنے کے باوجود اس میں شہریت نہیں شرافت ہے، سمجھ ہے، شعور ہے، ظاہرا ایک فرمانبردار بیوی کی ہر وہ خوبی اس میں موجود ہے کہ اسکی باتوں پر غور کیا جائے، والدین سے اس کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار بات کی جائے-

بالآخر گرمی کی چھٹیوں میں گھر گیا ایک دن ہمت کرکےموقع  دیکھ کر ابا سے بات کی، باپ عموما ایسے حساس معاملے میں بیٹے کی خوشی میں ہی اپنی خوشی سمجھ لیتا ہے لیکن ماں کو منانا اتنا آسان نہیں  وہ بہو اپنی من پسند کی چاہتی ہے اسکی یہ خواہش اور آرزو ہوتی ہےکہ وہ بہو اپنے من مطابق لے آئے کیونکہ ہندوستانی تہذیب میں اکثر پایا گیا کہ عورت بیوی کم بہو زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ انکا زیادہ وقت شوہر کے بحائے گھر میں ساس کے ساتھ ہی گزرتا ہے اس لئے ماں ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ بہو خوبصورت ہو نے کے ساتھ ایسی نیک سیرت ہو جو خاموشی  سے گھر کے سارے کام کے ساتھ کم تیل میں بہتریں کھانا بنانے کا ہنر بھی جانتی ہو اور میری اماں بھی معاشرے  کے اس خواب و خیال سے الگ نہیں تھیں، اور شہر کی بیوی دیہاتی ماں کی  پسند پر کھری اتر جائے گاؤں میں اس کا تصور نہیں جب میں نے اماں سے عنیزہ کے بارے میں بتایا اور شادی کی خواہش ظاہر کی تو انکے چہرے کا رنگ اورباتوں کا لہجہ بدل گیا، منھ سے ایک ایسی درد ناک آواز نکلی جیسے کسی نے یکایک خنجر نکالا ہو اور اماں کے سینے میں پیوست کر دیا ہو اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ایسے غضبناک اورخوفناک لہجے میں مخاطب ہوئیں کہ اس وقت مجھ  میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور خاموشی سے باہر نکل گیا، ایک ہفتے بعد میں دلی واپس چلا گیا اس بار گھر سے نکلتے وقت سوائے سر پر ہاتھ رکھنےاماں نے کوئی نصیحت نہیں کی مجھے احساس ہوا کہ اماں ناراض ہیں اور اماں کو احساس ہوا کہ میں ناراض ہوں اولاد کی خاطر ماں کا دل بہت نرم ہوتا وہ اس کی خوشی کی خاطرہردکھ سہہ لیتی ہے پر اولاد کو مایوس نہیں دیکھ سکتی میری خوشی کی خاطر ابا کی طرح اماں نے بھی اپنی خواہشات و جذبات سے سمجھوتا کر لیا۔

آج  صبح ذہن میں اماں کی غضبناک آنکھوں کی تصویرلئے کالج کی طرف جا ہی رہا تھا کہ خلاف توقع انکا فون آگیا  میری خیریت پوچھنے سے پہلے اماں نے عنیزہ کے بارے میں پو چھا کہ بیٹا عنیزہ کیسے ہے کہاں ہے مجھے سے بات کرانا اماں کا پیار بھرا بدلا ہوا خوش مزاج  لہجہ میرے اندر خوشی کے آنسو بھر گیا، میں نے اماں سے کہا کہ کالج جا ہی رہا ہوں اگرعنیزہ  کلاس میں ملی تو  بات کراونگا۔ ۔۔ ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا، اللہ حافظ۔ ۔

آج اماں کی مختصر گفتگو سے ایسا لگا جیسے کسی جج نے کسی التوا کیس کی اچانک سماعت کی ہو اور مختصر بحث کے بعد اپنا فیصلہ سنا دیا ہو، حق میں ہوئے فیصلے کی بات کہاں ہضم ہوتی جھٹ عنیزہ کو فون کیا کہ اماں کا فون آیا تھا تمہیں پوچھ رہی تھی۔ ۔ کیا اماں مجھے پوچھ رہی تھیں ؟ کیا کہا انھوں نے ؟ میری شکایت کر رہی تھیں مجھ  سے ناراض ہیں۔ ۔۔۔ ارے نہیں بابا سنو تو وہ آج بہت خوش تھیں تم سے بات کرنا  چاہ رہی تھیں شاید کہ انکا دل بھی ابا کی طرح بیٹے کی خوشی کے لئے پگھل گیا اورہمارے حق میں فیصلہ کردیا، تم آو تو سہی آج اماں سے تمہاری بات کراتا ہوں اور ہاں سنو آج  بہو بن کر آنا اسٹوڈنٹ بن کر نہیں۔ ۔ بکواس بند کرو ابھی پہونچتی ہوں۔

تھوڑی دیر بعد عنیزہ کالج آئی تو آج اسکے سر پر چادر نہیں حجاب تھا واقعی وہ آج  مجھ سے نہیں اپنی ہونے والی ساس سے ملنے آئی تھی، اماں کو فون لگایا بڑے خلوص و محبت سے اماں نے بات کیا ڈھیر ساری دعائیں دیں اور بہت جلد آکر عنیزہ کے والدین سے ملنے کی بات کرتے ہوئے آخیر میں اس بات کا اظہار کر ہی دیا کہ عنیزہ بیٹی میں بیٹے کی شادی کسی بڑے شہر میں کرنے کے حق میں نہیں تھی لیکن کیا کروں ماں ہوں میری خواہش  بیٹے کی خوشی سے بڑھ کر نہیں ہے۔

گریجویشن کے بعد گھر گیا تودیکھا اماں نے شادی کی پوری تیاری کر رکھا تھا ایک دن عنیزہ کے والدین سے فون پر بات کی ملاقات کا وقت مقرر کیا دودن بعد کییفیات ایکسپریس کا ٹکٹ بک کیا اور ابا کے ساتھ دلی آگئیں فوزیہ آپا کے گھر قیام کیا، فوزیہ آپا اماں کی بھتیجی ہیں کئی سالوں سے دہلی جامعہ نگر میں رہتی ہیں میں اکثر ان سے ملنے جایا کرتا تھا، وہ عنیزہ کو بھی اچھی طرح جانتی تھیں اور دہلی کے رسمی ماحول کو بھی  اس لئے اماں نے فوزیہ آپا سے مشورہ کیا  انکو ساتھ لیا اور دہلی کے رسم و رواج کے مطابق چاندنی چوک  اور لاجپت نگر سے عنیزہ کے لئے شاپنگ کیں اور طے شدہ وقت کے مطابق جامعہ مسجد علاقے میں واقع عنیزہ کے گھر پہونچ گئیں اور دو مہینے کے بعد شادی کی تاریخ طے کردی۔

شادی سے پہلے میں نے جامعہ نگر میں کرائے کا فلیٹ لیا اس میں بنیادی ضرورتوں کا انتظام کیا شادی سے دو دن پہلے گاؤں سے سب لوگ دہلی آئے اور حج ہاوس کے سامنے شادی ہال میں جامعہ کے دوست احباب اور رشتے داروں کی موجودگی میں نکاح ہو گیا، ایک ہفتے بعد اماں، ابا، بھائی، بہن دہلی کی شادی اور کچھ تاریخی جگہیں دیکھ کر گاؤں واپس چلے گئے انکی بے پناہ محبتوں اور قربانیوں کے صلہ میں میں انکو اتنا ہی دے سکا۔  پڑھائی مکمل ہوتے ہی میں نے ایک چھوٹی سی کمپنی میں میں نے نوکری کر لی اور عنیزہ اپنے آنے والے امتحان کی تیاری، وقت گزرتا گیا مشغولیت بڑھتی گئیں، ذمہ داریاں آتی گئیں  اماں کے بہت زیادہ اصرار پرمشغولیت سے بڑی مشکل سے وقت نکال کر ایک بار عنیزہ کو ایک ہفتے کے لئے گاؤں لے گیا پھر اسکے بعد سے آج تک نہ تو میں عنیزہ کو گاؤں لے جا سکا اور نہ اسکو کبھی موقع مل سکا۔

میں صبح آفس چلا جاتا اور وہ بچوں کو لیکراسکول آج ہماری شادی کی پانچوی سالگرہ تھی اور عنیزہ کی یوم پیدائش بھی جس کو کبھی ہم بڑے جوش سے منایا کرتے تھے لیکن آج آفس کے کام اور ذمہ داریوں میں ایسا الجھا کہ وہ بھی یاد نہیں رہا، شام کو گھر آیا تو عنیزہ ناراض بیٹھی تھی آتے ہی پوچھ  بیٹھی عزیز تمہیں کچھ یاد ہے کہ آج ہماری سالگرہ ہے صبح سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ ۔۔ اوہ عنیزہ معذرت چاہتا ہوں آج آفس کے کام میں ایسا الجھا کہ یاد ہی نہیں رہا ….  ہاں اب تمہیں کیا یاد رہے گا تم تو سب کچھ بھول گئے تمھیں تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ گھر پر ایک بیوی ہے اب آفس ہی تمہارے لئے سب کچھ ہے اورآفس اسٹاف  ہی تہاری زندگی …. کل تمہیں اپنی آفس میٹ کا برتھ ڈے یاد رہا لیکن میرا نہیں  …. عنیزہ کیا کہہ رہی ہو تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے تم مجھ پر شک کر رہی ہو …..   شک نہیں کر رہی ہوں عزیز تمہیں یاد دلا رہی ہوں حقیقت یہ ہے کہ اب تم بدل گئے ہو، اب ہمارے درمیان  پہلے سی محبت نہیں رہی، اب تم مجھے نظر انداز کرتے ہو پہلے یہی باتیں تمہیں عزیز ہوا کرتی تھیں۔  اب ان باتوں کی تہارے نزدیک کوئی اہمیت …..  عنیزہ ایسی کوئی بات نہیں اب بھی میں تمہیں اتنا ہی پیار کرتا ہوں، میرے نزدیک تمہاری وہی اہمیت ہے جو پہلے تھی بلکہ اب تو اور زیادہ ہے اب صرف تم میری بیوی اورمحبت ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تم میرے بچوں کی ماں بھی ہو … عنیزہ محبت وہی ہے بس مجبت کا انداز بدلا ہے محبت نہیں میں اب بھی وہی عزیز ہوں جو پانچ سال پہلے تھا یہ دیکھو میرے بیگ میں تمہارے جنم دن کا گفٹ بھی ہے اور شادی کی سالگرہ کا پھول بھی لیکن آج افس گیا اورآفس کے کام اور ٹیشن میں بھول گیا میری جان ایسا نہیں ہے جو تم سوچ رہی ہو۔ ۔ پلیز مجھے معاف کردو،
لیکن عنیزہ میری بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں دنیا میں ہرچیز کا علاج تو ہے لیکن شک کا کوئی علاج نہیں اور اس چھوٹی سی بات پر ناراض ہوکر میکے چلی گئ، اب کون اسے منائے اماں بھی نہیں رہیں کہ فون کرکے اسے منائیں پہلے کبھی ناراض ہوتی تھی تو اماں ہی مناتی تھیں۔

ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی کوئی مثال نہیں، اس کا کوئی ثانی نہیں اس کی محبت اور قربانی لا زوال ہے میری پیدائش سے پڑھائی تک اماں نے ہر دکھ سہے ہر خوشیاں عطاء کی یہاں تک کہ گھر اور خاندان سے بغاوت کرکے، ہر طنز و تعریض کو برداشت کرکے میری محبت پر اپنی ساری محبت ساری آرزوئیں قربان کر د یں  لیکن میں اس ماں کے لئے کچھ نہ کر سکا، اسکے دکھ سکھ کااتنا خیال نہیں رکھ سکا جتنا کہ اس کا حق تھا، اپنی ضد پر اڑا رہا اسکی خواہشوں اسکی آرزؤں کی تکمیل نہ کرسکا جس نے میری خوشی کی خاطر اپنی زندگی وار دی میں اسے پانی کا آخری قطرہ نہ پلا سکا، وہ بیچاری آخیرسانس تک اپنے کانپتے ہاتھوں سے روٹیاں بنا کر کھاتی رہی لیکن بیٹے اور بہو کا سکھ نہ اٹھا سکی۔ ۔ ماں میں شرمندہ ہوں کہ میں اپنی محبت تو سمجھا پر تیری ممتا نہ سمجھ سکا، میں اپنی خوشی تو سمجھا لیکن تیری خوشی کی پرواہ نہ کر سکا۔   ماں میں تیرا گنہگار ہوں ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔  آج نہ تُو میرے ساتھ ہے اور نہ ہی میری محبت۔  کون مجھے سمجھائے اور کون اسے منائے۔

تبصرے بند ہیں۔